‏شاہین باغ ، صبر اور کرنٹ

مشرّف عالم ذوقی 

۲۰۱۶ میں جاٹ تحریک نے زور پکڑا، اس نقصان کا اندازہ ان اخباروں اور صحافیوں کو نہیں ہے جو شاہین باغ کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، شاہین باغ والوں کے پاس ملک بچانے ، آیین و دستور کی حفاظت اور صبر و تحمل کے سوا کچھ بھی نہیں، ۲۰۱۶ میں ملک کا ایک بڑا حصہ ریزرویشن کی ‘آگ’ میں جل رہا تھا ۔ جاٹ ریزرویشن کے مطالبہ کے درمیان پیش آنے والے شدید تشدد اور لوٹ مار کے واقعات تشویشناک تھے۔ کچھ اس تحریک کی حمایت میں تھے، کچھ اختلاف میں اور مودی امت شاہ کی حکومت تماشہ دیکھنے اور جاٹوں کو خوش رکھنے میں مصروف۔ اس تحریک کے مضر اثرات پر ایک نظر ڈالیں۔

— 5 سے 7 ریلوے اسٹیشن تباہ! میڈیا رپورٹس کے مطابق ، تحریک تشدد کے واقعات میں 5-7 اسٹیشنوں کو نمایاں نقصان پہنچا. جس میں تقریبا 200 کروڑ کا نقصان ہوا، اندازہ لگائے، ۲۰۰ کروڑ کا نقصان ..

— 800 کے قریب ٹرینیں منسوخ ہوئیں . اس سے ریلوے کو ہونے والے محصولات کے نقصان کا تصور کرسکتے ہیں۔ 

— بہت سے بس اسٹینڈ اور سرکاری دفاتر کو نذر آتش کردیا گیا

— بہت ساری سڑکیں کھوددہلی گین . یہاں تک کہ فوج کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے داخل ہونا پڑا۔ ریاست کا پورے ملک سے رابطہ ٹوٹ گیا . ۹ دن تک یہ تحریک چلی، زیادہ چلتی تو پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔

— 1000 سے زائد گاڑیاں اور 500 سے زیادہ دکانیں نذر آتش کی گین . آج تک ، کیشو کمار کی رپورٹ دیکھئے، (۲۲ فروری ۲۰۱۶) ، انڈسٹری بورڈ کے مطابق سیاحت کے شعبے ، ٹرانسپورٹ اور مالی خدمات سمیت 18 ہزار کروڑ روپئے نقصان ہوا۔ صنعتی اور زرعی کاروباری سرگرمیوں، بجلی، اور کھانے پینے کی اشیاء کو پہنچنے والے نقصان سے ۱۲ ہزار کروڑ کا نقصان ہوا .۔ نیز سڑک ، ریستوراں ، بس اسٹینڈ ، ریلوے اسٹیشن اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی سہولیات کو نقصان پہنچنے سے چار ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا اس طرح جاٹ احتجاج کی وجہ سے مجموعی طور پر ۳۴ ہزار کروڑ کا نقصان ہوا، یعنی ملک پر ۳۴۰۰۰ کروڑ کا بوجھ پڑا .

 ۲۰۱۴ میں مودی کی حکومت بنی، اور ۲۰۱۶ میں جاٹوں کی تحریک نے ملک کا نقشہ بدل دیا، جبکہ یہ تحریک ان کی ذاتی تحریک اور ریزرویشن کو لے کر تھی . اور شاہین باغ تحریک پورے ملک کے لئے ہے، اس تحریک میں ہر قوم و ملت کے لوگ شامل ہیں۔

