عابد انور
قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین کی خواتین مظاہرے کو آج دو ماہ مکمل ہوگئے ہیں اس دوران یہاں کی خاتون مظاہرین کو اس مظاہرہ کو جاری رکھنے کے لئے سخت آزمائشوں، امتحان، فائرنگ، شدت پسند تنظیموں کے حملے، پولیس کا دھرنا ختم کرنے کا دباو¿، طرح طرح کے طعنوں کا سامنا، پانچ سو روپے میں بکنے والی جیسے گھٹیا پروپیگنڈہ، مشترکہ تہذیب و وراث و صلح کل کا پیغام دینے، جمہوریت اور سیکولرازم کو بچانے کے لئے سخت محنت کرنی پڑی اور وہ ہر امتحان سے سرخرو ہوکر نکلیں۔
گزشتہ 16دسمبر سے سریتاوہار کالندی کنج روڈ پر اپنا مظاہرہ شروع کیا تھا۔ اس وقت یہ خاتون جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ پر پولیس کی وحشیانہ کارروائی اور قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف مورچہ سنبھالا تھا جو اس وقت پورے ملک میں پھیل گیا ہے۔ اس وقت تقریباً دو سو سے زائد مقامات پر خواتین کا دن رات کا مظاہرہ جاری ہے۔
شاہین باغ خاتون مظاہرین پر جس طرح حملے کیے گئے اسی طرح خواتین نے اس کا مدلل اور مہذب انداز میں جواب دیا اور اپنے مظاہرے کو مخالفین کی سوچ سے اپنی سوچ بڑی کرتی گئیں، ملک کا غدار کہا گیا تو وہاں انڈیا گیٹ اور ہندوستان کا نقشہ بناکر پیش کردیا گیا، جہاں وہاں آزادی کے نعرے لگے، آئین بچاو¿ کے نعرے لگے، جے بھیم کے نعرے لگے، وہیں جے شری رام کے نعرے بھی لگے، بھارت ماتا کی جے کے بھی نعرے لگے اور مسلم خواتین نے جوش و خروش کے ساتھ نعرے لگائے گئے۔ جب اس مظاہرہ پر مسلم مظاہرہ ہونے کا الزام لگا تو اس مظاہرہ کو پورے ملک تمام قوم کا مظاہرہ بنانے کے لئے مظاہرہ گاہ میں ایک ساتھ ہون ہوا، سکھ بھائیوں نے گروگرنتھ کا پاٹھ پڑھا تو عیسائی بھائیوں نے بائبل پڑھا اور مسلمانوں نے قرآن کی تلاوت ایک ہی اسٹیج پر کی۔ شاہین باغ مظاہرین کی حمایت میں ہون بھی کیا گیا اور مسلم خواتین نے ٹیکے بھی لگائے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس مظاہرہ میں صرف ایک فرقہ کے لوگ نہیں بلکہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے شاہین باغ خواتین کا مظاہرہ کا تذکرہ نہ صرف ہندوستان کے کونے کونے میں ہو رہا ہے بلکہ پوری دنیا میں اور دنیا کی ہر یونیورسٹی میں اس کا ذکر ہو رہا ہے اور ان کی حمایت میں مظاہرہ کیے جا رہے ہیں۔
مظاہرہ کو بدنام کرنے کے لئے کئی ٹی وی چینل کے صحافی آئے، کسی وزرائ نے اسے توہین باغ قرار دیا۔ فسطائی طاقتوں نے کچھ لڑکے اور لڑکیوں کو برقعہ پہناکر بھیجا تاکہ مظاہرہ کو منتشر اور بدنام کیا جاسکے، لیکن خاتون مظاہرین ان کو پکڑ کر کسی کو کوئی تکلیف پہنچائے بغیر پولیس کے حوالے کردیا۔ کئی بار ہندو شدت پسند تنظیموں کے غنڈوں نے حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن خواتین کے عزم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین کی حمایت کرنے کے لئے پنجاب سے سکھوں کا دستہ مسلسل آتا رہا۔ آنے والوں کے سابق وزرا، سابق اسپیکر، سابق اراکین پارلیمنٹ و اسمبلی، سماجی کارکن اور عام لوگ تھے۔ سردار ڈی ایس بندرا لنگر چلا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک گرودا لنگر چل رہا ہے۔ جس میں تین ہزار لوگ روزانہ کھانا کھاتے ہیں۔ یو این آئی کے یہ پوچھے جانے پر کہ یہ سامان اور پیسہ کہاں سے آتا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہاں کے عوام دے جاتے ہیں۔ یہاں ہندو بھائی دے جاتے ہیں، سکھ بھائی دیتے ہیں، عیسائی بھی دیتے ہیں اور مسلمان بھی سامان رکھ جاتے ہیں اور ان لوگوں کے تعاون سے لنگر مسلسل چل رہا ہے۔
