محمد شارب ضیاء رحمانی
شہریت ترمیمی بل کل پیش ہونے والا ہے، اپوزیشن پارٹیوں کے سیکولرازم کاسخت امتحان ہے، بل کی مخالفت کی آواز بلند ہورہی ہے، کانگریس، راجد، لیفٹ، ترنمول، این سی پی بھی مخالفت کریں گی خود این ڈی اے سے لوجپا مخالفت کررہی ہے، ہاں بہار کے ایک سیکولر صاحب ہیں جن کے مسلم نیتا مسلم علاقوں میں سیکولرازم کے نام پر ووٹ مانگتے رہے ہیں، اس کے مکھیا کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے، کرسی کمار گو مگو کررہے ہیں، بلیاویوں کو بتانا چاہیے کہ ان کے حضور کے مزاج عالی بخیر ہیں؟
اور ہاں مہاراشٹرا میں ایک پارٹی نئی نئی سیکولر بنی ہے، کامن مینیمم پروگرام میں سیکولراقدار پر زور دیا گیا ہے، فرقہ وارانہ ایجنڈوں سے توبہ کرائی گئی ہے، اب تک لگ رہا ہے کہ یہ بلی کی توبہ ہے کیوں کہ سنجے راوت نے اس بل کی حمایت کا اشارہ دیا ہے، اب کانگریس، این سی پی اور سماجوادی لیڈران کو بتانا چاہیے کہ ان کی نئی نئی دوست بے وفائی کیوں کررہی ہے اور اگر وعدہ وفا نہ کیا تو نئی محبوبہ کی زلفوں کی اسارت سے کب یہ نام نہاد پارٹیاں چھٹکارا پائیں گی؟ یعنی اگر شیوسینا نے فرقہ پرستی پر مبنی ایجنڈے پر بی جے پی کا ساتھ دیا تو مہاراشٹرا میں ان کی پالیسی کیا ہوگی، جب مذہبی بنیادوں پر قانون سازی میں غلام نبی آزاد، احمد پٹیل، ابوعاصم اعظمی کے دوستوں کا ہاتھ ہوگا تو یہ گنہگار کیوں نہیں سمجھے جائیں گے؟ کیا کانگریس، این سی پی اور سماجوادی پارٹی نے شیوسینا کو راہ پر لانے کی کوشش کی، اس کو اپنے ارادے سے باز رکھا؟ اگر نھیں تو انھیں سیکولر اصولوں پر بننے والی سرکار میں رہنے کا کیا حق رہ جاتا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ یہ پارٹیاں شیوسینا کے تئیں سنجیدہ فیصلے کرتی ہیں یا روایت کے مطابق دوغلاپن کے ثبوت دیتی ہیں۔
دو سیکولر صاحبان آندھراپردیش اور تلنگانہ میں بھی ہیں، ایوان میں چندر شیکھر اور ریڈی کی پارٹیوں کا بھی اہم کردار ہوگا، اویسی اپنے دوست کے سی آر کو کتنا منا پائے ہیں، اس کی ذمے داری اویسی پر بھی آئے گی، انھوں نے کے سی آر کے لیے الیکشن میں خوب وکالت کی ہے، اویسی کو بتانا چاہیے کہ ان کے دوست کاکہیں جدیو کی طرح ایوان سے بھاگ کر بل پاس کرانے کا ارادہ تو نہیں ہے یا مضبوطی کے ساتھ مخالفت کرنے کو تیار ہیں۔
اگر راجیہ سبھا میں یو پی اے کے علاوہ، جدیو، لوجپا، ایس پی، اے آئی ڈی ایم کے،بیجو جنتادل، ٹی آر ایس، تید پپانے مخلصانہ مخالفت کی تو بل ضرور اٹکے گا اور یہی ان پارٹیوں کے سیکولرازم کا امتحان ہے، اس کے بعد مسلمانوں کو اپنے ووٹ کے لیے واضح پالیسی کا اعلان کردینا چاہیے، مسلمان اب سو نہیں رہے ہیں، جاگ گئے ہیں، اس بار چالاکی سے کام نہیں چلے گا، جاگ اٹھے ہیں دیوانے، بے وقوف بنانے کا زمانہ گیا، ایک ایک مکاری پر 20 کروڑ آبادی کی نگاہ ہے، پارلیمنٹ سے ووٹنگ کے وقت بھاگنے والے، غیرحاضر رہنے والے بھی، حمایت کرنے والوں کی طرح مجرم ہوں گے جس کا الیکشن میں ضرور بدلہ لیاجائے گا۔