تین طلاق کی پول تو اسی وقت کھل گیی تھی جب مودی حکومت نے مسلم عورتوں سے ہمدردی دکھاتے ہوئے انتہا پسندی کی حد کر دی۔ آئین ، ملک ، دلت اور مسلم مخالف حکومت کو وہی مہرہ چلنا پسند تھا ، جو تاناشاہی کی جڑوں کو مزید مضبوط کرے۔ شاہین باغ کے پر امن احتجاج سے پریشان امت شاہ نے دلی انتخاب کو لے کر جو بیان دیا ، اس کی شدت اور انتقام میں ہر حد سے گزر جانے والے لہجے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ بیان ہے کہ بٹن اتنے غصّے میں دباؤ کہ کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے — انتخاب کا بٹن غصّے میں کون دباتا ہے ؟ کیا شاہ یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ووٹ دینے غصّے میں جاؤ، اور شاہین باغ کی عورتوں کو کرنٹ لگا دو؟ کرنٹ لگنے سے جان بھی جاتی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ بیان شاہین باغ کی مخالفت میں بھی ہے اور عورتوں کی مخالفت میں بھی، ان میں ان عورتوں کو نشانہ بنایا گیا جو مسلمان ہیں، تین طلاق کا بل پاس کرتے ہوئے ان عورتوں کے لئے زبان بدل گئی تھی، اب ان مسلم عورتوں کے ساتھ ہر قوم کی عورتیں اور بیٹیاں بھی احتجاج کا حصّہ بن چکی ہیں، کرنٹ کہاں کہاں دوڑے گا؟ اب تو پورا ہندوستان شاہین باغ ہے۔

کپل مشرا جو کبھی عام آدمی پارٹی میں تھے، مودی کی مخالفت میں ہر حد سے گزر جاتے تھے، اب بی جے پی میں ہیں تو دلی انتخاب کو ہندوستان اور پاکستان کی جنگ سمجھ رہے ہیں . اس نادر خیال کے پیچھے بھی شاہین باغ ہے . ابھی حال میں منیش سسودیا نے آجتک چینل کو دیے گئے انٹرویو میں اقرار کیا کہ شاہین باغ کے ساتھ بھی ہیں ہے جے این یو کے ساتھ بھی . اتر پردیش احتجاج میں بھی ہر قوم کے لوگ شامل ہیں لیکن یوگی کی گندی زبان پر صرف مسلمانوں کے نام ہیں . کوڑے صرف مسلمانوں پر برس رہے ہیں۔

کیا احتجاج شروع ہونے تک کویی سوچ سکتا تھا کہ ہندوستان میں اب تک کا سب سے بڑا آندولن شروع ہوگا اور یہ آزادی کے بعد کا سب سے بڑا آندولن مسلم عورتوں کی قیادت میں شروع ہوگا ؟ اور جب یہ ملکگیر تحریک شروع ہوئی اس وقت بھی کسی کو یقین نہیں تھا کہ آنے والے وقت میں ملک کا ہر چوراہا ، ہر گلی شاہین باغ میں تبدیل ہو جائے گا .فسطائی طاقتوں کو روند ڈالنے والی آواز اس قدر بلند ہوگی کہ آسمان میں شگاف پڑجائے گا، بابری مسجد شہادت سے تین طلاق اور ہجومی تشدد سے ہلاکت کی نئی نئی کہانیوں تک مسلمان خاموش رہا لیکن جب آیین، جمہوریت اور ملک کے تحفظ کا خیال آیا تو گھروں میں رہنے والی عورتوں نے بھی ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں مورچہ سنبھال لیا، ٹھٹھرتی سردی میں ماؤں کے ساتھ ننھے بچے بھی ، بزرگ عورتیں بھی ساری ساری رات احتجاج میں مصروف رہیں، نہ انہیں گولیوں کا ڈر ستا رہا تھا نہ ، نہ انہیں ہلاکت کی پرواہ تھی ، مائیں ، بہنیں بیٹیاں اور ہمارے نوجوان سب نے سر سے کفن باندھ لیا، کیا حکومت کے بیانات یہ واضح نہیں کرتے کہ حکومت احتجاج سے خوف زدہ ہے؟ ممکن ہے حکومت احتجاج کو کچلنے میں کامیاب ہو مگر اس کا کیا کیجئے کہ جمہور پسند ہر شہری نے اپنے سینے پر شاہین باغ کا نام لکھ دیا ہے، اب اس نام کو مٹانا آسان نہیں۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں