بھارتی فلمی صنعت بالی وڈ عام طور پر سیاسی مسائل و تنازعات پر خاموش ہی رہتی ہے لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولیس کے تشدد کے بعد اس نے بھی شہریت سے متعلق نئے قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کر رکھی ہے۔
بھارت کے کئی معروف اداکاروں نے اپنے ٹویٹر اکاونٹ پر اس قانون کی مخالفت میں بیان جاری کیے ہیں جبکہ بعض نے کھل کر ٹی وی کے بحث و مباحثوں میں حصہ لے کر اس کی مخالفت کی ہے۔ لیکن بعض حکومت کے حامی فنکاروں نے قانون کی حمایت کی اور اس طرح فریقین میں ایک لفظی جنگ چھڑ چکی ہے۔
قانون کی مخالفت کرنے والوں میں سرفہرست نام اداکارہ سورا بھاسکر کا ہے، جنہوں نے اس قانون کو آئین کے مخالف قرار دیتے ہوئے لکھا کہ ”شہریت ایکٹ کو مسترد کیجیے، این آر سی کا بائیکاٹ کریں اور فاش ازم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔“ انہوں نے جامعہ اور علی گڑھ کے طلبہ کے خلاف پولیس کی پر تشدد کارروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور لکھا، ”علی گڑھ کے طلبہ پر تشدد جامعہ سے بھی زیادہ ہوا ہے، جس میں ایک طالب علم اپنا ہاتھ گنوا بیٹھا، ہمیں دونوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔“ سورا بھاسکر گزشتہ چند روز سے اس مسئلے پر پے در پے ٹویٹس کرتی جا رہی ہیں جبکہ حکومت اور بل کے حامی انہیں اس کے لیے ٹرول کر رہے ہیں۔
اداکار فرحان اختر نے اپنی ایک تازہ ٹویٹ میں حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت کی اور اس بل کی تفصیلات کو پوسٹ کیا۔ انہوں نے عوام سے سڑکوں پر نکلنے کی اپیل کرتے ہوئے لکھا، ”یہ جاننے کے لیے کہ یہ احتجاجی مظاہرے کیوں ضروری ہیں، یہاں پر وہ سب ہے جو آپ جاننا چاہتے ہیں۔ انیس تاریخ کو ممبئی کے اگست کرانتی میدان پر ملتے ہیں۔ اب صرف سوشل میڈیا پر احتجاج کرنے کا وقت جا چکا ہے۔“
مقبول اداکارہ اور شتروگھن سنہا کی بیٹی سوناکشی سنہا بھی پیچھے نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنے اکاونٹ پر بھارتی آئین کے دیباچے کی وہ تصویر پوسٹ کی، جس میں سیکولرازم اور برابری کی بات کہی گئی ہے، ”یہی وہ چیز ہے جو ہم تھے، جو ہم ہیں اور لازما? ہمیں رہنا ہوگا۔“
اداکار منوج واجپائی نے بھی طلبہ کے خلاف تشدد کی سخت الفاظ مذمت کی اور کہا کہ ایسا وقت تو آسکتا ہے جب ہم بے انصافیوں کو روکنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، لیکن وہ وقت کبھی نہیں آنا چاہیے جب ہم اس کے خلاف احتجاج کرنا بند کر دیں، ”طلبہ کے خلاف ہونے والے تشدد کی ہم پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔“
فلم ساز و ہدایت کار انوراگ کشیپ کا کہنا تھا کہ اب بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ اب خاموش نہیں رہا جا سکتا، ”واضح طور پر یہ فاشسٹ حکومت ہے اور یہ دیکھ کر مجھے بہت غصہ آرہا ہے کہ جن آوازوں سے فرق پڑ سکتا ہے وہ پوری طرح خاموش ہیں۔“
اداکارہ پرینتی چوپڑا نے لکھا کہ جب بھی شہری اپنی رائے کا اظہار کریں گے تو ان کے ساتھ ایسا ہو گا تو پھر شہریت ترمیمی بل کو بھول کر ہم ایک ایسا بل لائیں، جس سے ہم اپنے ملک کو غیر جمہوری بنا سکیں، ”اپنے من کی آواز کے اظہار پر معصوم انسانوں کی پٹائی؟ ظلم ہے ظلم۔“
فلم ہدایت کار ضویہ اختر نے لکھا کہ یہ طلبہ اس وقت ہمارے لیے لڑ رہے ہیں جب کہ ہمیں ان کے لیے لڑنا چاہیے تھا۔
اداکار ایوشمان کھرانہ، راج کمار راو، تاپسی پنو، مہیش بھٹ، سدھیر مشرا، سدھارتھ ملہوترا، انوبھو سنہا، رینوکا سہانے اور سنجے گپتا جیسی بالی کی بہت سی شخصیات نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔
اداکارہ ہما قریشی نے لکھا کہ بھارت ایک جمہوری اور سیکولر ملک ہے اور اظہار رائے کے خلاف اس طرح کا تشدد خوفناک ہے۔ انہوں کہا، ”جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والی ایک حکومت، جو اپنے ہی شہریوں کے خلاف قانون بناتی ہے، واضح طور پر جرمنی کے نازیوں کی پیروکار ہے۔ حکومت عوام کی نظر میں پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔“
لیکن امیتابھ بچّن جیسی بالی وڈ کی تجربہ کار شخصیات اب بھی اس موضوع پر خاموش ہیں۔ شاہ رخ، عامر خان اور سلمان خان جیسے معروف اداکاروں نے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا ہے۔ تاہم اشوک پنڈت جیسے بعض افراد نے بل کے مخالفین اور طلبہ کے حمایتوں پر سخت نکتہ چینی کی۔ مسٹر پنڈت نے جب اداکارہ رچا چڈھا پر تنقید کی تو محترمہ چڈھا نے جوابا کہا کہ ”کہیں وہ ایسا سلوک اس لیے تو نہیں کر رہے کہ انہیں اس بات کے پیسے ملتے ہوں!“
ہدایت کار ویویک اگنی ہوتری نے سوار بھاسکر پر منافقت کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھا کہ وہ لوگوں کو مشتعل کر رہی ہیں اور تقسیم کر رہی ہیں۔ اس پر سوارا نے لکھا کہ کہیں وہ اس طرح کی باتیں نشے اور منشیات کے اثر سے تو نہیں کر رہے؟