ہم اس طرح کے بل کی پر زور مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ یہ ہندوستان کے آئین کی مختلف آرٹیکل کے خلاف ہے اور اس بل کی بنیاد ہی مذہبی تعصب پر ہے
نئی دہلی: (ملت ٹائمز) مرکزی حکومت کی جانب سے شہریت ترمیمی بل کو پارلیمنٹ سے پاس کر واکر قانونی شکل دینے کی کوششوں اور اس بل کے خلاف پورے نارٹھ ایسٹ کے صوبوں میں لوگوں کی جانب سے زبر دست مخالفت کے درمیان آج دہلی میں واقع آسام ہاﺅس میں ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ کی جانب سے ایک میٹنگ بلائی گئی تھی جس میں نارتھ ایسٹ کے تمام صوبوں کے وزرائے اعلی،وزرائے داخلہ، سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں اور مختلف گروپوں کے ذمہ داروں کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ شہریت ترمیمی بل پر بات کرکے سب کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ مولانا بد رالدین اجمل کی قیادت والی آسام کی ایک اہم سیاسی پارٹی آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف)کی جانب سے پارٹی کے جنرل سکریٹری اڈووکیٹ امین الاسلام نے میٹنگ میں شرکت کرکے صاف لفظوں میں کہا کہ ہم اس طرح کے بل کی پر زور مخالفت کرتے ہیں کیوں کہ یہ ہندوستان کے آئین کی مختلف آرٹیکل کے خلاف ہے اور اس بل کی بنیاد ہی مذہبی تعصب پر ہے۔ انہوں نے وزیر داخلہ سے کہا کہ آپ جو بل لانا چاہ رہے ہیں وہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تقسیم کرنے والا ہے جوکہ آئین ِ ہند کے آرٹیکل ۴۱ کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ایک طرف آپ ۲۰۱۴ تک باہر سے آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دینے کی وکالت کر رہے ہیں اور دوسری طرف آپ کی پارٹی کے لیڈران ۱۹۵۱ کو بنیاد بنا کر NRC بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ یعنی NRC کی زد میں صرف اور صرف مسلمان ہی آئے گاجو کہ سراسر نا انصافی ہے۔ہندوستان کے آئین کی بنیاد جمہوریت اور سیکولرزم پر ہے مگر یہ بل ہندوستانی آئین کی روح کے منافی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر یہ شہریت ترمیمی بل قانونی شکل اختیار کر لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آسام کے لئے سپریم کورٹ کی نگرانی میں تیار ہونے والا NRC جس کے لئے ۱۶۰۰ کروڑ روپیہ خرچ ہوا اور تقریبا پچپن ہزار لوگوں نے جس کے لئے پانچ سال تک کام کیا اس کی کوئی حیثیت نہیں رہ جا ئے گی کیونکہ اس سے باہر رہنے والے تمام غیر مسلموں کو شہریت مل جائے اور صرف مسلمانوں کو ڈیٹینشن کیمپ میں ڈال دیا جائے گا۔ تیسری بات یہ کہ کئی سالوں تک چلنے والی تحریک کے بعد آسام میں امن و امان قائم کرنے کے لئے ۱۹۸۵ میں آسام اکورڈ بنا تھا جس کے تحت ۲۴؍ مارچ ۱۹۷۱ تک آنے والے لوگوں کو ہندوستانی شہری تسلیم کیا جائے گا جبکہ اس کے بعد آنے والوں کو غیر ملکی مانا جائے مگر جب یہ شہریت ترمیمی بل پاس ہوجانے کی صورت میں آسام اکورڈ کا کوئی مطلب نہیں رہ جائے گا کیونکہ اس کی وجہ سے ۲۰۱۴ تک آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دے دی جائے گی۔ چوتھی بات یہ کہ اس بل کے پاس ہونے کے بعد آسام کی تہذیب اور شناخت ختم ہو جائے گی کیونکہ باہر سے جو لوگ آئیں گے وہ آسامی نہیں ہوں گے اور وہ آسام میں اکثریت میں ہو جائیں گے جس سے آسام کی شناخت کو خطرہ لاحق ہوگا حالانکہ آسام کے لوگوں نے اپنی تہذیب کے تحفظ کے لئے طویل مدت تک لڑائی لڑی ہے۔پانچویں بات یہ کہ آپ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ نارتھ ایسٹ کی جن ریاستوں کو دفعہ ۱۷۳ کے تحت خصوصی درجہ ملا ہوا ہے اس سے چھیڑ چھاڑ نہیں کیا جائے گا، اسی طرح ٹرائیبل کے حقوق کی بھی رعایت کی جائے گی، تو اس کا مطلب ہے کہ اس بل سے صرف اور صرف مسلمانوں اور آسام کے لوگوں کو نقصان ہونے والا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم اس بل کے ذریعہ اُ ن کو شہریت دینا چاہ رہے ہیں جن کے ساتھ پڑوس کے ملکوں میں مذہب کی بنیاد پر ظلم و تشدد ہوا ہے، کسی ہندوستانی کو ٹارگیٹ کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس پر ایڈووکیٹ امین الاسلام نے کہا کہ تقسیمِ ملک کے وقت کی بات اگر کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے اور بڑی تعداد میں غیر مسلم یہاں آگئے تھے جو آسام بنگال، تریپورہ وغیرہ میں آباد ہو گئے مگر اب بھی ایسا ہو رہا ہے یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے۔ اور اگرفرض کر لیں کہ ایسا ہو رہا ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے بنگلہ دیش کی سرکار سے اس بارے میں کتنی بار بات کی ہے؟ مولانا بدرالدین اجمل کی ہدایت پر میٹنگ میں شرکت کے بعد ایڈووکیٹ امین الاسلام نے کہا کہ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مرکزی سرکار اس بل کو کسی بھی حال میں پارلیمنٹ سے پاس کرنا چاہ رہی ہے ، اگر ایسا ہوا تو یہ ہندوستانی جمہوریت کے لئے ایک سیاہ دن ہوگا ۔انہوں نے کہا پورے آسام میں اور نارتھ ایسٹ کی دیگر ریاستوں میں ہر روز اس کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے مگر سرکار اپنی ضد پر اڑی ہے جو اس ملک کے لئے نقصاندہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی نے پہلے بھی اس بل کی مخالفت کی تھی اور اب بھی پارلیمنٹ، اسمبلی،اور سڑکوں پر اس کی پر زور مخالفت کرےگی او راگر پھر بھی سرکار نے اسے قانونی شکل دے دی تو ہم سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا ئیں گے۔






