بہار میں شراب بندی: نتیش کی قومی سیاست میں قدم جمانے کی کوشش

ندھی کلپتی
بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے شراب پر پابندی عائد کرکے ایک تاریخی سماجی قدم اٹھا لیا ہے،شراب بین پر لائے گئے سخت قانون کی تنقید کو دیکھتے ہوئے انہوں نے این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر ایک مضمون لکھ کر اپنی ریاست میں شراب پر پابندی لگانے کی کوششوں پر نظریہ صاف کیا،انہوں نے مہاتما گاندھی کو یاد کرکے لکھا کہ باپو نے بھی 1931میں’’ینگ انڈیا‘‘میں لکھا تھا کہ اگر مجھے ایک گھنٹے کے لئے پورے ہندوستان کا ڈکٹیٹر بنا دیا جائے تو بغیر معاوضے کے تمام شراب کی دکانوں کو بند کرنا میرا سب سے پہلا کام ہوگا۔
اپنے قدم کو صحیح ٹھہرانے کے لئے نتیش کمار نے سپریم کورٹ کا حوالہ دے کر کہا کہ منشیات کی بزنس یا تجارت کا کوئی بنیادی حق نہیں ہے،ریاست کو اپنی ریگولیٹری طاقتوں کے تحت منشیات کے کسی بھی شکل کی تعمیر، سٹوریج، درآمد، برآمد، فروخت اور قبضے پر پابندی لگانے کا حق ہے،انہوں نے وضاحت کی کہ تحقیقی جائزہ اور عوامی بیداری کے بعد قانون بنایاگیا ہے ،ایک کروڑ والدین نے شراب نہ لینے کا حلف لیاہے،پانچ لاکھ رضاکار گروپوں نے گرام ڈائیلاگ قائم کیاہے ،اس سے سماجی تبدیلی کی بنیاد پڑی ہے،یہ بھی لکھا کہ ایک طاقتور لابی اس کے خلاف ہے۔
لیکن نتیش کے بہار آبکاری ترمیم بل 2016 کے تحت کچھ شق تنازع کا مسئلہ بن گئے ہیں،اس کے تحت گھر میں تمام بالغ کی ذمہ داری ہوگی اگر گھر میں شراب ملتی ہے یا پی جاتی ہے (یہ غیر ضمانتی ہے) اسپیشل کورٹ اس کے لئے بنائے گئے ہیں جو آبکاری معاملات کو نبٹائیں گے،اب تک یہ کورٹ صرف افسروں میں بدعنوانی کے معاملے سے آئے ہیں،بہر حال بہار میں سنگین جرائم جیسے ماؤنواز تشدد، دہشت گردی، ریپ اور قتل تک کے لئے ایسے کورٹ نہیں ہیں،نئے قانون کے تحت اگر کسی برتن میں چینی، گڑ اور انگوروں کا ایک مرکب مل جاتا ہے تو پولیس کو اختیار دے گا یہ ماننے کا کہ یہاں شراب بن رہی تھی،گھر کے مالکان کی ذمہ داری ہوگی اس بات کا یقین کرنا کہ کرایہ دار شراب تو نہیں پی رہاہے،اگر سانس لینے چیک کرنے کے لئے بریتھ اینالاجر سے جانچ نہیں کراتے تو وہ بھی ایک جرم ماناجائے گا،ایک اور متنازعہ شق ہے کہ وہ گھر ضبط ہو جائے گا جہاں شراب پی یا رکھی جا رہی ہے۔
