سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے خلاف جاری احتجاج

لایا ہوں دل کے داغ نمایاں کئے ہوئے

پروفیسر اخترالواسع

گذشتہ ایک مہینے سے ملک بھر میں سی۔ اے۔ اے۔، این۔ پی۔ آر اور این۔ آر۔ سی کو لے کر جو بے چینی پائی جا رہی ہے اور جس کو روز کہیں نہ کہیں زبردست عوامی احتجاج کی صورت میں دیکھا جا رہا ہے۔ خاص طور سے جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جے این یو میں پولیس نے سرکاروں کی سرپرستی میں جس بہیمانہ طریقے سے طلبہ و طالبات، اساتذہ، کارکنان اور ان یونیورسٹیوں کی املاک کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ بی جے پی کی حکومتوں والی ریاستوں میں جو کچھ دیکھنے کو ملا وہ شرمناک حد تک افسوس ناک ہے۔ اترپردیش میں مظفر نگر، لکھنو ¿، بجنور، فیروزآباد، مؤ ناتھ بھنجن اور نہ جانے کتنے مقامات پر پولیس نے نہ صرف احتجاج کرنے والوں بلکہ اپنے وحشیانہ سلوک کا نشانہ آدھی رات میں گھروں میںگھس کر گھریلو خواتین، معصوم بچوں اور معذور بزرگوں کو بنایا اس نے سو سال گزرنے کے بعد ایک بار پھر یہ احساس دلایا کہ ہم ۲۰۱۹؁ء کے آزاد ہندوستان میں نہیں رہ رہے ہیں بلکہ ۱۹۱۹؁ء کے انگریزی استبداد والے جلیاں والا باغ کے زمانے میں جی رہے ہیں۔

یہ احتجاج اور جمہوری لڑائی جس عزم اور حوصلے کے ساتھ دیکھنے کو مل رہی ہے اس میں سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ مرکزی سرکار نے جو فرقہ وارانہ منافرت کی دیوار کھڑی کرنے کی کوشش کی تھی اسے ہندوستانی عوام کی غالب اکثریت نے گرا دیا ہے۔ دوسرے مختلف مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، مرد اور عورت، ہندوستان کی سیکولر جمہوری اقدار کو بچانے اور دستورِ ہند کے تقدس کی حفاظت اور پاسداری کے لیے سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، شاہین باغ، جے این یو کیمپس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یہ سب ہماری قومی یکجہتی، جمہوری اقدار اور سیکولر دستور کے حوالے سے متحرک، فعال اور جیتی جاگتی زندہ علامتیں ہیں جن کو ملک بھر سے تائید و حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ یہ تائید صرف سینٹ اسٹیفنس کالج اور دہلی یونیورسٹی، آئی آئی ٹیز، آئی آئی ایم، ایمس جیسے مخلف النوع تعلیمی اداروں سے ہی نہیں بلکہ پنجاب کا بھٹنڈا ہو یا کرناٹک کا منگلور، کیرالہ اور پنجاب کی اسمبلیاں ہوں یا بنگال کی حکومت ہی سے نہیں بلکہ خود این ڈی اے میں شامل بی جے پی کی ان حلیف جماعتوں، جنہوں نے پارلیمنٹ میں سی اے بی کے حق میں ووٹ دیا تھا وہ بھی اب اس کے خلاف بلند وبانگ طریقے سے آواز اٹھا رہی ہیں۔ چاہے وہ اکالی دل ہو یا انّا ڈی ایم کے یا جے ڈی یو، بیجو جنتا دل ہو یا شیو سینا سب نے ان قوانین کے خلاف ایک واضح مو ¿قف اپنا لیا ہے۔ جھارکھنڈ، جو کہ بی جے پی کے راج میں ماب لنچنگ کی راجدھانی رہا تھا، میں ان قوانین کی حمایت میں آواز اٹھانے والی بی جے پی کو کیسی کراری شکست سے دو چار ہونا پڑا کہ وزیر اعلیٰ اور اسمبلی اسپیکر سمیت اس کے کئی بڑے نیتا عوامی رائے کے ذریعے مسترد کر دیے گئے۔

