عشرہ ذی الحجہ: ایک عظیم نعمت خداوندی

حفط الرحمن قاسمی

تمہید: اس کرہ ارض اور اس پر پھیلی ہوئی تمام چیزوں کا تنہا خالق و مالک اللہ ہےاور وہ اپنی مخلوقات میں ہر نوع کے تصرف کا حق رکھتا ہے، چنانچہ اس نے بعض انسانوں کو دوسروں سے اعلی ٹھہرا یا، بعض مقامات کو دوسری جگہوں سے افضل قرار دیا اور بعض زمانوں اور اوقات کو دوسرے زمانوں اور اوقات پر فوقیت و برتری عطا فرمائی۔ ان مخصوص اوقات و مقامات میں کیا گیا ادنی سا نیک عمل بسا اوقات عام زمان و مکان میں کئے گئے بڑے اعمال سے بھی ثواب میں سبقت لے جاتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی اسلامی تقویم کے آخری ماہ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔

فضیلت: ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس ایام کو خدا نے سال کے دیگر اوقات کے مقابلہ میں امتیازی شان کا حامل قرار دیا۔ متعدد آیات و احادیثہ ان دنوں کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اعمال سے بھی ان ایام کی فضیلت واضح ہوتی ہے ۔چنانچہ ان دنوں میں کئے گئے اعمال کا ثواب بھی عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ ہوجا تا ہے۔ ذیل میں قرآن و احادیث سے وہ دلائل  پیش کئے جاتے ہیں جن سے ان ایام کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔

اول: قرآن کریم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے “والفجر ولیال عشر” (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی)یہاں دس راتوں سے کون سی راتیں مراد ہیں؟ امام بغوی نے تحریر کیا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت مذکور میں دس راتوں سے مراد  ذی الحجہ کی ابتدائی راتیں ہیں۔ یہی رائے دیگر مفسرین مثلا  قتادہ، مجاہد، ضحاک،سدی اور کلبی رحمہم اللہ کی ہے۔

“تفسیر ابن کثیر” میں “لیال عشر” کی مراد کے سلسلے میں  مفسر نے مختلف ائمہ تفسیر کی رائے بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے، اور تائید کے طور پرمسند احمد سےایک روایت نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن العشر عشر الأضحى.  ( عشر سے مراد ذی الحجہ کا عشرہ ہے۔)

ان تمام ائمہ تفسیر کی رائے جان لینے کے بعد یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ آیت مذکور میں “لیال عشر” سے مراد ذی الحجہ کے عشرہ کی راتیں ہیں۔ اب غور کیا جائے کہ اللہ رب العزت ان آیات میں فجر اور دس راتوں کی قسم کھا رہا ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ لوگ اسی چیز کی قسم کھاتے ہیں جو ان کے نزدیک مہتم بالشان ہوں۔ چنانچہ یہ راتیں کس قدر اہمیت کی حامل ہونگی کہ اللہ  خود ان کی قسم کھا رہا ہے۔ اس لئے یہ خیال اپنی جگہ بجا اور مستند ہے کہ ذی الحجہ کی ابتدائی دس راتیں دیگر راتوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔

دوم: قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے “الحج أشھر معلومات” (حج کے مہینے معلوم و متعین ہیں۔) حافظ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ” ذو الحجہ کے دس دنوں کے فضائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ وہ معلوم مہینوں کا آخری حصہ ہیں اور وہ مہینے حج کے ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا  “الحج أشھر معلومات” اور وہ شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے دس دن ہیں۔”

