مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے منگل کے روز عہدے سے استعفی کا اعلان کیا اور اس کے بعد گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کو اپنا استعفی سونپ دیا۔ انہوں نے استعفی سے کچھ دیر پہلے پریس کانفرنس سے کہا کہ ان کے پاس اکثریت نہیں ہے لہذا وہ استعفیٰ دینے جا رہے ہیں۔ اس طرح سے مہاراشٹرا کی سیاست میں 80 گھنٹے تک چلے ڈرامہ کا اختتام ہو گیا۔ دریں اثنا، دیویندر فڑنویس کی بطور وزیراعلیٰ دوسری اننگز ملک و دنیا کے لئے حیران کن رہی۔
مہاراشٹر میں ہفتہ (23 نومبر) کی صبح آٹھ بجے بی جے پی کی قانون ساز پارٹی کے لیڈر دیویندر فڑنویس کو گورنر بھگت سنگھ کشیاری نے راج بھون میں اچانک حلف دلا کر ملک کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس غیر متوقع پیشرفت میں فڑنویس کے ہمراہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے لیڈر اجیت پوار بھی تھے جنہوں نے اپنے چچا شرد پوار سے بغاوت کر کے نائب وزیر اعلیٰ عہدے کا حلف لیا۔
جیسے ہی حلف برداری کی خبر این سی پی، شیو سینا اور کانگریس خیمہ تک پہنچی یہ تینوں جماعتیں حرکت میں آ گئیں۔ آناً فاناً این سی پی کے سربراہ شرد پوار نے کہا کہ اس حکومت کو نہ تو این سی پی کی حمایت حاصل ہے اور نہ ہی ان کی! اس کے بعد تینوں جماعتوں نے مشترکہ طور پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ نئی حکومت کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے ہفتہ کے روز سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر دی گئی اور تاریخی طور پر سپریم کورٹ نے اتوار کے روز سماعت کی۔ سماعت کے دوران دونوں فریقوں نے عدالت میں اپنے دلائل پیش کیے اور معاملہ کی سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔
نائب وزیر اعلی کے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد اجیت پوار نے خاموشی اختیار کر لی تھی لیکن اتوار کی شام 4 بجے اچانک وہ ٹویٹر پر متحرک ہوئے اور یکے بعد دیگرے 22 ٹویٹ کر ڈالے۔ انہوں نے وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر دفاع کی مبارکباد کا جواب دیا اور مہاراشٹر میں پانچ سالہ مستحکم حکومت کا وعدہ کیا۔ تاہم، اجیت پوار نے یہ بھی کہا کہ وہ این سی پی میں ہیں اور اسی جماعت کا حصہ بنے رہیں گے۔ یہاں تک کہ انہوں نے شرد پوار کو ہی اپنا قائد قرار دیا۔
نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار کے ٹویٹ کے بعد بذبذب کی صورت حال پیدا ہو گئی اور لوگ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ این سی پی نئی حکومت کی حمایت کر رہی ہے یا نہیں! لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکی کیوں شرد پوار جلد بھی ٹویٹر پر نمودار ہو گئے اور کہ صاف کر دیا کہ اجیت پوار لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور این سی پی نے متفقہ طور پر شیو سینا اور کانگریس کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ میں پیر کے روز اس معاملے پر گرماگرم بحث ہوئی۔ معاملہ کی سماعت جسٹس این وی رمنا، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس سنجیو کھنہ نے کی۔ سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے جرح کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’ہارس ٹریڈنگ‘ کا معاملہ نہیں ہے کیوں کہ یہاں تو پورا اسطبل ہی خالی ہے۔ اس پر سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے جواب دیا کہ ، ”اصطبل تو اب بھی موجود ہے لیکن جاکی یعنی مرکزی گھوڑسوار فرار ہو گیا ہے۔“ عرضی پر 80 منٹ کی سماعت کے بعد تین رکنی بنچ نے کہا کہ حتمی فیصلہ منگل کی صبح سنایا جائے گا۔
اس کے بعد منگل کی شام ممبئی کے ہوٹل حیات میں کانگریس-این سی پی اور شیوسینا نے 162 ارکان اسمبلی کی پریڈ کرا کر بی جے پی کو سکتہ میں ڈال دیا۔ این سی پی صدر شرد پوار، شیوسینا کے صدر ادھو ٹھاکرے اور کانگریس کے رہنما اشوک چوان نے یہاں دعوی کیا کہ وہ مہاراشٹر کے اقتدار کے حق دار ہیں کیونکہ ان کی اکثریت کا ہدف ان کے پاس ہے۔ پوار نے کہا کہ بی جے پی کو سمجھنا چاہئے کہ یہ کرناٹک یا گوا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ 162 سے زیادہ ایم ایل اے کا بھی وہ جگاڑ کر سکتے ہیں۔ دریں اثنا، ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ اب وہ یہ بتائیں گے کہ شیوسینا آخر چیز کیا ہے!
عدالت عظمیٰ نے منگل کے روز اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فڑنویس حکومت کو 30 گھنٹوں کے اندر اکثریت حاصل کرنی ہوگی، اعتماد کا ووٹ براہ راست نشر کیا جائے گا، نیز ووٹنگ کا عمل بھی خفیہ نہیں ہوگا۔ عدالت سے کوئی راحت نہ ملنے کے بعد دیویندر فڑنویس کے لئے تمام دروازے بند ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے چند گھنٹوں بعد نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار بھی استعفیٰ دے کر فڑنویس سے کنارہ کر گئے۔
ابھی تک ہر کسی کو یہ اندازہ ہو چکا تھا کہ مہاراشٹر کی فڑنویس حکومت کا کیا انجام ہونے جا رہا ہے، بس اب یہ دیکھنا باقی تھا کہ فڑنویس خود ہی اپنے استعفی کا اعلان کرتے ہیں یا فلور ٹیسٹ میں جا کر ابھی اور بھی فضیحت کرانے کے خواہاں ہیں! خیر، انہوں نے منگل کی سہ پہر ساڑھے تین بجے پریس کانفرنس کی اور کہا کہ ان کے پاس اکثریت نہیں ہے لہذا وہ گونر بھگت سنگھ کوشیاری کو اپنا استعفی سونپنے جا رہے ہیں۔ اس طرح گزشتہ 80 گھنٹوں سے جاری ڈرامہ کا اختتام ہو گیا۔(بشکریہ قومی آواز)