اور صحافی پر لکھنؤ پولیس کی بربریت: اردو اخبار کے ایڈیٹر علیم اللہ خان کی دردناک آپ بیتی

پولیس والوں نے بیٹے سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ایک صحافی ہیں ذرا ان سے بات کرنی ہے۔ انہوں نے میرے فون پر فون ملا کر کہا ذرا گھر آئیے… آپ سے بات کرنی ہے۔ میں فوراً گھر پہنچا تو کہنے لگے کہ آپ کو تھوڑی دیر کے لئے پولیس اسٹیشن چلنا ہوگا۔ چائے پئیں گے اور دو منٹ بات کریں گے۔ ہم نے اپنی گاڑی ان کی گاڑی کے پیچھے لگا دی اور گھر سے ہم لوگ علی گنج تھانے پہنچ گئے۔

رات ہونے لگی۔ قہر کی سردی ہو رہی تھی۔ میں نے کہا کہ مجھے بھوک لگی ہے اور گھر سے کمبل منگانا ہے۔ انہوں نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ مجھے ایک وائرلیس روم میں رکھا گیا۔ میز پر چار فون رکھے تھے۔ اسی کمرے میں ایک چین سنیچر اور ایک شرابی بھی رکھا ہوا تھا۔ شرابی پر الزام تھا کہ اس نے اپنے والدین پر پٹرول ڈال کر انہیں جلانے کی کوشش کی تھی۔ اسی کمرے میں مجھے بینچ پر سونے کو کہا گیا۔ میں کسی قیمت پر مجرموں کے ساتھ رات نہیں گزار سکتا تھا، اس لئے میں پوری رات کرسی پر بیٹھا رہا۔ لوگ ملاقات کے لئے آتے رہے۔

اگلے دن شام چار بجے تک احتجاج جاری رہا اور خبریں آتی رہی۔ میرا فون ضبط کرلیا گیا تھا۔ وہ اسے چیک کرنے لگے۔ انہوں نے جب میرے ذاتی پیغامات دیکھنا شروع کیے تو میں نے تھانے میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم گروپوں کے پیغامات چیک کر رہے ہیں۔ اگلے دن شام ہو گئی لیکن مجھے وہاں سے جانے کا اشارہ نہیں ملا۔ رات گئے ایس ایچ او نے بتایا کہ آپ کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ جب میں نے پوچھا کہ دفعات کیا عائد کیں تو کہنے لگے کل عدالت آکر دیکھ لینا۔ ایس ایچ او نے کہا کہ ایف آئی آر کی کاپی پر دستخط کیجیے۔ میں نے پڑھنے کے لئے ایف آئی آر مانگی تو صاف انکار کر دیا گیا۔

(مضمون نگار یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ سے جڑے ہیں۔ اس مضمون میں صرف ڈاکٹر علیم اللہ خان کا ہی موقف ہے، پولیس کا موقف نہیں ہے)