صاحب تفسیر ابن کثیر فرماتے ہیں کہ “أشهر معلومات”سے امام ابوحنیفہ، امام شافعی کے اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کے مطابق شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن مرادہیں۔ اور صاحب تفسیر کی بھی یہی رائے ہے۔ مزید براں یہ کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ “أشھر معلومات” سے مراد شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کا عشرہ ہے۔ قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَشْهُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ (حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ حج کے مہینے شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کا عشرہ ہیں۔) حج کرنااس قدر عظیم المرتبت عمل ہے کہ یہ  ہر ذی شعور مسلمان کی پہلی مذہبی و روحانی تمنا ہوتی ہے۔چنانچہ وہ ایام  جن کو قرآن نے”حج کے مہینے”  قرار دیا ہے، کس قدر با برکت و با عظمت ہونگے۔ اور یہ بات مندرجہ بالاتشریحات سے ثابت ہو چکی ہے کہ حج کے مہینے شوال، ذوقعدہ اور ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ اس لئے عشرہ ذی الحجہ کے افضل و بابرکت ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا، کیونکہ اسی عشرہ کے ساتھ حج کے مہینے اختتام پذیر ہوتے ہیں۔

سوم:  اللہ تعالی کا  فرمان ہے “ویذکر اسم اللہ فی أیام معلومات۔” (اور معلوم دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں۔) اس آیت میں اللہ پاک نے صراحت کے ساتھ متعین ایام میں اپنے ناموں کا ذکر کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس سے ان ایام کی فضیلت واضح طور پر متحقق ہوجاتی ہے۔ ان ایام سے بھی وہی عشرہ ذی الحجہ مراد ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماکے حوالے سے نقل کیا ہے کہ ان معلوم دنوں سے مراد ذی الحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں۔ مزید یہ کہ   دیگر مفسرین مثلا حسن، عطاء، عکرمہ، مجاہد، قتادہ اور شافعی رحمہم اللہ سے بھی آیت مذکور کی یہی تفسیر منقول ہے۔ خداے تعالی کے انسانوں پر بے شمار احسانات ہیں، اس لئے ذکر الہی توبندوں پر ہر روزہمہ وقت  لازم ہے، لیکن مولائے کریم کا اپنی یاد کے لئے کچھ دنوں کا خصوصی طور پر ذکر فرمانا یقینا ان دنوں کی رفعت و عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔

ان تینوں آیات  میں غور کرنے کے بعد ذی الحجہ کے اول عشرہ کی فضیلت و برکت ثابت ہوجاتی ہے اور عمل کرنے والوں کے لئے کافی ہے، تاہم ہمارے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ احادیث بھی ہیں جو کھلے لفظوں میں ان ایام کی عظمت و رفعت کو بیان کرتی ہیں۔ ذیل میں کچھ احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ما من أیام العمل الصالح فیھن أحب الی اللہ من ھذہ الأیام العشر۔ فقالو: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا الجھادفی سبیل اللہ؟ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ولا الجھاد فی سبیل اللہ إلا رجل خرج بنفسہ و مالہ ولم یرجع من ذلک بشی۔  (ان دس دنوں سے زیادہ بہتر کوئی دن نہیں ہے جس میں نیک عمل اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں، ہاں مگر وہ شخص جو اپنی جان اور مال کے ساتھ راہ جہاد میں نکلے اور کچھ واپس لے کر نہ آئے، (یعنی سب کچھ اسی راہ میں قربان کردے)۔

حافظ ابن رجب رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: “جب ان دس دنوں میں کیا ہوا نیک عمل بارگاہ الہی میں سال کے باقی سارے دنوں میں کئے ہوئے نیک اعمال سے زیادہ فضیلت والا اور محبوب ہے، تو ان دنوں کی کم درجہ کی نیکی دوسرے دنوں کی بلند درجہ کی نیکی سے افضل ہوگی۔ اسی لئے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ کیا سال کے بقیہ دنوں میں کیا ہوا جہاد بھی دربار خدا وندی میں ان دنوں کے عمل سے زیادہ عظمت والا اور عزیز نہیں؟ تو آپ نے جواب دیا “نہیں۔”

ایک دوسری حدیث میں جس کو احمد اور دارمی نے نقل کیا ہے، نبی  کریم نے فرمایا: ما من عمل أزکی عند اللہ عز و جل ولا أعظم أجرا من خیر یعملہ في عشر الأضحی۔ قیل: ولا الجھاد في سبیل اللہ؟ قال: ولا الجھاد في سبیل اللہ عز و جل إلا رجل خرج بنفسہ و مالہ فلم یرجع من ذالک بشی۔ (کوئی عمل ایسا نہیں ہے جو اللہ کے نزدیک عشرہ ذی الحجہ میں کئے جانے والے نیک عمل سے زیادہ پاکیزہ اور زیادہ ثواب والا ہو۔ کہا گیا کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں۔ ہاں البتہ اس شخص کا جہاد جس نے اپنی جان اور مال کو خطرے میں ڈال دیا اور کچھ واپس نہ لا سکا۔ )

اسباب: اللہ تعالی ہر چیز کا تنہا خالق و مالک ہے۔ وہ کبھی ذروں کو آفتاب و ماہتاب بنا دیتا ہے، اور کبھی کبھی اوج ثریا جیسی رفیع الشان قدر و منزلت کی حامل شے کو قعر مذلت  میں دھکیل دیتا ہے۔ وہ جب چاہے کسی بھی چیز کو دوسری ہم جنس اشیاء پر فوقیت و برتری عطا کر سکتا ہے، چنانچہ اگر عشرہ ذی الحجہ کو سال کے دیگر ایام پر فضیلت بخشی گئی تو کوئی تعجب کا مقام نہیں۔ لیکن اس دنیا کا نظام اسباب کے ماتحت ہے، اس لئے انسان ہر چیز کی علت تلاش کرتا ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کے سبب کے سلسلے میں بھی علمانے کچھ نکتے بیان کئے ہیں۔  اس بارے میں حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ: عشرہ ذی الجحہ کی امتیازی شان کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں میں بنیادی عبادات جو کہ نماز، روزہ، صدقہ اور حج ہیں، وہ سب اکٹھی ہوجاتی ہیں اور کسی اور دن میں جمع نہیں ہوتی۔”

اس عشرہ کی فضیلت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسی میں یوم عرفہ ہے جس میں اللہ تعالی نے دین اسلام کو مکمل فرمایا اور اہل اسلام پر اپنی نعمت کا اتمام کیا۔ اور ظاہر ہے کہ جس دن کسی بھی شخص کو کوئی بڑی نعمت حاصل ہوتی ہے وہ دن اس کے لئے دائمی طور پر یادگار بن جاتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ ایک یہودی نے ان سےکہا:تمھاری کتاب میں ایک آیت ہے جس کو تم پڑھتے ہ، وہ اگر ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس کے یوم نزول کو عید مناتے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے پوچھا: کون سی آیت؟   اس نے جواب دیا: الیوم أکملت لکم …۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےفرمایا: قد عرفنا ذالک الیوم والمکان الذی نزلت فیہ علی النبی صلى الله عليه وسلم و ھو قائم بعرفۃ یوم جمعۃ۔  (ہمیں وہ دن اور جگہ معلوم ہے جہاں یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں تھے اور جمعہ کا دن تھا۔ )

عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت کی ایک علت یہ بھی ہے کہ اس کا آخری دن “یوم النحر” ہے ، جس کے بارے میں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أفضل الأیام عند اللہ یوم النحر و یوم القر۔ (اللہ کے نزدیک سب سے بہترین دن یوم نحر اور یوم قر ہے۔) یوم النحر سے مراد قربانی کا دن ہے اور یوم القر کے معنی ہیں ‘ٹھہرنے کا دن’ اور اس سے مراد گیارہویں  ذی الحجہ ہے، کیونکہ حجاج اس دن منی میں ٹھہرتے ہیں۔ اس حدیث میں واضح طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم نحر کی فضیلت بیان فرمائی ہے، اور یہ یوم نحر ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کا ہی ایک حصہ ہے، لہذا یوم نحر کی وجہ سے عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت بھی ثابت ہو جاتی ہے۔

