کیا قیادت بدل گئی ہے؟

مشرف عالم ذوقی

ملک گیر سطح پر احتجاج جاری ہے، ابھی یہ نہیں سوچنا ہے کہ نتیجہ کیا نکلے گا؟سب سے پہلے مودی اور امت شاہ کی سیاست کو دیکھتے ہیں۔ ۲۰۱۹؁ء انتخابات کے بعد مودی اور امت شاہ کی پریس کانفرنس کو یاد کیجئے، ۲۰۱۴؁ء سے ۲۰۱۹؁ء تک مودی کی قیادت رہی، امیت شاہ بی جے پی کے قومی صدر تھے، مگر مودی کے پیچھے تھے،انتخابات ہونے تک مودی کو جیت کا یقین نہیں تھا، پریس کانفرنس میں مودی کے چہرے کے تاثرات کو یاد کریں تو یہ چہرہ ایک شکست خوردہ سیاست دان کا چہرہ تھا ، جو سوچ رہا تھا کہ شکست ملنے کے بعد انجام کیا ہوگا ؟ امت شاہ کے چہرے پر سکون تھا ، شاہ کو یقین تھا کہ بازی ان کے ہاتھ رہے گی۔ پریس کانفرنس میں مودی خاموش رہے، شاہ کو جو بولنا تھا ، بولتے رہے۔ بازی یہاں سے پلٹ گئی، انتخابات میں مودی کی واپسی ہوئی لیکن اصل واپسی شاہ کی ہوئی، وزیر داخلہ بنائےگئے۔ چھ ماہ کے اندر مودی پیچھے ہو گئے،شاہ آگے چلے گئے، کشمیر ، ۳۷۰ ، این آر سی ، کیب سب پر شاہ کی مہر ہے، آزادی سے اب تک اگر غور کریں تو وزیر داخلہ کی حیثیت عام طور پر صدر جمہوریہ کی طرح رہی ہے،وزیر داخلہ کبھی کبھی کوئی بیان جاری کرتا ہے، در اصل وزیر داخلہ ، وزیر اعظم کے کام کو ہی آگے بڑھاتا ہے، راج ناتھ بھی کٹھ پتلی تھے، امت شاہ کٹھ پتلی نہیں بلکہ وہ ذمہ داری ادا کر رہے ہیں جو مودی کو ادا کرنی تھی۔ اب سی اے اے پر چلنے والے ملک گیر احتجاج نے کمان نوجوانوں کو سونپ دی ہے، آزادی کے بعد پہلی بار یہ بھی ہوا کہ ہمارے علما حاشیہ پر چلے گئے، یہ اچھا بھی ہوا، علما شامل ہوتے تو یہ احتجاج ہندو بنام مسلم بن کر رہ جاتا۔ جامعہ کے نوجوانوں کا حوصلہ تھا کہ ہاورڈ یونیور سٹی سے لے کر ایک بڑی دنیا نوجوانوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی، امت شاہ کی فکر تھی کہ مسلمان کیب پر ہنگامہ تو کریں گے مگر فائدہ بی جے پی کو ہوگا۔ جتنا ہنگامہ مسلمان کریں گے، اتنا ہی کمل کھلے گا، یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک بہت بڑی دنیا کے ساتھ یہ تحریک ہندوستان بچاؤ تحریک میں تبدیل ہو جائے گی، بل کے قانون بننے تک میڈیا نے اس معاملے کو ہندو مسلم رنگ دینے کی کوشش کی لیکن جب معاملہ آزادی کے بعد آزادی کی لڑائی پر آ گیا تو میڈیا کے بھی ہوش اڑگئے، اس احتجاج سے ہندوستانی میڈیا مکمل بے نقاب ہو گیا۔ اب دوسرا پہلو ، مسلم قیادت حاشیہ پر چلی گئی، نوجوانوں نے قیادت سنبھال لی اور بتایا کہ ہندوستان کو ہم ہندو اور مسلمان کی نظر سے نہیں دیکھتے، جبکہ علما اب تک یہی کرتے رہے، قیادت بدل گئی، مختلف ریاستوں میں وزیر اعلی کے سر بدل گئے، یہ سر ایوان میں کیوں نہیں بدلے جب ووٹنگ چل رہی تھی؟ پھر نہ اتنا ہنگامہ ہوتا نہ کچھ غیرت مند محب وطن کی ہلاکت سامنے آتی، انتظار کیجئے، ان ریاستوں میں بھی قیادت بدلے گی۔ مایاوتی کی جگہ اب چندر شیکھر راون کا نام سامنے ہے۔ تبدیلی تیز ہے اور غور کریں تو جو تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں ، وہ غیر معمولی ہیں۔ ان کے اثرات سامنےآئیں گے۔ شرد پوار کا بیان آیا ہےکہ بی جے پی کی الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے، وقت کا انتظار کیجئے، یہ پیشین گوئی صحیح بھی ہو سکتی ہےـ

 

 

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں