ڈاکٹر سیّد احمد قادری
ہندوستان پر زبردستی قابض ہونے والے اور ہندوستانیوں کو اپنا غلام بنانے والے انگریزوں کے خلاف جہد مسلسل میں یہاں کے مسلمانوں کا جو رول رہا اور ان مسلمانوں نے اپنے اُوپر ہو نے والے ظلم وبربریت اور قتل و غارتگری کے خلاف جس طرح نبرد آزما رہتے ہوئے ملک کو ان کے ناپاک چنگل سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوئے ۔ یہ سب واقعات ، سانحات اور حادثات ہمارے ملک کی تاریخ کا اہم حصہ ہیں ، جو سنہری حروف میں لکھے گئے ہیں ۔
اس امر سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا ہے اور جاننے والے بھی بخوبی واقف ہیں کہ آزادئ ہند کے لئے ملک کے مسلمانوں نے کیسی کیسی قربانیاں دی ہیں۔ ہم اس بات سے قطئی انکار نہیں کر سکتے کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ اہل وطن کی بھی قربانیاں رہی ہیں ۔ لیکن جنگ آزادی کی بھرپور اور غیر متعصبانہ تحقیق کی جائے تو یہ بات پوری طرح عیاں ہو جائیگی کہ مسلمانوں کی قربانیاں ان کے مقابلے کہیں زیادہ رہی ہیں ۔ اس کی وجہ بہت واضح ہے کہ جس وقت ملک پر انگریزوں نے اپنا تسلط قائم کیا تھا ، اس وقت یہاں مسلمانوں کی حکمرانی تھی اور انھیں دھیرے دھیرے بے دست و پا کر انگریزوں نے ملک پر ناجائز اور ناپاک قبضہ جمایا تھا ، اس لئے انگریزوں کی نگاہ میں یہاں کے مسلمان ہی ان کے لئے دشمن نمبر ایک تھے ۔ اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ 1857 ء کا غدر جو باضا بطہ انگریزوں کے خلاف پہلی کھلم کھلا بغاوت تھی ، گرچہ بظاہر یہ بغاوت ناکام ہوئی ، اور اس بغاوت کی پاداش میں اس وقت 106 مسلمانوں کو پھانسی دی گئی تھی، 29 مسلم مجاہد آزادی کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن اس بغاوت سے یہ ضرور ہوا تھاکہ انگریز حکمرانوں کے ظلم وتشدد اور بے رحمانہ سلوک سے جو خوف غالب تھا ، وہ کسی حد تک دور ہوا اور حکومت برطانیہ سے نجات کی کوششوں میں تیزی آتی گئی ۔ اس بغاوت کے بظاہر اثرات کے کم ہو جانے کے بعد دلی شہر کے شہریوں نے واپس آنا شروع کیا ، تو اس وقت ان شہریوں میں ہندوؤں کو واپس آنے کی پہلے اجازت دی گئی اور ان کے بعد مسلمانوں کو 18 اپریل 1858 ء کو اپنے شہر واپس آنے کا حکم دیا گیا ، اور وہ بھی اس شرط کے ساتھ کہ اپنی جائداد کا 25 فی صد ٹیکس انگریز حکومت کو ادا کرنا ہوگا ۔ اس طرح کے کئی ایسے واقعات سامنے آئے ، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ حکومت برطانیہ کی نگاہ میں سب سے بڑے اور سامنے کے دشمن بھارت کے مسلمان ہی تھے ۔ یہی وجہ تھی انگریزوں کے ہمیشہ خاص نشانہ بھارت کے مسلمان ہی رہے ۔ ان پر ظلم و زیادتی کی انتہا ہوتی رہی ۔ انھیں کبھی توپ کے دہانے سے باندھ کر اڑایا گیا اور کبھی سینکڑوں کی تعداد میں علمأ اور عام مسلمانوں کو حکم عدولی پر پھانسی دی گئی ۔
مسلم مجاہدین آزادی کے ایسے کارناموں سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں ۔ 1857 ء کے انقلاب کے بعد آزادی کے متوالوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا اور 1921 ء میں احمد آباد کانفرنس میں یہ حسرت موہانی ہی تھے ، جنھوں نے ’’ مکمل آزادی‘‘ کی پہلی بار تجویز رکھی تھی، جسے شد و مد کے ساتھ موتی لعل نہرو، مہاتما گاندھی اور جواہر لعل نہرو نے 1929 ء میں آخر کار مان لیا تھا ۔ یہ حسرت موہانی ہی تھے جنھوں نے 1940ء میں کانپورمیں مزدوروں کے ایک جلوس کی رہنمائی کرتے ہوئے پہلی بار ’’ انقلاب زندہ باد ‘‘ کا نعرہ دیا تھا ۔ آج ہم بڑے فخریہ انداز میں ملک کے لئے سرفروشی کی بات کرتے ہیں اور ’’سرفروشی تمنّا اب ہمارے دل میں ہے ، دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے….‘‘ سنا سنا کر مجاہدین آزادی کے دلوں میں ملک کے لئے محبت اور سرشاری کا جزبہ جگانے کے لئے جھوم جھوم کر ایسے اشعار سنایا اور گایا کرتے تھے ۔ اس کے تخلیق کا ر بھی بسمل عظیم آبادی تھے اور آج بھی پورے ملک میں ہر وقت اپنے ملک سے اپنی محبت اور وابستگی کے اظہار کے لئے لوگوں کی زبان پر ’’ جئے ہند ‘‘ جیسے الفاظ آزاد ہند فوج سے تعلق رکھنے والے عابد حسین صفرانی کا ہی دیا ہوا ہے ۔
ملک کے لئے انگریزوں کے قہر و بربریت کا شکار ہونے والے ، ہنستے ہنستے دار پر چڑھنے والے ، جیل کی اندھیری کوٹھریوں کو آباد کرنے والے، اپنے جسم و دل پر زخموں کا پھول سجانے والے ایسے مسلمانوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ۔ ایسے مجاہدین آزادی پر ایک اچٹتی سی بھی نظر ڈالیں ، تو ہمیں بے اختیار ٹیپوسلطان، حیدر علی خاں،عظیم اللہ خاں ،بدرالدین طیب جی،رحمت اللہ ایم سیانی، پیر علی، شیخ بھکاری ، شیخ محمد گلاب، بی اماں، شوکت علی، محمد علی، محمد علی جوہر،شیر علی، مولانا منصور انصاری،محمد اشفاق اللہ خاں،پروفیسر عبدالباری، سیف الدین کچلو،مولانا حفظ الرحمٰن ، محمد سلیمان انصاری، خالد سیف اللہ انصاری، شفیق الرحمٰن قدفوائی، حکیم اجمل خاں، حضرت محل۔ قاضی محمد حسین، مظہر الحق،مختار احمد انصاری، آصف علی،حاجی بیگم، مولانا عبد الرحیم صادقپوری، مولانا احمد اللہ صقادقپوری، دلاور خاں، سر سید سلطان احمد، محمد یونس،ڈاکٹر سید محمود، ابو محمد ابراہیم آروی، شاہ محمد زبیر، مغفور احمد اعجازی، مسٹر عبد اعزیز ، سر سید محمد فخرالدین، سر علی امام، کرنل محبوب احمد، پیر محمد یونس،وارث علی، مولانا ابولکلام آزاد، رفیع احمد قدوائی،مولوی محمد جعفر،مولانا برکت اللہ بھوپالی،، مولانا یحییٰ،عبیداللہ سندھی، عطااللہ شاہ بخاری،مولوی عبدالغنی ڈار
وغیرہ جیسے سینکڑوں ، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایسے مسلم مجاہدین ٓزادی کے نام ہیں ، جنھوں نے نہ صرف 1857 ء کے غدر، میں بلکہ نمک ستیہ گرہ تحریک، ہندوستان چھوڑو تحریک، کاکوری کیس، قصہ خوانی بازار میں ، جلیان والا باغ کے خونی واقعہ،ناگپور جھنڈا تحریک وغیرہ میں اپنے ایثار و قربانیوں سے حب الوطنی کی ایسی مثالیں پیش کی ہیں کہ بعض حقیقت پسند اور سیکولر انگریز تاریخ داں بھی ان کے ایسے کارناموں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہے۔ تاریخ کے اوراق ان سانحات کے گواہ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ملک کے مسلم مجاہدین کی تفصیلات میں سے اگر میں ان کے متعلق دو دو جملے بھی لکھوں ، تو مجھے یقین ہے کہ کئی ہزاروں صفحات پر مشتمل ایک شاندار کتاب تیار ہو جائیگی ۔ لیکن ایسا ساز تاریخ کام کوئی تن تنہا نہیں کر سکتا ۔ ہاں ریاستی ستح پر یہ کام ہو سکتا ہے اور ایسی کتابوں کو شائع کر ہم اپنی شاندار اور سنہری تاریخ کو کسی حد تک محفوظ کر سکتے ہیں ۔
ان دنوں ملک میں جس طرح کا متعصبانہ رویہ مسلمانوں کے تئیں اپنایا جا رہا ہے اورمسلمانوں کی شاندار تاریخ کو منصوبہ بند اور منظم طریقے سے مسخ کر ایک نئی تاریخ لکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور اس کے لئے جیسے جیسے متعصب تاریخ دانوں کے نام سامنے آ رہے ہیں ، وہ ظاہر ہے ملک کی تاریخ کو مسخ کر اپنے زعفرانی منصوبوں پر عمل کرتے ہوئے، ایسی تاریخ مرتب کرینگے ، جو ہر حال میں ’’مسلم مکت‘‘ تاریخ ہوگی ۔ فرقہ پرستوں کی جانب سے ایسی کوششیں پہلے بھی ہوئی ہیں ، لیکن ایسا کرنے میں انھیں زیادہ کامیابی نہیں ملی تھی ، لیکن اب وقت اور حالات ان کے موافق ہیں ، اس لئے ایسے لوگ اب اپنے زعفرانی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں کسی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ اس وقت ایسے عرفان حبیب، رام شرن شرما،وشمبھر ناتھ پانڈے، بپن چندرا،رومیلا تھاپڑ،دیوجیندر نرائن جھا،رام چندر گوہا، برون ڈے،اے جی نورانی، اور ستیش چندرا وغیرہ جیسے سیکولر اور دانشورانہ شان و صلاحیتوں کے تاریخ داں جو ان متعصب تاریخ کو کالعدم قرار دے سکتے تھے ،ان میں سے کچھ گزر گئے جو چند بچے ہیں ، وہ موجودہ حکومت کی سینہ زوری کو دیکھ کر خوف و ہراس میں ڈوبے خاموش بیٹھ گئے ہیں، کہ ان کے سامنے کلبرگی، دابھولکر اور پنسارے وغیرہ کا حشر سامنے ہے ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ریاستی پیمانے پر تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے مصنفین اپنی اپنی ریاستوں کی پوری تاریخ تحقیقی حوالوں کے ساتھ لکھیں اور شائع کرائیں ۔ یہ نہایت ضروری ہے ۔ اس وقت اگر ہم نے ان تاریخی فرائض سے کوتاہی کی تو یقین جانیں کہ ’’ہماری داستان تک نہ ہوگی تاریخ ہندمیں ‘‘ ۔ (ملت ٹائمز)