خلاصہ: مذکورہ  آیات و احادیث سے عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام، اولیاء عظام اور علماء مخلصین ان ایام میں پورے اہتمام کے ساتھ خدائے پاک کی عبادت کرتے رہے ہیں۔ ان بزرگوں کے نزدیک زندگی کا مطمح نظر اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنا تھا، چنانچہ وہ ہر ان مواقع اور مقامات کے متلاشی رہتے تھے جہاں اعمال کا ثواب معمول سے زیادہ ملتا ہے، تاکہ وہ ان با برکت اوقات و مقامات میں اللہ کی مخصوص عبادت کے ذریعہ اپنے لئے توشہ آخرت تیار کر سکیں۔ لیکن ان کے برخلاف عامۃ المسلمین میں اس طرف سے بے انتہا کوتاہی کا ظہور ہوتا ہے۔ اس لئے عام مسلمین کو بھی چاہیے کہ اللہ نے ہمیں جو قیمتی موقع عنایت فرمایا ہے، اس سے تا حد استطاعت استفادہ کریں اور درگاہ خدا وندی میں حصول تقرب کے لئے سعی کریں۔  ذیل میں وہ اعمال دیے جاتے ہیں جن کو ان دنوں میں کرنے کی فضیلت آئی ہے۔

کثرت ذکر: اس عشرہ میں تکبیر و تحمید اور تہلیل کا بکثرت ورد کرنا مسنون ہے۔ حدیث پاک کا ارشاد ہے: ما من أیام أعظم عند اللہ ولا أحب إلیہ العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر فأکثروفیھن من التھلیل و التکبیر و التحمید۔ ( اللہ کے نزدیک ان دس دنوں میں عمل صالح کرنا جس قدر محبوب اور عظیم المرتبت ہے اتنا دوسرے دنوں میں محبوب نہیں ہے، اس لئے تم ان دس دنوں میں کثرت سے لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور الحمد للہ کہا کرو۔)

تکبیرات کے صیغے اور الفاظ  ہیں: (۱) أللہ أکبر أللہ أکبر کبیراً۔ (۲) أللہ أکبر اللہ أکبر لاإلہ إلا اللہ واللہ أکبر اللہ کبر وللّٰلہ الحمد۔تکبیر دو طرح سے کہنا مشروع ہے۔ (۱) تکبیر مطلق (۲) تکبیر مقید۔ تکبیر مطلق کا مطلب یہ ہے کہ ہر آن اور ہر لمحہ مسجدوں، گھروں اور ہر اس جگہ جہاں اللہ کے ذکر کی اجازت ہے تکبیر کہتا رہے۔ اس کا قت ذی الحجہ کا چاند نکلنے ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ تکبیر مقید یہ  ہے کہ عرفہ کے دن فجر کی نماز کے بعد سے تکبیر کہنا شروع کیا جا ئے اور ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک تکبیر کہتا رہے۔مرد بآواز بلند تکبیر کہیں گے اور عورتیں آہستہ آہستہ تکبیریں کہیں گی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ ان دس دنوں میں حضرت ابن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم تکبیر پکارتے ہوئے بازار میں نکلتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ تکبیر سن کر لوگوں کو تکبیر یاد آجائے اور وہ بھی کہنا شروع کر دیں۔ ہاں ایک بات مد نظر رہے کہ بیک آواز اجتماعی تکبیر نہ پکارا جائے کیوں کہ ایسا کرنا مشروع اور جائز نہیں ہے، بلکہ ہر آدمی انفرادی تکبیر پکارے۔

آج تکبیر کہنے کی سنت ہمارے درمیان سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بہت کم لوگوں کو آپ تکبیر کہتے ہوئے سنیں گے۔ اس لئے سنت کو زندہ کرنے کے لئے ہمیں کثرت سے تکبیرات کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے اس مردہ سنت کو زندہ کیا تو یقین جانئے اس میں ہمارے لئے عظیم ثواب ہے۔ فرمان نبوی ہے: “جس نے میری سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی، تو اس کے لئے ان لوگوں کی مانند ثواب ہے جنھوں نے اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں سے کچھ کم کیا جائے۔” اس لئے ہمیں ذی الحجہ کے ان ابتدائی دنوں میں کثرت سے اللہ رب العزت کی بڑائی، بزرگی اور اس کی تحمید و تقدیس بیان کرنی چاہئے۔

روزہ رکھنا: ان دس ایام میں کوئی بھی نیک عمل معمول سے زیادہ ثواب رکھتا ہے، اور روزہ تو ایک عظیم الشان عمل ہے جس کے بارے میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ “روزہ کا بدلہ میں خود ہوں۔” اس لئے ان ایام میں روزہ رکھنا عظیم سعادت اور ثواب کا ذریعہ ہے۔ مزید براں یہ کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذی الحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں روزہ رکھنا ثابت ہے۔ازواج مطہرات سے مروی ہے: کان رسول اللہ یصوم تسع ذی الحجہ و یوم عاشوراء و ثلاثۃ أیام من کل شھر۔  (نبی  صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نو دن، عاشورا کے دن اور ہر مہینے کے تین دن روزہ رکھتے تھے۔) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: أربعٌ لم تکن یدعہن النبي – صلی اللہ علیہ وسلم- صیام عاشوراء، والعشر، وثلاثة أیام من کل شہر، ورکعتان قبل الفجر. ( چار عمل ایسے تھے جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناغہ نہ کیا کرتے تھے۔ عاشورا کا روزہ، ایک سے نو ذی الحجہ تک کا روزہ، ہرمہینہ کے تین دن کا روزہ اور فجر سے پہلے کی دو رکعت سنت۔)

خلاصہ یہ کہ ذوالحجہ کے نو دنوں کا روزہ رکھنا مسنون اور با برکت عمل ہے، لیکن مسلمانوں نے اس کی طرف سے بڑی غفلت برتی ہے جو عین محرومی کی بات ہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو اس سنت عظیمہ کو زندہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ ہمیں توفیق بخشے۔ اس کے علاوہ خاص طور سے یوم عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنا بھی مسنون ہے۔ احادیث پاک میں صراحت کے ساتھ اس کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “عرفہ کے دن کا روزہ رکھنا، مجھے امید ہے کہ اللہ تعالا اسے ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنادے۔”

یوم عرفہ میں دعا کرنا: عرفہ کے دن دعا کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “سب سے بہترین دعا عرفہ کے دن کی دعا ہے اور سب سے افضل دعا جو میں نے اور مجھ سے پہلے انبیا نے کی ہے وہ ہے: لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر۔”  ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ یوم عرفہ کی دعا اکثر و بیشتر قابل قبول ہوتی ہے۔  اس لئے جو لوگ حج پر نہ بھی گئے ہوں، انھیں بھی چاہیے کہ اس عظیم دن میں دعا کا اہتمام کریں۔

سچی توبہ: یوں تو تمام اوقات میں مسلمانوں پر توبہ کرنا واجب ہے، لیکن سنہرے اوقات اور مباراک ساعات میں توبہ کی اہمیت اور بھی مزید ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہمیں اس عشرہ کو غنیمت جان کر اللہ کے سامنے سچی توبہ کرنا چاہیے اور توبہ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اس لئے کہ کوئی نہیں جانتا کی کہ کس وقت یہ زندگی کا چراغ گل ہو جائے۔ اور اگر کسی مسلمان کو اس سنہرے ایام اور مبارک اوقات میں نیک اعمال کی بجاآاوری کے ساتھ ساتھ سچی توبہ کی توفیق نصیب ہو جائے، تو یہ اس کی کامیابی کی دلیل ہے۔ فرمان الہی ہے: فأما من تاب و أمن و عمل صالحا فعسى أن يكون من المفلحين (ہاں جو شخص توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک کام کرے، یقین ہے کہ وہ کامیاب لوگوں میں ہوگا۔)(ملت ٹائمز)

(مضمون نگاراسلامک اسکالر مرکزالمعارف دہلی میں ڈائریکٹرہیں)