محمد عباس دھالیوال
مالیر کوٹلہ ، پنجاب
اذان کی شروعات کب ، کیسے اور کس طرح سے ہوئی اس ضمن میں مطالعہ کرتے ہوئے جو باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں اس میں مختلف خیالات و دلائل سامنے آتے ہیں. جن کے مطابق نماز كے ليے اسلامى اذان ابراہيم عليہ السلام كے دور سے ہى شروع ہو ئی مانی جاتی ہے اس ضمن میں دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اللہ نے جو قرآن ميں ارشاد فرمايا ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ اور آپ لوگوں ميں حج كا اعلان كرديں، وہ تيرے پاس پيدل اور ہر سوارى پر آئينگے.
مطالعہ میں تو یہاں تک بھی آیا ہے كہ آدم علیہ السلام كے زمين آنے کے وقت کے بعد سے ہى انبياء كے ہاں اذان معروف تھى.
ليكن جہاں تک علماء کرام کا خیال ہے تو ان کے خیالات مذکورہ باتوں سے منفرد ہیں .ان کی نظر میں یہ بات صحيح نہيں ہے. بلکہ صحيح یہ ہے كہ اذان اسلام کے آخری پیغمبر محمد (ص) كے دور ميں مدينہ مبارک ميں شروع ہوئى نہ كہ مكہ ميں، اور نہ ہى معراج كے موقع پر جيسا كہ بعض ضعيف احاديث ميں موجود ہے .
دراصل جب مسلمان ( ہجرت کر کے ) مدینہ پہنچے تو وقت مقرر کر کے نماز کے لیے آتے تھے۔ اس کے لیے باقاعدہ کوئی اذان نہیں دی جاتی تھی۔ اس ضمن میں ایک دن یہ مشورہ ہو نے لگا ۔ تو کسی نے کہا کہ نصاریٰ کی طرح ایک گھنٹہ لے لیا جائے اور کسی نے کہا کہ یہودیوں کی طرح نرسنگا ( بگل بنا لو، اس کو پھونک دیا کرو ) لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کسی شخص کو کیوں نہ بھیج دیا جائے جو نماز کے لیے پکار دیا کرے۔ اس پر آخری پیغمبر( ص) نے ( اسی رائے کو پسند فرمایا اور بلال سے ) فرمایا کہ بلال! اٹھ اور نماز کے لیے اذان دے
صحيح احاديث سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے كہ اذان آخری نبی كے عہد مبارک ميں مدينہ شريف ميں شروع ہوئى . اس حوالے سے چند صحيح احاديث کا مفہوم قارئین کی معلومات کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے. ایک
حدیث کے مطابق جب مسلمان مدينہ آئے تو وہ نماز كے ليے جمع ہوا كرتے تھے، اور نماز كے ليے اذان نہيں ہوتى تھى، چنانچہ اس سلسلہ ميں ايک روز انہوں نے نبی کریم (ص) باہمی مشورہ کیا تو كچھ لوگ كہنے لگے عيسائيوں كى طرح ناقوس بنا ليا جائے، اور بعض كہنے لگے کہ يہوديوں كے سينگ كى طرح كا بگل بنا ليا جائے.چنانچہ اسلام کے دوئم خلیفہ عمر(رض) نے مشورہ دیا کہ تم كسى شخص كو اس کی ذمہ داری كيوں نہيں مقرر كرتے كہ وہ نماز كے ليے منادى كرے، تو آخری نبی (ص) کو یہ تجویز پسند آئی اور آپ نے حضرت بلال (رض) کو اٹھ كر نماز كے ليے منادى كرنے کے کہا.
ایک اور حدیث کے مطابق ابن عمير بن انس اپنے ايک انصارى چچا سے بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم (ص) كو يہ مسئلہ درپيش آيا كہ لوگوں كو نماز كے ليے كيسے جمع كيا جائے؟ كسى نے كہا كہ نماز كا وقت ہونے پر جھنڈا نصب كر ديا جائے جب وہ اسے ديكھيں گے تو ايک دوسرے كو بتا دينگے، ليكن نبی كريم (ص) کو يہ طريقہ پسند نہ آيا.
راوى کا بیان ہے كہ بگل كا ذكر ہوا، زياد كہتے ہيں كہ يہوديوں والا بگل چنانچہ رسول كريم (ص) كو يہ بھى پسند نہ آيا، اور فرمايا يہ تو يہوديوں كا طريقہ ہے، راوى كہتے ہيں چنانچہ رسول كريم (ص) كے سامنے ناقوس كا ذكر ہوا، تو نبى كريم (ص) نے فرمايا يہ تو عيسائيوں كا طريقہ ہے.