نتیش کمار کے نئے قوانین کو تغلقی فرمان بتائے جا رہے ہیں،نتیش کمار کا کہنا ہے کہ جو لوگ اس شق کی تنقید کر رہے ہیں تو ان سے گزارش ہے کہ براہ کرم وہ یہ بتائیں کہ اگر کسی کے گھر سے شراب کی بوتلیں برآمد ہوتی ہیں اور خاندان کا کوئی بھی رکن اس کی ذمہ داری نہیں لیتا تو کسے پکڑا جانا چاہئے،انہیں یہ بھی بتانا چاہئے کہ گھر اگر بیوی کے نام ہے تو کسے گرفتار کریں،تو نتیش کمار بھلے ہی شراب بین کو لے کر انتہائی سنجیدہ ہوں لیکن ان کی عملیت پر سوال ہیں،کیا اس کا مخالفین کے خلاف استعمال کریں گے؟ کیا پولیس راج کی طرف بڑھا جا رہا ہے؟ کیا وصولی کا کاروبار بڑھے گا؟ پولیس پر بھی کارروائی کا دباؤ پڑ رہا ہے،پولیس محکمے میں افسر تھانہ انچارج نہیں بننا چاہ رہے ہیں،نتیش بہر حال اتنے سخت ہیں کہ ان کے علاقے نالندہ میں ایک پورے گاؤں پر جرمانہ لگا دیا گیا۔
نتیش کمار کی اس سختی کے پیچھے سماجی پہلو تو ہے ہی لیکن یہ قومی سیاست میں جگہ بنانے کی کوشش بھی مانی جا رہی ہے،ریاست کو کمائی کا نقصان گنایا جا رہا ہے لیکن اس سے سیاسی گرفت مضبوط ہو رہی ہے،بہار، تامل ناڈو کے اعلان کے بعد دیگر ریاستوں میں بھی اس کی مانگ اٹھ رہی ہے،مہاراشٹر میں تین اضلاع میں شراب بین لاگو ہے لیکن فڈنویس حکومت کے لئے پوری ریاست میں بند کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس سے 15000کروڑ کی کمائی ہوتی ہے،چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ میں اس کے لئے مطالبہ ہورہاہے،نتیش کمار نے اتر پردیش کا رخ بھی کیا ہے،اکھلیش یادو کو یوپی میں بھی اسے لاگو کرنے کا مشورہ دیا جا رہا،سوال اٹھ رہے ہیں کہ دہلی کو مشورہ کیوں نہیں جبکہ اروند کیجریوال ان کے خاصے قریبی دوست بتائے جاتے ہیں،شاید اس لئے بھی کہ یوپی میں انتخابات ہیں، دہلی میں نہیں۔
بہار سے پہلے کئی ریاستوں میں مکمل شراب بندی کی پہل ہوئی لیکن گجرات کو چھوڑ کسی ریاست میں برقرار نہیں رہ سکی،بہار کے ساتھ ساتھ یہ گجرات، کیرل اور لکشدیپ میں مکمل طور پر لاگو ہے،منی پور ناگالینڈ میں جزوی طور پر،اس سے پہلے آندھراپردیش، تامل ناڈو، ہریانہ میں چل نہیں سکی،میزورم میں 18 سال بعد خارج کردیا گیا ،سن 1977 میں کرپری ٹھاکر نے بہار اور 1996 میں بنسی لال نے ہریانہ میں اعلان کیا لیکن چل نہیں پایا،امریکہ میں بھی 1920 سے 1933 تک شراب بندی کا استعمال کیا گیا تھا،یورپ اور جنوبی امریکہ میں بھی، لیکن کامیاب نہیں رہے،تو نتیش کمار سماجی تبدیلی کی بنیاد رکھ کر قومی سیاست میں پاؤں جمارہے ہیں،سال 2019 کے انتخابات کی زمین بنانی انہوں نے شروع کر دی ہے۔(ملت ٹائمز)
نوٹ :مصنفہ این ڈی ٹی وی انڈیامیں سینئر ایڈیٹر اور اینکر ہیں، ویب سائٹ سے اردو میں ترجمہ کرکے یہ مضمون ملت ٹائمز میں شائع کیا گیا ہے،ادارہ کا اتفاق ضروری نہیں ہے )