شاید یہی تمام عوامل اور وجوہات ہیں کہ اب بی جے پی اور سنگھ سے جڑے ہوئے بعض ذمہ داروں نے وہ دھمکی آمیز زبان بولنی شروع کر دی ہے جس سے فاشزم کی صریحاً بو آتی ہے۔ مثال کے طور پر یوپی کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی نے بدلہ لینے کی دھمکی دی تو ایک جمہوری معاشرے میں اپنے دستوری حق کا استعمال کرنے والوں کی بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے املاک ضبط کرنے، جائیدادیں قرق کرنے اور ہرجانے کی رقمیں ادا کرنے کا وہ فرمان جاری کیا جو کبھی ۱۸۵۷؁ء کے بعد انگریزوں نے پہلی جنگ آزادی کے بعد ہندوستانیوں کے خلاف جاری کیا تھا۔ یوپی کو ایک جیل خانہ بنا دیا گیا۔اسی طرح علی گڑھ میں بی جے پی کے ایک جلسے میں اس کے ایک لیڈر نے مودی اور یوگی کے خلاف نعرے لگانے والوں کو زندہ گاڑ دینے کی بات کہی۔ کرناٹک کے ایک بی جے پی لیڈر نے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر وہ احتجاج سے باز نہیں آئے تو ان کا انجام گودھرا جیسا ہوگا۔ مغربی بنگال کے بی جے پی کے صدر نے پوری دیدہ دلیری سے کام لیتے ہوئے کولکتہ سے ۸۰ کلومیٹر دور تقریر کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج کرنے والوںکو کتوں کی طرح گولی مار دینی چاہیے۔ انہوں نے بی جے پی کی حکومت والی ریاستوں میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف ہونے والے غیر جمہوری، غیر شائستہ اور غیر قانونی سلوک کی ستائش بھی کی۔ اترپردیش کے ایک وزیر بجنور میں ایک ہندو نوجوان کی پولیس گولی سے موت ہو جانے پر اس کی تعزیت کے لیے اس کے گھر والوں سے ملے لیکن انہوں نے انتہائی حقارت و تمکنت کے ساتھ ایک مسلمان نوجوان کے گھر والوں سے ملنے سے انکار کر دیا۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ پارٹی نے اپنے ان لیڈروں میں سے اکثر کے بیانوں سے پلہ جھاڑ لیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے بیانات سے بی جے پی کا کچھ لینا دینا نہیں ہے مگر یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ان میں سے کسی بھی بڑبولے نفرت،عناد اور فساد کے حامی لیڈر کاپارٹی سے آج تک اخراج نہیں کیا گیا ہے بلکہ مغربی بنگال میں تو اسی لیڈر کو دوبارہ ریاستی صدر بھی بنا دیا گیا ہے۔ کیا سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس جیتنے کا وزیر اعظم شری نریندر مودی کا یہی مجرب نسخہ ہے۔

آج جب کہ اس احتجاج کو ایک مہینے سے زیادہ ہو چکا ہے، سرکار کو اپنے رویے اور پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ جمہوریت میں حکومت عوام کی پابند ہوتی ہے نہ کہ عوام اس کے غلام۔ اس لیے سرکار کو اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر عوام کی بات کو فوری طور پر تسلیم کر لینا چاہیے اور سی اے اے، این پی آر اور این آر سی سے دست بردار ہو جانا چاہیے۔

موجودہ حالات میں یہ بھی ضروری ہے کہ :

