جے این یو کے یہ نقاب پوش قاتل کون ہیں؟

مشرّف عالم ذوقیؔ

کیا ہم نہیں جانتے کہ یہ نقاب پوش قاتل کون ہیں ؟ کون ہیں وہ شہدے جنہوں نے ملک کو تباہی کے نزدیک پہنچا دیا، وہ قاتل کون ہیں جو نقاب لگائے آتے ہیں ، ہمارے تعلیم یافتہ بچوں کو قتل کرتے ہیں، کیا ان کے لئے ہی اچھے دن کا نعرہ دیا گیا؟ کیا حقیقت میں یہ اچھے لوگ تھے؟ اور ہندوستان بھول گیا تھا کہ ان کے لباس پر خون کے اتنے داغ ہیں، جو کبھی دھل نہیں سکتے،کیا ہم نے قاتلوں کو حکومت سونپ دی اور بھول گئے کہ ہلاکت سے کھیلنے والے ، گندی ذہنیت رکھنے والے اور دہشت پھیلانے والے اگر اقتدار سنبھال لیں تو یہ اقتدار ملک کی ترقی کے لئے نہیں ، موت کے جشن کے لئے ہوگا،یہ موت کا جشن گجرات لیبارٹری کے بعد اب اس ملک کا نصیب بن چکا ہے، جن کے پاس اسکول کی ڈگریاں تک نہیں تھیں ، جیل کے مجرمانہ سرٹیفکیٹ ضرور تھے ، انہوں نے پورے ملک کو آج کی تاریخ میں موت کے حوالے کر دیا، کیا ہم سفاک قاتلوں کی تاریخ سے واقف نہیں ؟ ہم ایسے قاتلوں سے کیا امید کر رہے تھےاور اب ، جب پورا ہندوستان سلگ رہا ہے ، ہم ان سے کس بات کی امید کر رہے ہیں؟ کیا ان میں ، پولیس ، اور میڈیا والوں میں کویی فرق ہے،پولیس ہاتھ باندھے انہیں سیلوٹ کرتی ہے، معصوم نوجوانوں کے قتل کے لئے راستہ ہموار کرتی ہے اور یوگندر یادو جیسے لیڈروں کو روکتی ہے کہ وہ بے گناہوں اور معصوموں کو ہلاک ہونے سے بچا نہ لیں،پولیس، میڈیا، حکمران، نقاب پوش دو ہی چہرے ہیں اور اس وقت یہ دو چہرے پورے ہندوستان کو مذہب کے نام پر جلانے اور سلگانے میں لگے ہیں، بزدل نقابوں میں آتے ہیں، موت کا کھیل کھیلتے ہیں اور ٹی وی چینلوں پر ہزاروں کی موت کا جشن مناتے ہیں، علی گڑھ کو جلایا، جامعہ کو جلایا، جے این یو کو مسلسل جلانے کے بعد بھی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی تو نقاب لگا کر موت کا وحشی کھیل کھیلنے آ گئے، ایک مخصوص پارٹی اور انکی فسطائی تہذیب ان کو محب وطن کہتی ہے،انہیں پارلیمنٹ اور راجیہ سبھا میں بھیجتی ہے اور سیاست کی بساط سے نکل کر قاتلوں کی فوج ملک کی جمہوریت کا نام و نشان مٹانے میں لگ جاتی ہے، کس کو داد دی جائے ؟ کس کی تعریف کی جائے ؟ تاریخ کی کتابوں میں ایسے قاتلوں کے لئے معافی نہیں ہے، مگر یہ وقت ہے جب ہم پچھلے بیس برسوں کا جائزہ لیں،گودھرا اور گجرات ماڈل کا تذکرہ کریں اور ملک ہندوستان میں پھیلے انتشار ، قتل و غارت گری کا تجزیہ کریں اور ایک دنیا کو بتائیں کہ جب قاتل اور دہشت گرد سلطنتیں سنبھالتے ہیں تو ہلاکو اور چنگیز ہوتے ہیں اور ایک دن اسی بے رحمی سے وقت ان کا کام بھی تمام کر دیتا ہے ۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو یہی ہورہا ہےـ

امریکہ — ہندوستان : کل اور آج

ٹرمپ نے کرنل قاسم سلیمانی کو ہلاک کیا،ایران نے سرخ انقلاب کا نعرہ دیا،عالمی سیاست بھی موت کے جشن کا حصّہ ہے، ورلڈ ٹریڈ ٹاور کا مسمار ہونا امریکہ کی چالبازی تھی اور مودی نے اس موت کے جشن سے بہت کچھ سیکھاـ دنیا کی دوسری بڑی قوم نشانے پرآ گئی اور دہشت گرد ٹھہرائی گیی،تعریف بدل گئی، میزائلیں، راکٹ لانچرس، اے کے 47 وغیرہ ہر وقت ہاتھوں میں لے کر گھومنے والا مسلمان دور سے ہی انہیں دیکھ کر زمین جوتتا ہوا کسان تک چیخ اُٹھا ، وہ جارہا ہے مسلمان … دہشت گرد …. ہے نہ؟ نیوز ویک ٹائمس سے لے کر انڈیا ٹوڈے جیسی میگزین نے بھی بتایا ہتھیار اٹھانے والا مسلمان، توپ کے گولوں کے درمیان کھڑا مسلمان، آگ لگاتا ہوا مسلمان۔ افغانی پہاڑیوں پر چوکس ہتھیار بند مسلمان، چلاّتا ہوا مسلمان۔ پاکستان میں آئے دن خطرناک جلوسوں کی قیادت کرتا ہوا مسلمان،کچھ عرصے پہلے ایک میگزین میں معصوم 16سال کی ایک بچی کی تصویر چھپی تھی۔ طالبان کے خلاف مورچہ پر، 14برس کی یاسمین، بندوق اٹھائے ہوئے یاسیمین کی تصویر مسلمانوں کی نئی سمت کو صاف صاف بیان کرتی نظر آتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور گرینیڈ …. طالبان بھی مسلمان …. افغانستان سے لے کر پاکستان اور عرب ملکوں تک مسلمان شک اور سوالوں کے گھیرے میں کھڑا ہے۔ امریکہ میں، انگلینڈ میں، ہندوستان میں، پاکستان میں،وہ اسامہ اور صدام سے پہلے بھی شک کے گھیرے میں تھا اور اسامہ اور صدام کے بعد اس کا (مسلمان کا) چہرا اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ وہ اب دور سے ہی دہشت گرد نظر آنے لگا ہے۔

