
مولانا عبد الرشید
وطن عزیز ہندوستان میں جشن اے آزادی کی دھوم دھام ہے۔
ہندوستان کی جنگ آزادی کے عظیم الشان شہداکو یاد کرنے کی رسم بڑی شان و شوکت سے ادا کی جا رہی ہے
9 اگست انگریزوں بھارت چھوڑو تحریک کی 75 ویں برسی کے موقع پر پندرہ روزہ جشن کا آغاز ہو چکا ہے .9 اگست 1942 وہ دن تھا جب ہندوستان چھوڑو تحریک کا آغاز ہوا تھا۔ یاد کرو قربانی کے تحت ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے اوراق کھنگالے جا رہے ہیں اور شہدائے آزادی کو خراجے عقیدت پیش کیا جا رہا ہے جس کا آغاز مجاہد اے آزادی چندر شیکھر آزاد کے جائے پیدائش علی راج پور مدھیہ پردیش میں وزیر اے اعظم نے کیا۔یقیناًیہ مرکزی حکومت کا قابل اے تعریف قدم ہے۔مگر ساتھ ہی بحیثیت ایک مسلمان اور ایک ہندوستانی شہری کے ہمارے دلوں میں کہیں نہ کہیں یہ ٹیس اٹھتی ہے کہ آخر مجاہدین آزادی کے ذکر اے خیر میں ان عظیم الشان مسلم مجاہدین آزادی کو کیوں شامل نہیں کیا جاتا جن کی جدوجہد کے بغیر ہندوستان کی آزادی کا تصور ہی نا ممکن ہے۔شہید ٹیپو سلطان سے لے کر 1857 میں آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر تک کی آزادی کی جدوجہد میں بیشمار قربانیاں پیش کی جا چکیں تھیں .1858 سے 19 ویں صدی کے آخر تک ‘مسلمان’ تنے تنہا سامراجي حکومت کے خلاف لڑتے رہے ۔اس کا کوئی صحیح اندازہ نہیں کہ کتنے آزادی کے متوالوں نے وطن اے عزیز کے لئے اپنا خون بہایا۔ آپ کے گھر بار لٹائے اپنی قیمتی جوانیوں کو نذرجہادکر دیا اور یہاں تک کی اپنی جان تک قربان کر گئے۔سامراجي حکومت سے بغاوت کی معمولی سزا پھانسی تھی۔ پھانسی سے کوئی بچا تو سیاہ پانی تھا جہاں مجاہدین آزادی کے ساتھ ظلم و بربری یت کا سلوک کیا جاتا تھا اس عذاب کھانے میں علماء، فضلاء، مفتیا ن اکرام، مسلم نوابوں اور جاگیرداروں نے کیسی کیسی جسمانی اور ذہنی سزائیں جھیل کر آزادی حاصل کی تھی یہ سوچ کر یا پڑھ کر ہی دل کانپ جاتا ہے۔سامراجي حکومت کے خلاف جہاد کا فتوی 1806 میں ہی شاہ عبد العزیز نے دے دیا تھامولانا قاسم نانوتوی، حاجی عابد حسین، مولانا رشید احمد گنگوہی نے تحریک آزادی کے لئے ذہن سازی اور تربیت کے لئے دارالعلوم دیوبند، جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد، مظاہر العلوم سہارنپور وغیرہ جیسے عظیم الشان تعلیمی اور تربيتي اداروں کی بنیاد رکھی۔ان بذرگو کے نزدیک سامراجي حکومت کے خلاف جہاد فرض تھااس عقیدہ کا ہی نتیجہ تھا کہ 1885 میں جیسے ہی انڈین نیشنل کانگریس قائم کی گئی اس جماعت کے سربراہ شیخ ہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب نے اور آپ کے ساتھیوں نے مسلمانوں کے لئے کانگریس میں شرکت کا فتوی دیا۔