۱۔ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے جس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کے رویے کے خلاف تحقیقات کرائی ہے اسی طرح علی گڑھ اور جے این یو اور اترپردیش کے دوسرے اضلاع میں بھی ہونی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکار کو ہائی کورٹ کے ججیز کے ذریعے دہلی اور یوپی میں خاص طور پر ایک اعلیٰ سطحی تحقیقات اس کی کرانی چاہیے کہ تشدد کا ارتکاب کس کی طرف سے ہوا؟ کس کی کتنی زیادتی تھی؟ پولیس کی بربریت اور بہیمانہ رویے کے خلاف ایف آئی آر کرنے کی اداروں اور افراد کو سہولت ملنی چاہیے اور جب تک تحقیقات مکمل نہ ہو جائے اس وقت تک کسی کے خلاف نہ تو کوئی تادیبی و تعزیراتی کارروائی ہو، نہ ان پر کوئی جرمانہ و ہرجانہ ہو اور نہ املاک کی ضبطی یا جائیداد کی قرقی۔

۲۔ اس وقت جو لوگ ہندوستان میںکہیں بھی ان سیاہ قوانین اور سرکار کی مذہبی تفریق اور امتیاز پر مبنی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور سرکار اور سرکاری مشینری ان کے خلاف کارروائی کر رہی ہے ان کی ہر طرح سے مدد کی جانی چاہیے اور سِول سوسائٹی اور ملّی تنظیموں کو مل کر ایک مشترکہ منصوبہ بندی کے ذریعے ان کاساتھ دینا چاہیے۔

۳۔ جس بد زبانی، دریدہ دہنی اور دھمکانے کی بعض بی جے پی لیڈروں نے کوشش کی ہے ان کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ اس سلسلے کولگام دی جا سکے۔

۴۔ جن لوگوں کے گھروں میں گھس کر پولیس نے ظلم و زیادتی کی ہے اور ان گرہستی کو برباد کیا ہے ان کو سرکاروں کو بھرپور مالی مدد فراہم کرانے کے لیے عدالتوں میں چارہ جوئی کے لیے جانا چاہیے۔

ہمیں خوشی ہے کہ انڈین یونین مسلم لیگ نے سپریم کورٹ میں ایک رِٹ پٹیشن فائل کی ہے تو دہلی اقلیتی کمیشن کے فعال اور جری صدر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے ایک مفصل اور مدلل خط لکھ کر پولیس کے مظالم کے خلاف کارروائی کی مانگ کی ہے۔اسی طرح مولانا سید ارشد مدنی نے مسلم جماعتوں کے قائدین اور ملت کے امائدین کی ایک میٹنگ بلا کر کچھ اچھے فیصلے کیے ہیں۔

۱۵اگست ۱۹۴۷؁ سے آج تک ہندوستان آگے ہی بڑھا ہے پیچھے نہیں ہٹا پھر سرکار افتراق و انتشار کی پالیسی کیوں اپنا رہی ہے؟ یہ بات پہلے بھی کہی گئی اور ہم اسے ایک بار پھر دہرا رہے ہیں کہ ہمیں کسی بھی غیر مسلم کو جو ظلم کا شکار ہوا یا نہیں، اس کو ہندوستان کی شہریت دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن مسلمانوں یا کسی بھی مذہبی فرقے کو کہیں بھی نظر انداز کرکے ایسی پالیسی اپنانے سے کبھی اتفاق نہیں ہو سکتا۔ سرکار کو جتنی فکر پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی مذہبی اقلیتوں کی ہے اتنی ہی فکر اس کو سری لنکا میں معتوب تامل نژاد ہندوو ¿ں، نیپال کے مدھیشیوں، بھوٹان کے عیسائیوں اور میانمار کے مسلمانوں کی بھی ہونی چاہیے کیوں کہ ہم ”وسودھے کٹمب کم“ کے ماننے والے ہیں اور ”سرو دھرم سمبھاؤ “ ہماری صدیوں پرانی روایت ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ سرکار اقتدار کے نشے میں اور ایک مخصوص مذہبی فرقے کی دشمنی میں ہندوستان کے سیکولر جمہوری دستور کے ساتھ ہندو دھرم، درشن اور نیتی کو بھی پامال کر رہی ہے۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)