میڈیا نے ہر بار مسلمان اور اسلام کو غلط رنگوں میں پیش کیا ہے۔ پاکستان میں ’زانی‘ کو سنگسار، کرنے کا مسئلہ ہو، بابری مسجد سے لے کر جنون یا مذہب کی کوئی بھی کارروائی ہو، ممبئی کا فساد ہو یا کشمیری چنار کے پتے، میڈیا کی سرخیوں میں اسلام آجاتا ہے۔ سماج اور مذہب پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کا ذکر ہو تو سیمی سے القاعدہ تک، ان تنظیموں کو میڈیا، اسلام سے کچھ اس انداز سے جوڑتاہے کہ سڑک سے گزرنے والا معمولی مسلمان بھی دہشت گرد لگنے لگتا ہے دوسرے کے پھٹے میں پاؤں ڈالنے والا امریکہ خود اپنے ملک کا سروے کیوں نہیں کرتا، جہاں بلیک لبریشن آرمی، میچروز، دی آرڈر، جیوشن ڈفنس لیگ، پوج اومیکا 7 جیسی کتنی ہی دہشت گرد تنظیمیں سر اٹھائے اپنی کارروائیاں کئے جارہی ہیں۔ عراق برباد،لیبیا برباد، افغانستان برباد، پچھلی صدی ختم ہونے تک اور نئی صدی کے بیس برسوں تک تک فضا اسلام اور مسلمانوں کو لے کر خوفناک حد تک خراب ہوچکی ہے۔

امت شاہ اور مودی کے لئے راستہ مشکل نہیں تھا، گھس پیٹھئے ، یہ ان کی سیاسی لغت کا سب سے دلچسپ لفظ ہے۔ اسلام، اسلام اور مسلمان ـ امریکہ سوچتا ہے کہ وہ تانا شاہ بن چکا ہے۔ یعنی ایسی طاقت جس پر فتح حاصل نہیں کی جاسکتی، ایسی طاقت جسے کسی کے بھی خلاف استعمال کرسکتے ہیں، شعلوں میں گھرے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرف اچانک اپنے چھوٹے سے کیمرے کا رخ کرنے والے کے ہونٹوں سے ایک لفظ نکلا تھا ” شٹ “ جلتے اور دھوئیں اگلتے ٹاور کی تصویر اپنے اپنے ٹی وی اسکرین پر جس کسی نے بھی دیکھی ہو، اس نے یہ لفظ ضرور سنا ہوگا،یہ لفظ امریکہ کی اب تک کی غیر مفتوح طاقت پر ایک ایسا غیر جانبدارانہ تبصرہ ہے، جس پر امریکہ کو غور ضرور کرنا چاہئے۔ پہلی بار امریکی عوام کو بھی اس بات کا احساس ہواکہ وہ بھی دوسرے ملکوں کے لوگوں کی طرح ہی معمولی انسان ہیں۔ جن پر حملے ہوسکتے ہیں۔

سی اے اے ، این آر سی کے بعد کے احتجاج کی گونج میں مودی اور امت شاہ کو بھی یہی لفظ سنائی دیا ” شٹ ” ۔ نفرتوں نے یلغار کیا تو امریکا یاد آیا اور موت کے جشن نے بیس برسوں میں پوری طرح اپنے پاؤں پھیلا دےـ امریکہ جس کی ’فرعونیت‘ جاپان، کیوبا، ویت نام، نکرگوا، سومایہ، کوریا، عراق و فلسطین سے نکل کر افغانستان تک پھیل گئی تھی، ورلڈ ٹریڈ سینٹرپر حملے کے بعد اسی امریکہ کا سروے کیجئے تو اُسامہ اور اینتھریکس کے خوف نے اس کی اصلیت کو ظاہر کردیا تھا ۔اس کی طاقت کے چیتھڑے اڑچکے تھےـ ا مریکہ جو دوسرے کے گھروں میں سیندھ لگاتا پھرتا تھا اور دوسرے ملکوں میں ہونے والی ہر کارروائی کے بعد اس کی پہلی یہی تنقید ہوتی تھی کہ مجھے پہلے ہی سے سب کچھ پتہ تھا، اس کی خفیہ ایجنسیوں کی پول بھی کھل چکی تھی، یہی کھیل ہندوستان میں شروع ہوا، تمام ایجنسیاں مودی امت شاہ کی جیب میں، اپنے پالتو انڈسٹریلسٹ، اپنا انتخابی کمیشن، اپنا ریزرو بینک، اپنی عدلیہ، امریکہ میں بہت حد تک ضمیر محفوظ تھا، یہاں ضمیر مردہ، صحافت مردہ!

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں