شاہین باغ مظاہرین کا روزہ افطار، تمام مذاہب کے لوگوں کی شرکت

یہ احتجاج، تحریک جو بھی ہے وہ مساوی حقوق کے لئے ہے۔ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہ ہو، اس لئے ہی یہ روزہ افطار بھی یکجہتی کے لئے رکھا گیا ہے۔“ انہوں نے کہا کہ یہاں تمام مذاہب کے لوگ آئے ہیں اور یہی ہمارے ملک کی خوبصورتی ہے۔ بس ہم یہی چاہتے ہیں
نئی دہلی:شاہین باغ میں 26 دنوں سے سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت میں چل رہے احتجاج میں ہر روز ایک نیا رنگ نظر آتا ہے۔ یہاں ترنگے پرچم کے سایہ تلے قومی ترانہ بھی گایا جاتا ہے اور انقلابی نظموں سے ماحول کو پ±رجوش بھی بنایا جا رہا ہے۔ اس سب کے درمیان یہاں نماز بھی ادا ہوتی ہے اور گزشتہ شام یہاں روزہ افطار کا بھی اہتمام کیا گیا، جس میں صرف مسلمانوں نے ہی نہیں بلکہ دیگر برادران وطن نے بھی حصہ لیا۔
یہاں کے لوگووں کی مذہبی ہم آہنگی کو اس عمل سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جیسے ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ واقع مرکزی مسجد سے اذان کی صدا بلند ہوتی ہے ہندو مسلم خواتین برابر میں بیٹھیں ایک ہی شال سے سر کو ڈھانپ لیتی ہیں۔
شاہین باغ کے مظاہرین نے جمعہ کے روز نفلی روزہ رکھ کر ملک کے عوام پر مسلط کیے جا رہے سیاہ قوانین کو ہٹانے کے لیے دعا کی۔ یہ روزہ چونکہ منت کے لئے رکھا گیا تھا لہذا افطار میں تمام مذاہب کے لوگ شریک ہوئے۔ شاہین باغ میں موجود لوگوں نے کہا کہ ہماری منت ہے، طلبائ کے حوصلے ٹوٹنے نہ پائیں، انہیں طاقت ملے اور سی اے اے واپس ہو جائے تاکہ امن برقرار رہے اور طلبائ اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔
ہندی روزنامہ ’نوبھارت ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق روزہ افطار کا انتظام کرنے والے نظام پاشا نے کہا، ”یہ روحانی طریقہ ہے۔ 1948 میں مہاتما گاندھی نے بھوک ہڑتال شروع کی تھی اور کہا تھا کہ ملک میں امن ہو، دہلی میں مساجد اور درگاہیں مسلمانوں کو واپس کی جائیں اور بھی متعدد مطالبات تھے۔ ہم نے اسی سے ترغیب حاصل کی۔“
انہوں نے مزید کہا، ”یہ احتجاج، تحریک جو بھی ہے وہ مساوی حقوق کے لئے ہے۔ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہ ہو، اس لئے ہی یہ روزہ افطار بھی یکجہتی کے لئے رکھا گیا ہے۔“ انہوں نے کہا کہ یہاں تمام مذاہب کے لوگ آئے ہیں اور یہی ہمارے ملک کی خوبصورتی ہے۔ بس ہم یہی چاہتے ہیں کہ نیا قانون جو حکومت لائی ہے وہ واپس ہو۔
روزہ افطار میں شامل ہونے والے ستیہ جیت سرنا نے کہا، ”یہ رواداری کا انتہائی اہم لمحہ ہے، جس کے ذریعے ہم ان طلباء کی حمایت کر رہے ہیں جو آئین کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں۔ ہم اس لئے ہی یہاں آئے ہیں کی آئین کی روح برقرار رہ سکے۔ مذہب کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین ملک کے لئے نامناسب ہیں۔“
وہیں وہاں موجود اسماء رفعت نے کہا، ”مذہب کے نام پر بھید بھاو ٹھیک نہیں ہے کیوںکہ ہم سب ایک ہیں۔ اس افطار سے مذہبی ہم آہنگی کا پیغام دینا ہی ہمارا اصل مقصد ہے۔“

SHARE