1904 میں شیخ الہند محمود حسن نے ریشمي رومال تحریک شروع کی جو 1914 تک اس قدر موثر تحریک بن گئی تھی کہ اگر کچھ لوگ تحریک سے غداری نہ کرتے تو شاید ہم 1914 میں ہی آزاد ہو گئے ہوتے مگر تحریک ناکام ہوئی اور تحریک کے رہبر مولانا محمود الحسن، مولانا عزیز گل حکیم نصرت حسین رحیملااور دیگر بزرگان دین کو گرفتارکر لیا گیا۔اور، مولانا برکت اللہ بھوپالی، مولانا محمد میاں انصاری، مولانا عبیداللہ سندھی، اور دیگر کو ضلع وطن کیا گیا۔اس کے بعد 1919 میں جمتہ علماء اے ہند کی بنیاد رکھی اور کانگریس کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر آزادی کے لیے لڑتے رہے اور کانگریس سے کہیں زیادہ جانی اور مالی قربانی پیش کی اور 1947 میں ملک کو سامراجي حکومت سے مکمل آزادی دلا کر ہی دم لیا۔آج سیاسی لوگ اور اقتدار پہ قابض لوگ مسلم مجاہدین آزادی کی قربانیو کو سرے سے مسترد کرنے پر تلے ہیں ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وطن عزیز کو آزاد کرانے کی جدوجہد میں جتنا ہمارے بذرگو نے خون بہایا ہے اتنا پسینہ بھی دوسروں نے نہیں بہایا تھا۔
شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی سے پہلے کسی کے دماغ میں مکمل آزادی کا تصور تک نہیں تھا، شاہ عبد العزیز نے انگریز ی حکومت کے خلاف جہاد کا فتوی دیا۔سید احمد شہید بریلوی، مولانا اسماعیل شہید دہلوی، مولانا عبدالحئی بڈھانوي، مولانا سید جعفر علی نقوی بستوي جیسے بیشمارجیا لو کی قربانیوں کو سرے سے فراموش کر دیا گیا۔70 ہزار علماء اکرام نے ہنستے ہنستے اپنی جانیں وطن عزیز پر نچھاور کر ديمولانا آزاد میڈیکل کالج روڈ نئی دہلی میں آج بھی وہ درخت گواہی دے رہا ہے کہ ہاں میں وہی درخت ہوں جس کی شاخوں پر آزادی کے متوالوں کو پھانسی کے پھندوں پر لٹکایا گیا تھا۔آج ہماری نسل میں شاید ہی کوئی ایسا نوجوان ہو جواپنے اسلاف کی عظیم الشان قربانیوں سے واقف ہو؟
وہ اگر کسی کو جانتا بھی ہے تو مشکل سے دو چار مسلم مجاہدین اے آزادی کو ہی جانتا ہے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، خان عبد غفار خان، اشفاق اللہ خان وغیرہ نام قابل اے ذکر ہیں۔ہماری مشترکہ تہذ یب کی بقا کے لیے لازمی ہے کہ ہمارے جن بذرگو نے ملک کی آزادی کے لئے قربانیاں دی ہیں ان کی عظیم الشان جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کی سنہری تاریخ نئی نسل کو دوبارہ ذہن نشین کرائی جائے۔ہماری نئی نسل جنگ آزادی کے مسلم سپاہیوں کو فراموش کر چکی ہے یا حکومتوں کے درپردہ منصوبوں کے تحت جنگ آزادی کے مسلم سپاہیوں کے نام تاریخ کے اوراق سے مٹا دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے نوجوان اور بچے جنگ آزادی کے مسلم سپاہیوں کو جانتے ہی نہیں ہے۔آج ضرورت ہے کہ جنگ آزادي کی تاریخ کے اوراق کو ایک بار پھر دوبارہ تعمیر کیا جائے اور نئی نسل کو سنہرے ماضی سے روشناس کرایا جائے۔
(ملت ٹائمس)





