شعیب عالم قاسمی
آج کل ہندوستان میں جدھر دیکہئے ہر طرف یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے نعرہ لگائے جا رہے ہیں ہر زبان مسلمانوں پر یکساں سول کوڈ مسلط کرنے اور تھوپنے کی وکالت کرتی نظر آتی ہے مگر جہاں تک یکساں سول کوڈ کی معقولیت کی بات ہے تو اس سلسلہ میں تمام جماعتیں اور ارباب دانش تہی مایہ اور صفر ہیں کیونکہ ان کے پاس علمی حیثیت سے اس کی معقولیت کی کوئی دلیل نہیں ہے صرف اس لنگڑے لولے استدلال کے کہ اس اقدام کے ذریعہ ہندوستان کے تمام فرقوں کے درمیان میل ملاپ قائم ہوجائے گا سیکولرازم کو مضبوطی ملی گی اور جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوجائے گی- جس کے نتیجہ میں ملک کی بقاء سالمیت اور اتحاد کو تقویت ملے گی لیکن حقیقت اور واقعاتی اعتبار سے یہ ایک دھوکہ فریب اور بڑا مغالطہ ہے-
ذرا دیکھتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کیا ہے ؟ اور اس کے نفاذ کی کیا حالت ہے- واقعہ یہ ہے ہندوستان میں ہندو،سکھ، بودھ اور جین فرقوں کا سول کوڈ مشترک ہے یعنی ان چار فرقوں کے لیے ایک ہی سول کوڈ عائلی قانون یا سول پرسنل لاء پایا جاتا ہے – مگر اس مشترکہ کوڈ کے باوجود کیا ان چاروں فرقوں میں قومی یکجہتی امن و سلامتی کا تصور پروان چڑھا ہے اور کیا ان کے درمیان الفت و محبت اور بھائی چارہ پیدا ہوگیا ہے؟ حالات اور واقعات اس کا بین ثبوت ہیں کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے – آخر یکساں سول کوڈ کے باوجود سکہ ہندوؤں کے ساتھ رہنے کے بجائے دور کیوں بھاگ رہا ہے؟ یہ فرقہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر کیوں نہیں رہنا چاہتا ؟ پھر کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ یکساں سول کوڈ کے باوجود نومبر 1984ء میں دہلی اور دوسرے مقامات پر سکہوں کا قتلِ عام کیا گیا اور ان کی املاک و جائداد کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یکساں سول کوڈ جوڑ نے کے بجائے توڑ کیوں رہاہے؟ ظاہر ہے کہ یہ ایک فرقہ کی جارحانہ فرقہ پرستی ہے جس سے ہر ایک خوفزدہ ہے اور ہر ایک کو اپنی انفرادیت خطرے میں نظر آرہی ہے-
اسی طرح کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ مشترکہ لاء ہونے کے بعد بھی ہندو دھرم کے اعلی ذات والے لوگ ادنیٰ ذاتی لوگوں کو دبائے ہوئے ہیں؟ دلتوں کے سلسلے میں ہر روز دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے ہی ہم مذہب اور ہم قانون افراد کے بیجا ظلم و ستم اور جارحیت کا نشانہ بن کر خاک و خون میں تڑپتے دکھائی دیتے ہیں؟ حتی کہ ان کو مندر میں بہی داخلہ کی اجازت نہیں دی جاتی
ظاہر ہے کہ جب ہندو فرقہ اپنے ہی مختلف طبقات کے ساتھ باوجود اپنے مشترکہ کوڈ اور قانون کے محبت اور رواداری کا مظاہرہ نہیں کرسکتا تو بہلا دوسرے مذاہب کے ساتھ کیا کرے گا؟ اپنی نیک نیتی کو ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ پہلے اپنے ہی مختلف طبقات میں اس کا مظاہرہ کرکے ایک اچھا نمونہ اور مثال پیش کرتا، پھر دوسروں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا مگر تنگ نظری، تعصب اور ذات پات کے بھیدوں کو اپنے تمام مفاسد کے ساتھ برقرار رکھتے ہوئے اس قسم کے “عالمی بھائی چارے” کی دعوت ایک عجیب اور بے جوڑ سی بات ہے-
یہ تمام حقائق اور واقعات اس کا ثبوت ہے کہ محض ” ایک کوڈ “کے تبدیل کردینے سے دلوں کی حالت اور کیفیت نہیں بدل جائے گی – یہ کوئی جادو نہیں ہے کہ اس کے ذریعے تمام مذاہب اور تمام فرقوں کی کایا پلٹ جائے گی بلکہ اس قسم کی تبدیلی شاید یکساں غذا،یکساں لباس، یکساں کلچر اور یکساں زبان سے بھی نہ آئے کیوں کہ اس صورت میں قبائلی، خاندانی اور گروہی مفادات سر اٹھانے لگتے ہیں جیسا کہ تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے موجودہ تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ دوسری جنگ عظیم ہے جس میں کروڑوں لوگ مارے گئے تھے ایک ہی مذہب (عیسائیت ) کے مختلف فرقوں اور گروہوں کے درمیان برپا ہوئی تھی جو سب کے سب اپنا یکساں سول کوڈ رکھتے تھے مگر یہ مشترکہ کوڈ ان کے درمیان تاریخ کے سب سے بڑے خون خرابے کو بھی کسی طرح نہ روک سکا اس قسم کی سیکڑوں مثالیں موجود ہیں اور یہ ایسے حقائق و واقعات ہیں جن کو جھٹلایا نہیں جا سکتا – مگر ہندوستان کا حال اس کے بالکل برعکس ہے – یہاں مختلف اقوام، مختلف مذاہب، مختلف مسالک،مختلف فرقوں ،مختلف تہذیبوں، اور مختلف عقائد و نظریات کے لوگ آباد ہیں اور مختلف زبانیں بہی پائی جاتی ہیں جو ایک دوسرے سے بالکل ہی مختلف و متضاد ہیں اور اسی بناء پر یہ عناصر متعدد گروپوں اور ٹکڑیوں میں بٹے ہوئے اور باہم دست و گریباں رہتے ہیں، ہر ایک اپنی بڑائی جتانے اور دوسروں کو ذلیل کرنے پر تلا ہوا نظر آتا ہے، پہر علاقہ پرستی کا جنون آج کل جس طرح پھیل رہا ہے اور مختلف تحریکیں آج جس طرح اقلیتوں اور خصوصاً مسلمانوں کے خلاف محاذ بنا رہی ہے سابقہ ادوار میں اس کی مثال نہیں ملتی – اسی طرح ہندو فرقہ واریت اور ہندو احیاء پرستی کی تحریکیں آج جس منظم پیمانے پر سرگرم عمل ہیں ان سے تمام ہی اقلیتیں خائف اور پریشان ہیں – غرض جس طرف دیکہئے دشمنی، عناد و منافرت، تعصب اور جارحانہ فرقہ پرستی کے مناظر نظر آتے ہیں ایسے سنگین اور انتہائی دھماکہ خیز حالات میں ان فرقہ پرست طاقتوں کو کچل کر امن قائم کرنے کے بجائے یکساں سول کوڈ کا راگ ایک بے وقت کی راگنی ہی نہیں بلکہ ایک کھوکھلا نعرہ اور تعصب پرستی ہی نہیں تو اور کیا ہے؟ غرض اس طرح کے منطقی اقدامات کے ذریعے کچھ فائدہ حاصل ہونے والا نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے لہذا دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس قسم کی منافرت اور بلاوجہ کشیدگی پیدا کرکے فضاء مکدر کرنے کی بجائے اقلیتوں کو اعتماد میں لے کر ان کے خدشات کو دور کیا جائے اور جس قومی یکجہتی کا نعرہ اس ملک میں بلند کیا جاتا ہے اس کو معقول اور واقعاتی بنیادوں پر قائم کرنے کی کوشش کی جائے – اس سلسے میں ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو بار بار قومی دھارے (مین اسٹریم) میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے اور ان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ مین اسٹریم سے کٹے ہوئے ہیں مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ دہارا کیا ہے اور کہاں بہ رہا ہے – ظاہر ہے آج سرکاری اور غیر سرکاری تمام محکموں اور ہر شعبہ زندگی میں مسلمانوں کے ساتھ جو امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر اس قسم کی دعوت یا الزام ایک عجیب سی بات ہے – مسلمانوں سے اچھوتوں جیسا سلوک کرنا پہر الٹا انہی کو الزام بہی دینا سیاست کی بازی گری نہیں تو پہر اور کیا ہے-
قومی یکجہتی مشترکہ سول کوڈ سے کبھی اور کسی بھی صورت میں پیدا نہیں ہوسکتی اصل چیز ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے بلکہ سب کے سب “جیو اور جینے دو” کے اصول کے مطابق امن و سلامتی محبت اور خلوص کے ساتھ رہیں گے تو ہر ایک چین اور سکون کا سانس لے گا اور سب کو پہلنے اور پہولنے کا موقع ملے گا کیونکہ چمن کی رونق اور اس کی زینت کے لیے گلہائے رنگا رنگ کا وجود ضروری ہے – یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی لاکھ کوشش کرکے بہی چمن سے “عدم مساوات ” کو ختم کرکے ہر ہر اعتبار سے “یکسانیت ” لے آئے کیوں کہ یہ فطرت اور قانون خداوندی کے خلاف ایک جنگ ہوگی جو کبھی جیتی نہیں جاسکتی – نوٹ : عدم مساوات قانون فطری ہے اس کے بہت سے دلائل ہیں جس کا یہ مضمون متحمل نہیں اس کے لیے انشاء اللہ دوسرا مضمون عنقریب پیش خدمت کیا جائے گا -(ملت ٹائمز)
Shuaibalamqasmi786@gmail.com
9997786088