شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک گیر احتجاج کے دوران بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں آسام، اتر پردیش اور کرناٹک میں اب تک 30سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ پولیس فائرنگ میں صرف اترپردیش میں 19افراد ہلاک ہوئے ہیں اور آسام میں 5اورکرناٹک میں 2افراد ہلاک ہوئے ہیں
نئی دہلی ۔ 31؍دسمبر 2019 (پریس ریلیز)
شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک گیر احتجاج کے دوران اترپردیش کے کئی اضلاع میں پولیس تشدد اور فائرنگ اور کئی معصوموں کی اموات کے بعد ایس ڈی پی آئی کی ایک اعلی سطح وفد نے پارٹی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین کی قیادت میں متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور اس ضمن میں نئی دہلی کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کرکے اتر پردیش کی تازہ صورتحال اور پارٹی کے مطالبات کو اخباری نمائندوں کے سامنے رکھا۔ ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد،لالا منی پرسادسابق وزیر اور لوک سبھا رکن پارلیمان ، امبیڈکر سماج پارٹی کے صدربھائی تیج سنگھ، ایس ڈی پی آئی قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کی اقتدار والی ریاستوں میں اور بالخصوص اتر پردیش میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر پولیس نے جس قدر ظلم و تشدد کی ہے اس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک گیر احتجاج کے دوران بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں آسام، اتر پردیش اور کرناٹک میں اب تک 30سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ پولیس فائرنگ میں صرف اترپردیش میں 19افراد ہلاک ہوئے ہیں اور آسام میں 5اورکرناٹک میں 2افراد ہلاک ہوئے ہیں۔بڑے پیمانے پر عوامی احتجاج کے باوجود کسی بھی غیر بی جے پی حکمران ریاستوں سے مظاہرین کے خلاف پولیس مظالم کی کوئی اطلاع نہیں ہے ۔ ایس ڈی پی آئی قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد نے اترپردیش کے حالات بتاتے ہوئے کہا کہ اترپردیش میں پولیس نے تشدد تمام حدیں پار کردی ہیں ۔ پولیس کے ذریعے مسلمانوں کے گھروں پر دن رات چھاپے مارے جارہے ہیں۔ پولیس خاص طور پر راتوں میں زبر دستی دروازے توڑ کر گھروں میں گھستی ہے اور مرد پولیس کے ذریعے خواتین پر حملہ کیا گیا ہے ۔قابل اعتماد ذرائع کے مطابق اترپردیش میں اب تک 5558افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ، 1133کو گرفتار کیا گیا ہے اور 227مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ پولیس کی وردی پہنے شہری بھی اس تشدد میں ملوث ہیں۔ سی اے اے اور این آر سی جیسے کالے قوانین کے خلاف مظاہروں میں ایس ڈی پی آئی صف اول میں رہی ہے ۔ ان قوانین کا مقصد کسی خاص طبقے کو نشانہ بنانا ہے اور لوگوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا ہے ۔ سی اے بی کو سب سے پہلے مرکزی کابینہ نے منظوری دی تھی اور لوک سبھا میں اس کو منظور کیا گیا تھا۔ جامعہ ملیہ کے طلباء پولیس کے حملے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے احتجاج کے محاذ پر ہمت سے ڈٹے رہے ۔ جس کی وجہ سے یہ احتجاج ایک قومی عوامی احتجاج کی شکل اختیار کرلیا تھا۔ اتر پردیش میں مشہور سماجی کارکنان جیسے اڈوکیٹ محمد شہیب، صدر ہائی منچ، سابق پولیس آئی جی ایس آر دارا پوری، رابن ورما، کبیر، صدف ظفر،محمد وسیم وغیرہ کو احتجاج میں شامل ہونے کے الزام میں جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا گیا ہے ۔ ہم حکومت کو انتباہ کرتے ہیں کہ وہ مظاہرین کے خلاف پولیس کے بے لگام مظالم سے باز رہیں۔ پبلک ڈومین میں متعدد ویڈیو کلپس موجود ہیں جن میں پرامن مظاہرین اور مسلمانوں کی املاک پر نیم شہری لباس پہنے پولیس اور افراد حملہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔کچھ پولیس افسرا ن نے بے شرمی کے ساتھ فر قہ وارانہ الفاظ کا بھی استعمال کیا ہے اور پولیس کو ہدایت کی ہے کہ وہ قانون کی خلاف ورزی اور حد سے تجاوز کرنے کی کوئی پرواہ نہ کریں۔ ویڈیو کلپ جاری ہونے تک پولیس افسران مظاہرین پر فائرنگ کے استعمال سے انکار کررہے تھے۔ جمہوری تحریک کو دبانے کیلئے پولیس تشدد کے متعلق جھوٹ پھیلا رہی ہے ۔ طاقت کا بھاری اور غیر ضروری استعمال ، بے گناہ افراد کی ہلاکت ، املاک اور گاڑیوں کی تباہی ان سب سے پولیس توجہ مبذول کرنا چاہتی ہے ۔ انتہائی اور ناقابل یقین ثبو ت کے ساتھ پی ایف آئی ، رہائی منچ، کمیونسٹ پارٹیوں اور ایس ڈی پی آئی پر منصوبہ بندتشدد کا الزام لگارہی ہے اور اتر پردیش میں سیاسی اور سماجی کارکنا ن کا شکار کررہی ہے۔ ایس ڈی پی آئی نے مشترکہ طور پر مندرجہ ذیل مطالبات کئے ہیں۔ 1)۔پر امن احتجاج کرنااور اختلاف رائے کا اظہار کرنا ہر شہری کا حق ہے ۔ اس کو اترپردیش اور پورے ملک میں بحال کیا جائے ۔ 2)۔مظاہرین کو فوری طور پر حراست سے رہا کیا جائے اور اتر پردیش، دہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں طلباء، سماجی اور سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کے خلاف دائر فوجداری مقدمات کو واپس لیا جائے ۔ 3)۔سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرنے اور پولیس تشدد و بربریت کو روکنے کیلئے جمہوری حقوق کا استعمال کرنے دیا جائے ۔4)۔جامعہ ملیہ اسلامیہ ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اتر پردیش میں خاص طور پر میرٹھ، کانپور، واراناسی اور مغربی اتر پردیش کے دیگر مقامات پر ہوئے پولیس حملوں کی سپریم کورٹ کے جج کے سربراہی میں عدالتی تحقیقات کا آغاز کیا جانا چاہئے اور مجرم پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمات درج کیا جانا چاہئے