چنانچہ ایک اور واقع کہ مطابق عبد اللہ بن زيد بن عبد ربہ وہاں سے نكلے تو انہيں نبى كريم(ص) كے اسى معاملہ كى فكر كھائے جارہى تھى اور وہ اسى سوچ ميں غرق تھے، چنانچہ انہيں خواب ميں اذان دكھائى گئى، راوى كہتے ہيں جب وہ صبح رسول كريم( ص) كے پاس آئے تو انہيں اپنا خواب بيان كرتے ہوئے كہنے لگے
ميں اپنى نيند اور بیداری کی درميان والى حالت ميں تھا كہ ايک شخص آيا اور مجھے اذان سكھائى، راوى كہتے ہيں کہ اس سے قبل عمر( رض) بھى يہ خواب ديكھ چكے تھے، ليكن انہوں نے اسے بيس روز تک چھپائے ركھا اور بيان نہ كيا. انہوں نے بھى رسول كريم (ص) كو اپنا خواب بيان كیا تو آپ نے جو فرمایا اس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ تمہيں خواب بيان كرنے سے كس چيز نے منع كيا تھا ؟ توانہوں نے جواب ديا عبد اللہ بن زيد مجھ سے سبقت لے گئے تو ميں نے بيان كرنے میں شرم محسوس كى چنانچہ رسول كريم نے فرمايا کہ
بلال اٹھو اور ديكھو تمہيں عبد اللہ بن زيد كيا كہتے ہيں تم بھى اسى طرح كرو، چنانچہ پھر عبداللہ بن زید کے مطابق بلال نے اذان دی یا کہی.
عبد اللہ بن زيد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو نماز كے وقت جمع كرنے كے ليے ناقوس بنانے كا حكم ديا تو ميرے پاس خواب ميں ايک شخص آيا جس كے ہاتھ ميں ناقوس تھا ميں نے كہا: اے اللہ كے بندے كيا تم يہ ناقوس فروخت كروگے ؟
تو اس نے جواب ديا تم اسے خريد كر كيا كرو گے ؟ ميں نے جواب ديا: ہم اس كے ساتھ نماز كے ليے بلايا كرينگے، تو وہ كہنے لگا: كيا ميں اس سے بھى بہتر چيز تمہيں نہ بتاؤں ؟ تو ميں نے اس سے كہا: كيوں نہيں، تو اس نے موجودہ وقت میں بولے جانے والے اذان کے کلمات دہرائے.
جن کا مفہوم و ترجمہ یہ ہے کہ ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے ) ( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
( نماز كى طرف آؤ )
( نماز كى طرف آؤ )
( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں )
راوى بيان كرتے ہيں: پھر وہ كچھ ہى دور گيا اور كہنے لگا:
اور جب تم نماز كى اقامت كہو تو يہ كلمات كہنا:
( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
( ميں گواہى ديتا ہوں كہ اللہ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں )
( ميں گواہى ديتا ہوں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں )
( نماز كى طرف آؤ )
( فلاح و كاميابى كى طرف آؤ )
( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
( يقينا نماز كھڑى ہو گئى )
( اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے )
( اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود نہيں ).
عبد اللہ رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں چنانچہ جب صبح ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس گيا تو اپنى خواب بيان كى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ان شاء اللہ يہ خواب حق ہے، تم بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ كھڑے ہو كر اسے اپنى خواب بيان كرو، اور وہ اذان كہے، كيونكہ اس كى آواز تم سے زيادہ بلند ہے.
چنانچہ ميں بلال رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ كھڑا ہوا اور انہيں كلمات بتاتا رہا اور وہ ان كلمات كے ساتھ اذان دينے لگے، جب عمر رضى اللہ تعالى نے يہ اپنے گھر ميں سنے تو وہ اپنى چادر كھينچتے ہوئے چلے آئے اور كہنے لگے:اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس ذات كى قسم جس نے آپ كو حق دے كر مبعوث كيا ہے، ميں نے بھى اسى طرح كى خواب ديكھى ہے چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: الحمد للہ.
يہ اس بات كى دليل ہيں كہ اذان كى ابتد رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مدنى دور يعنى مدينہ منورہ ميں شروع ہوئى اور يہ اس امت مسلمہ كى ايک فضيلت شمار ہوتى ہے جسے اللہ تعالى نے سارى امتوں پر فضيلت دى ہے.
ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کتنی فضیلت ہے پھر وہ اس پر قرعہ اندازی کرنے کے بغیر کوئی چارہ نہ پائیں تو وہ اس پر ضرور قرعہ اندازی کریں. اور اگر وہ جان لیں کہ (نماز کے لیے) اول وقت آنے میں کیا فضیلت ہے تو وہ ضرور اس کی طرف دوڑ کر آئیں. اور اگر وہ جان لیں کہ نماز عشا اور نماز فجر کی کتنی فضیلت ہے تو وہ ضرور ان میں شریک ہوں ،اگر چہ انہیں سر ین کے بل گھسٹ کر آنا پڑے۔
ایک حدیث مبارکہ کے مطابق قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤذن کی گردن کو تمام مخلوق سے بلند فرمادیں گے، مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤذن کو قیامت کے دن بہت اونچا مقام عطا کریں گے۔
ایک دوسری حدیث کا مفہوم ہے کہ تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہوں گے، جنہیں دیکھ کر تمام اولین وآخرین رشک کریں گے، ایک ایسا غلام جو اللہ اور اپنے آقا کے حقوق ادا کرتا ہو، دوسرے وہ امام جس سے اس کے مقتدی راضی ہوں، تیسرے وہ مؤذن جو پانچوں وقت کی اذان دیتا ہو۔
رابطہ: 9855259650
abbasdhaliwal72@gmail.com