دشمن کی ہو سازش کتنی، شاہین نہیں گھبرائیں گے
ہو دھمکی یا گیدڑ بھبکی، شاہین نہیں گھبرائیں گے
جس مٹی سے پیدا ہیں ہم، اس مٹی پر جینا مرنا
دہشت پھیلانے والوں سے، اب اور نہیں ہم کو ڈرنا
اب دینے سے ہر قربانی، شاہین نہیں گھبرائیں گے
دشمن کی ہو سازش کتنی، شاہین نہیں گھبرائیں گے
اخلاق، جنید، عمر، پہلو، تبریز ہو یا ہو افرازُل
ہم برسوں سے خاموش رہے، پر ٹوٹ گیا ہے صبر کا پُل
اب چیخ رہی ہے ہر سسکی، شاہین نہیں گھبرائیں گے
دشمن کی ہو سازش کتنی شاہین نہیں گھبرائیں گے
ظالم اب حد سے پار ہوا، مظلوم کی ہمت بڑھتی ہے
ہر باغ کی پاکیزہ دھرتی، اعلانِ بغاوت کرتی ہے
جب تک سرکار نہیں جھکتی، شاہین نہیں گھبرائیں گے
دشمن کی ہو سازش کتنی شاہین نہیں گھبرائیں گے