مثالی استاذ مولانا نور الحسن ؒ

FB_IMG_1471239828084احتشام الحق آفاقی

اب تک مثالی اساتذہ کی حیثیت سے بہت سے اساتذہ کے بارے میں پڑھااور سنا تھا ، جو تعلیمی میدان کے ابطال تھے ، جن کی قربانیوں کو شمار کرپانا محال ہے ۔گزشتہ پیر کو سیدضیاء الحسن (سابق پروفیسر امیر الدولہ اسلامیہ کالج لکھنؤ) سے میری ملاقات ان کی رہائش گاہ پر ہوئی ، انھوں نے راقم السطور کو حیات نور کا ایک نسخہ اپنے دستخط کے ساتھ عنایت کیا ، وہ کتاب ابھی زیر مطالعہ ہے ، کتاب میں مولانا نور الحسن صاحب ؒ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے،جسے پڑھنے کے بعد دل باغ باغ ہوگیا ،خصوصاََ کتاب کا وہ حصہ جس میں آپ کا تذکرہ بحیثیت استاذ کیا گیا،نایاب اور مفید معلومات سے لبریز تھا ۔نور الحسن صاحبؒ کی زندگی کے مطالعہ کے بعد ایک مثالی استاذ کا صحیح نقشہ دل و دماغ پر نقش ہوگیا ،مناسب معلوم ہواکہ یوم اساتذہ بھی قریب ہے کیوں نہ ایسے عالم ربانی اور مشفق و مربی استاذ کے بارے میں کچھ قلمبند کردیا جائے ۔
مولانا سید نور الحسن صاحب ؒ کی ولادت۱۹۰۶ ؁ء میں قصبہ ہنمکنڈہ ضلع ورنگل حیدر آبادآندھرا پردیش میں ہوئی ، ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہی ہوئی ۔ ام المدارس دار العلوم دیوبند سے انھوں تکمیل حدیث کی تعلیم مکمل کی ۔ ان کی تدریسی خدمات کا آغاز ۱۹۳۴ ؁ء کرنیل گنج، ضلع گونڈہ سے ہوتا ہے ، ایک سال کے بعد دارلعلوم ندوۃ العلماء میں بحیثیت استاذ ان کی تقرری ہوئی،۱۹۴۹ ؁ء تا ۱۹۵۹ ؁ء کے دوران ایک اسکول میں استاذ رہے اور ایک مدرسہ کے ناظم ۔ پھر مفکر اسلام حضرت مولانا ابو لحسن ندوی ؒ کی دعوت پر ندوۃ العلماء منتقل ہوگئے ۔حضرت مولانا رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم لکھتے ہیں ، ’’کہ مولانا بہت ہی شریف النفس انسان تھے اپنے شاگردوں سے ایسے ملتے اور ان سے برتاؤ رکھتے کہ وہ ان کے محبوب بن جاتے، وہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے دار الاقامہ کے کچھ عرصہ تک نگراں بھی رہے وہ اپنے طلباء کے ساتھ انس ملاطفت رکھتے، جس کا مشاہدہ طلباء نے ان کی نگرانی کے زمانہ میں محسوس کیا ہوگا۔آپ چھوٹے بچوں کے نگراں بھی تھے ، بچے ان کو باپ یا بڑا بھائی سمجھتے تھے ۔ڈرتے بھی اسی طرح تھے جیسے کوئی بچہ اپنے والد سے ڈرتا ہو ۔ کیوں کہ وہ اگر کسی وقت تنبیہ کرتے تو اپنے پاس بٹھا کر دلداری بھی کرتے تھے ۔ مولانا محبو ب الرحمان ازہری صاحب لکھتے ہیں ،کہ ’’حقیقی معنوں میں مولانا ایک کامیاب مربی تھے ، آپ کا انداز تدریس یہ تھا کہ جب بچوں سے سبق سنتے تو جن طلباء کو سبق یاد ہوتا ان کی خوب پذیرائی کرتے اور جن کو یاد نہ ہوتا ان کی توہین کرکے ہرگز ذلیل نہ کرتے بلکہ ان کے ساتھ بھی نرمی کا برتاؤ کرتے‘‘ بعض دفعہ طلباء کے سامنے ان کو نصیحت کا یہ طریقہ اپناتے ، کہتے ’’بیٹے سبق یاد کرلیا کو !دیکھو تم تو کچھ بھی کرسکتے ہو پھر بھلا تمھیں یہ کیسے یاد نہیں ہوگا ، تم خوب محنت کرو دیکھو ! کھیل کے وقت خوب کھیلو اورپڑھنے کے وقت خوب دل لگاکر پڑھو‘‘۔وہ اپنی پوری توانائی طالبعلم کی استعداد کو پختہ کرنے میں صرف کردیتے ،لیکن کبھی پیشانی پر شکن نہ آتی تھی ۔جیسے تازہ دم گھنٹہ شروع ہونے پر آتے ویسے ہی گھنٹہ کے ختم ہونے پر واپس ہوتے تھے ۔ ابسا اوقات آپ طلباء سے کچھ اس طرح مخاطب ہوتے تھے کہ آدمی کو اپنے ذریعۂ معاش کی فکر بھی کرنی چاہئے تاکہ کسی مرحلے میں ان کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے ، آپ فرماتے تھے کہ اگر آدمی تنگ دست ہوتا ہے تو سارے علم وفضل اور زہد ورع کے باوجود لوگ اس کو حقیر سمجھتے ہیں اور اس کی باتوں کا بھی اثر نہیں لیتے ہیں ۔ ان کی نظریہ تھا کہ خود کفیل ہونا عزت و سرخوئی کا سبب ہوتا ہے اور لوگوں میں سر اونچا رہتا ہے ، آپ کہتے جو کچھ بھی چاہوبنو ، لیکن خالی ہاتھ نہ رہو ، ورنہ لوگوں کی نگاہ میں تمہاری کوئی وقعت نہ رہے گی ۔ بعض بزرگوں کا بھی یہ مقولہ مشہور ہے کہ اگر ہم خود کفیل نہ ہوتے تو امرا ء و حکام ہم کو دست مال (ہاتھ پوچھنے کا رومال )بنالیتے ۔
آپ کی شفقت و محبت کی چند مثالیں پیش ہیں جن کو پڑھنے کے بعدان کے مربی اور مثالی استاد ہونے کا بخوبی اندازہ ہوسکتاہے ۔جس کے تحت راقم سطور نے یہ تحریر قلمبند کی ہے ۔ عربی صرف و نحو جو طلباء کے لئے ایک مشکل فن سمجھا جاتا ہے ، آج اس فن سے مجھ جیسے نالائق طالب علم کتراتے ہیں ، لیکن مولانا کی شفقت و محبت کے دائرے سے کسی طالب علم کا باہر جاناممکن نہیں تھا ۔ مولانا سید محمود الحسن ندوی صاحب رقم طراز ہیں ۔ ایک مرتبہ دو ایک طلبہ نے اپنی پریشانی ظاہر کرنے کے لئے باہمی چندہ سے ایک شعر تُک بندی کر کے مولانا کے سامنے پیش کیا ؂
ہم تو سمجھے تھے کہ آساں ہے زبان عربی
یہ تو ’’میزان‘‘ ہی کھا جاتی ہی دل کی چربی
انھوں نے اس شعر کو سنتے ہی اس میں برجستہ ترمیم کردی اور اپنا ترمیم شدہ شعر سنایا ؂
کون کہتا ہے کہ مشکل ہے زبان عربی
محنتی کی کبھی کھاتی نہیں عربی چربی
اسی طرح ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی ؒ ایک جگہ رقم طراز ہیں ،کہ مولانا جمعہ کے دن صبح کو ایک بچے کا کپڑا دھورہے ہیں ، تعجب ہوا کہ ایک استاذ کسی طالب علم کی خدمت کرے ، البتہ یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے طلباء اپنے اساتذہ کی خدمت کرتے ہیں ، چھوٹے بڑوں کی کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں ، کوئی انگیٹھی جلاتاہے تو کوئی چائے کی پیالی دھوتاہے ، لیکن یہ کہ خود استاذ کسی طالب علم کاکپڑادھوئے یہ تو ایک انوکھی بات ہے ، بعد میں حقیقت یہ کھلی کہ وہ بچہ غریب گھر کا تھا جس کے پاس صرف دو جوڑے کپڑے تھے ، ایک جوڑا دھوبی کے یہاں تھا اور دوسرا پہنے ہوئے تھا ، جوبہت میلا ہوگیا تھا ۔ مولانا نے محسوس کیا کہ اپنے کمزور ہاتھوں سے کپڑا ٹھیک سے نہیں دھو سکے گا ، چنانچہ اس کو لنگی پہنا کر بٹھا دیا اور اسکا کپڑا اپنے ہاتھوں سے دھو دیا ۔
طلباء کے اندر مولانا کی رحمدلی بھی عام تھی اس تعلق سے ڈاکٹر مولانا عباس ندوی ؒ اور ایک جگہ رقم طراز ہیں ، ایک مرتبہ کسی طالب علم سے کوئی خطا سرزد ہوگئی تمام طلباء عباسیہ حال ندوۃ العلماء میں جمع ہیں ، جس میں استاذ الاساتذہ کبیر المحدثین حضرت مولا نا حیدر حسن خان ؒ امیر مجلس کی حیثیت سے تشریف فرما ہیں ، پورے مجلس میں ایک ڈرا سہماطالب علم کھڑا ہے جس کے چرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا خون کشک ہو گیا ہے ، اس طالب علم کی پٹائی کا پورا انتظام ہوچکا تھا کہ اتنے میں اساتذہ کی صف سے ایک نوجوان مدرس اٹھا اور آکر مہتمم صاحب سے درخواست کی کہ میں اپنی طرف سے اس طالبعلم کو معاف کرتا ہوں ، سزا نہ دی جائے ۔ حضرت مہتمم صاحب نے کہا ’’ جزا ک اللہ ‘‘ اور تمام طلباء منتشر ہوگئے ،در اصل اس طالب علم نے جوغلطی کی تھی وہ خود حضرت مولاناسید نور الحسن صاحب ؒ کی شان میں گستاخی کی تھی ۔ مولانا اتنے رحمدل تھے کہ اپنے مجرم کو بھی معاف کردیا کرتے تھے ۔
حضرت مولانا ؒ کی ساری عمر درس و تدریس میں گزری ان کے شاگرد وں کی تعداد لا محدود ہے ، آپ کے بے شمار تلامذہ دینی اداروں ، عصری یونیورسیٹیوں میں تدریسی و تنظیمی خدمات انجام دے چکے ہیں اوردے رہے ہیں ۔ ان ممتازشاگردوں میں جن علماء و دانشوران کا شمار ہوتا ہے وہ یہ ہیں، مولانا سید رابع حسنی صاحب ندوی ، صدر مسلم پرسنل لاء بور و باظم ندوۃ العلماء لکھنؤ ، مفتی محمد ظہور صاحب ندوی ، دارالعلوم ندوۃ العلماء ، ڈاکٹر حبیب ریحان صاحب ندوی ، تاج المساجد بھوپال ، ڈاکٹر راشد صاحب ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، ڈاکٹر سید لقمان صاحب اعظمی ندوی ازہری ، سعودی عرب، ڈاکٹر محمد لقمان خان صاحب ندوی ازہر ی، بھوپال، مولوی یعقوب صاحب ندوی مرحوم ، میسور ، مولوی عباس صاحب ندوی ، مدرسۃ البنات رائے بریلی ، مولوی ابو البقاء صاحب، جامعۃ الصالحات اعظم گڑھ ، ڈاکٹر مسعود الرحمان صاحب، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، پروفیسر سید ضیاء الحسن صاحب ندوی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی اور دیگر سر فہرست ہیں ۔
یقیناًیہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ مولانا نور الحسن ؒ بیسویں صدی کی ایک مثالی اور جلیل القدر شخصیت تھے جو اپنے پیچھے ہزاروں شاگردوں کو چھوڑ کر اس دارفانی کو الوداع کہہ گئے ۔اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔

eafaqui1995@gmail.com