دو ماہ سے چل رہے شاہین باغ خواتین مظاہرہ میں کیا پڑھی لکھی، کیا ان پڑھ خواتین حصہ لے رہی ہیں۔ اس مظاہرہ میں 20 دن کے بچہ سے لے کر 90 سالہ خواتین بھی شریک ہو رہی ہیں۔ سب کا کہنا ہے کہ ہم آئین کو بچانے کے لئے آئے ہیں۔ جوں جوں رات جوان ہوتی ہیں خواتین اور دیگر مظاہرین کی تعدد بڑھتی جاتی ہے۔ پوری دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ملک سے لوگ آرہے ہیں اور شاہین باغ خواتین کے جذبے کو سلام کرنے کے ساتھ ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ سکھ سماج کے ساتھ دلت سماج کی خواتین اور مرد بھی جوش و خروش کے ساتھ اس مظاہرے میں حصہ لے رہی ہیں۔ آٹھ ریاستوں کی خواتین ایک وفد کی شکل میں آئیں۔ ان خاتون مظاہرین نے کہا کہ بات صرف مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ اس ملک کے اتحاد و سالمیت کی ہے جسے ہم کسی قیمت پر نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت آتی جاتی رہتی ہے لیکن یہ ملک ہمیشہ رہے گا اور ہم اس ملک کی مشترکہ تہذیب اور ساجھی وارثت کو کسی صورت میں بھی ختم نہیں ہونے دیں گے، کیونکہ اس حکومت کی یہی منشا ہے۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ قانون صرف مسلمانوں کو پریشان کرے گا وہ اپنی غلط فہمی دور کرلیں۔
خاتون مظاہرین میں شامل ایک ہند وخاتون رینو کوشک نے کہا کہ سوشل میڈیا پر شاہین باغ خاتون مظاہرین کی بات دیکھ کر مظاہرہ میں شامل ہوئی ہوں اور میں ان خواتین کے ساتھ رات میں بھی یہیں رہتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس لئے یہاں رہتی ہوں کہ ان خواتین کی مانگ جائز ہے اور اسی کی حمایت کرنے کے لئے یہاں بیٹھی ہوں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے یہ لڑائی صرف مسلمانوں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے نفاذ سے ہمارے ملک کی مشترکہ تہذیب و ثقافت اور ہندوستان کی پہنچان ختم ہوجائے گی۔
شاہین باغ خواتین مظاہرہ کی خاص بات ہے کہ یہ کسی منظم کے بغیر ہے، اس کے پیچھے کوئی تنظیم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی ہے۔ اس کے باوجود یہاں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ شاہین باغ اور دور دراز سے لوگ کھانے کا پیکٹ گاڑیوں میں بھر کر لاتے ہیں یا خود تقسیم کرتے ہیں یا رضا کار کے حوالہ کر دیتے ہیں۔ کوئی پانی کی بوتلیں لیکر آتا ہے تو کوئی سموسہ لیکر آتا ہے تو کوئی کھانے کی کوئی اور چیز، دلچسپ کی بات یہاں کی یہ ہے کہ یہاں ’سیکولر‘ چائے ملتی ہے۔ جو مستقل بنتی رہتی ہے اور ہزاروں لوگ پیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بڑے بڑے تھرمس میں لوگ چائے بناکر لاتے ہیں اور مظاہرین میں تقسیم کرتے ہیں۔ کوئی انڈا تقسیم کرتا ہے، کوئی بسکٹ لیکر آتا ہے۔ کوئی گاڑی بھر کر بریانی کے پیکیٹ لیکر آتا ہے۔
یہاں مکمل طور پر گنگا جمنی تہذیب کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے ایک بینر پر اوم، اللہ، سکھ کا مذہبی نشان اور صلیب کا نشان ہے۔ کئی بینر اس طرح کے ہیں جس پر لکھا ہے کہ ’نو کیش نو اکاو¿نٹ‘،۔ شاہین باغ میں دہلی یونیورسٹی سے سیجو اور ابھتسا چوہان، خوشبو چوہان بھی ہیں جو اپنی ٹیم کے ساتھ شاہین باغ خواتین کا حوصلہ بڑھانے کے لئے آئی ہیں اور بابجے بجاکر اس سیاہ قانون کی مخالفت کر رہی ہیں۔ بچے ہاتھوں میں کینڈل جلاکر اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ مظاہرہ میں شامل گیارہ سالہ فیضان احمد، گیارہ سالہ عافیہ ندیم، رقیہ ندیم، چھ سالہ عدنان نے کہا کہ ہم ملک اور آئین کو بچانے اور سی اے اے، این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کرنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کا چھوٹا چھوٹا گروپ ہے جو مختلف طرح کے انقلابی نعرے لگا رہے ہیں۔ پیپلزآف ہوپ کے چیرمین رضوان احمد نے خواتین کے مظاہرے کو ظلم و جبر اور آئین کے حق میں جنگ کو ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ بغیر کسی رہنمائی اور بغیر کسی انتظام کے دو ماہ سے مظاہرہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ جب وہ اپنی طاقت دکھانے پر آجائے تو کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہاں آس پاس کی دوکانیں گزشتہ دوماہ سے بند ہیں، جس کی وجہ سے دوکانداروں کو بھی نقصان اور پریشانی ہے۔
یہاں ایک چھوٹا سا میڈیکل کیمپ بھی ہے جو مختلف ڈاکٹر رضاکارانہ طور پر بیٹھتے ہیں اور چھوٹی موٹی بیماری کا علاج اور طبیعت خراب ہونے والوں کو دوائی دیتے ہیں۔ اس مظاہرہ میں ایک اور خاص بات یہ ہے کہ تمام سیاسی اور سماجی کارکن اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ گرچہ اس مظاہرے کو سیاست اور سیاسی پارٹیوں سے دور رکھا جارہا ہے لیکن کوئی نہ کوئی شخص اس کی حمایت کرنے کے لئے آہی جاتا ہے۔ ان میں سیاست داں، سماجی کارکن، فلمی ہستیاں، سابق نوکر شاہ، تعلیمی، معاشی، اور سماجی ہستی شامل ہیں۔
کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور نے کہا کہ مودی حکومت ملک کی مشترکہ ورثے اور گنگا جمنی تہذیب کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگی ہے لیکن ملک کے عوام ان کی اس منشا کو پورا ہونے نہیں دیں گے۔ مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے شاہین باغ کی خواتین کو شاہین صفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ شاہین کبھی ناکام نہیں ہوتا اور کامیابی آپ کی قدم چومے گی۔ مشہور روحانی گرو سوامی اگنی ویش نے کہا کہ آج ساری انسانی برادری کا متحد ہوکر ظلم کرنے والوں کے خلاف لڑنا اور مظلوموں کا ساتھ دینا ہی سب سے بڑا مذہب ہے۔
اس مظاہرہ کے انتظام و انصرام سے وابستہ رضواں خالد ، صائمہ خان، نصرت آرائ، ملکہ خاں، شیزہ اور شاہین کوثر نے بتایا کہ اس مظاہرہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بغیر کسی تنظیم کے ہے اور نہ ہی اس مظاہرہ میں اب تک کسی کو بلایا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اس کا کوئی منتظم ہے بس ہم لوگ یہاں کا تھوڑا بہت انتظام دیکھ لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مظاہرہ کسی فرقہ کے حق کیلئے نہیں کیا جارہا ہے بلکہ آئین کی حفاظت کیلئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک آئین سے چلتا ہے اور جب آئین ہی نہیں بچے گا تو ملک کیسے بچے گا۔ اس مظاہرے میں معروف عالم دین مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ۔ حال ہی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف آئی جی کے عہدے سے استعفی دینے والے عبد الرحمان، فلمی ہستی ذیشان ایوب، مشہور سماجی کارکن، مصنف اور سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر، فلمی اداکارہ سورا بھاسکر، کانگریس لیڈر سندیپ دکشت، بارکونسل کے ارکان، وکلاء، جے این یو کے پروفیسر، سیاست داں سریشٹھا سنگھ، آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ خواتین ونگ کی کنوینر ڈاکٹر اسماءزہرا ۔ الکالامبا، ایم ایل اے امانت اللہ خاں، سابق ایم ایل اے آصف محمد خاں،مولانا مفتی محفو ظ الرحمن عثمانی ۔ سابق ایم پی سرفراز عالم ،بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد، سماجی کارکن شبنم ہاشمی، ایم آئی ایم کے سابق ایم ایل اے وارث پٹھان ، انوراگ کشیپ، پلاننگ کمیشن کی سابق رکن سیدہ سیدین حمید، گوہر رضا، پپو یادو، وغیرہ نے اب تک شرکت کی ہے۔(بشکریہ یو این آئی )