لداخ: کثرت میں وحدت کی ایسی مثال اور کہاں

صدائے دل:ڈاکٹر یامین انصاری
وادی کشمیر میں گزشتہ تقریباً دو ماہ سے تشدد کی جو آگ بھڑکی ہے، وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ ابھی تک ریاست سے لے کر مرکزی حکومت تک کی سبھی کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ وادی کے تقریباً سبھی ۱۰؍ اضلاع میں کرفیو اور حکم امتناعی کے سبب دو ماہ سے معمولات زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ درجنوں افراد کی جانیں جا چکی ہیں اور سیکڑوں لوگ زندگی اور موت کے درمیان جھول رہے ہیں۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد بھی نتیجہ صفر ہی نظر آتا ہے۔ در اصل مسئلہ کشمیر اس قدر پیچیدہ ہے کہ فوری اور اتنی آسانی سے حل ہونے کی امید بھی نہیں کی جا سکتی ہے۔ بہر حال آج کا یہ کالم مسئلہ کشمیر کے لئے نہیں، بلکہ اسی سر زمین کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالنے کے لئے ہے، جہاں سب کچھ معمول کے مطابق ہے، امن ہے، سکون ہے۔ ساتھ ہی نہ کوئی جھگڑا ہے، نہ کوئی فساد ہے۔ نہ کوئی مسئلہ ہے، نہ کوئی قضیہ ہے۔ بلکہ اتحاد و یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی بے مثال ہے۔ اخبارات و رسائل ، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا سے رو برو ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا کشمیر جل رہا ہے، ہر جگہ تشدد اور سیکورٹی اہلکاروں کے بوٹوں کی آہٹ اور گولیوں کی گڑگڑاہٹ ہے، لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ اگر وادی کے ۱۰؍ اضلاع کو چھوڑ دیا جائے تو ریاست جموں و کشمیر کے لداخ اور جموں علاقے پوری طرح پر امن اور پر سکون ہیں۔اس کا مشاہدہ اس وقت ہوا جب بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان واقع خوبصورت سیاحتی مقام لیہہ میں گزشتہ دنوں بچوں کے لئے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی تنظیم یونیسیف اور گلوبل انٹر فیتھ واش الائنس(جیوا) کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی دو روزہ کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ کانفرنس پانی کے صحیح استعمال، حفظان صحت اور صفائی مہم سے متعلق تھی۔ اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ہندوستان کے سبھی مذاہب کے رحانی پیشوا موجود تھے۔ اس میں ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا بھرپور احساس کیا جا سکتا تھا۔ صحت، صفائی اور پانی کا مسئلہ در اصل ہر امیر و غریب، چھوٹے اور بڑے، گویا ہر ہندوستانی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس لئے یونیسیف اور گلوبل انٹر فیتھ واش الائنس کی یہ پہل قابل ستائش ہے کہ لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے انھوں نے مذہبی رہنماؤں اور مذہبی مقامات کا سہارا لیاہے۔ اس کے علاوہ امید ہے کہ ان کی اس کوشش سے ملک میں نفرت کا بازار گرم کرنے والوں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والوں کے ناپاک عزائم کو بھی دھچکا پہنچے گا۔
یوں تو ریاست جموں و کشمیر ایک مکمل ریاست ہے، لیکن اسے زبان، تہذیب، طرز زندگی اور رسم و روایات کے مطابق تین خطوں میں تقسیم کرکے ہی دیکھا جاتا ہے۔ وادی کشمیر، لداخ اور جموں علاقے اس ریاست کے تین علاقے ہیں۔ جموں و کشمیر کا لداخ علاقہ شمال میں قراقرم اور جنوب میں ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع ہے۔ لداخ کا علاقہ ۹۷؍ ہزار ۷۷۶؍ کلو میٹر کے رقبہ میں پھیلا ہوا ہے۔ لیکن آبادی کے لحاظ سے یہ ہندوستان کا سب سے کم آبادی والا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اس کے شمال میں چین اور مشرق میں تبت کی سرحدیں ہیں۔ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے اسٹریٹجک لحاظ سے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ لداخ شمال مغربی ہمالیہ کے کوہستانی سلسلہ میں آتا ہے، جہاں کی زیادہ تر زمین قابل زراعت نہیں ہے۔ یہاں کی آب و ہوا انتہائی خشک اور سخت ہے۔ لداخ علاقہ کا لیہہ سب سے اہم شہر ہے۔ یہ سمندر کی سطح سے تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر، سری نگر سے ۱۶۰؍ میل مشرق اوریرقند سے تقریباً ۳۰۰؍ میل جنوب، لداخ کے پہاڑی سلسلہ کے دامن میں، بالائی سندھ کے دائیں ساحل سے ۴؍ میل دور واقع ہے۔ لیہہ سے سری نگر اور کلوّ وادی ہوتی ہوئی سڑکیں ہندوستان کے اندرونی حصوں میں آتی ہیں اور ایک راستہ قراقرم درہ کی طرف جاتا ہے۔ یہاں کی طرز زندگی پر تبت اور نیپال کے زیادہ اثرات ہیں۔ اسی لئے اسے چھوٹا تبت بھی کہا جاتا ہے۔ مشرقی حصہ میں زیادہ آبادی بودھ مذہب کے ماننے والوں کی ہے اور مغربی علاقہ میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔خاص طورپر لداخ کے علاقہ میں آنے والے کرگل میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یوں تو پورا ہندوستان کثرت میں وحدت کے لئے مشہور ہے،لیکن لیہہ پہنچ کر محسوس ہوا کہ اگر اس کا مشاہدہ محض ایک کلو میٹر کے دائرے میں کرنا ہو تو آپ صرف لداخ علاقہ کے لیہہ شہر چلے جائیں۔ یہاں چند قدموں کا فاصلہ طے کرکے تمام مذاہب کی عبادتگاہوں میں پہنچا جاسکتا ہے۔ لداخ کے راستوں میں بھلے ہی پیچ و خم موجود ہوں، یہاں کے بلند و بالا پہاڑی سلسلے کے نشیب و فراز سے بھلے ہی آمد و رفت میں کچھ مشکلات آتی ہوں، خشک موسم اور زیادہ تر اوقات برف سے گھرے رہنے والے اس علاقے میں زندگی کچھ دشوار ہو، لیکن لیہہ میں گھومنے کے بعد آپ کو ایسا محسوس ہوگا گویا آپ نے پورے ہندوستان کا دورہ کر لیا۔ خاص طور پر لیہہ کے مین بازار میں جب آپ داخل ہوں گے تو اس کی بناوٹ آپ کو دہلی کے دل چاندنی چوک کا احساس کرائے گی۔ تقریباً دو سو میٹر لمبے اس بازار میں آپ صرف پیدل گھوم سکتے ہیں، گاڑیوں کے لانے لے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ درمیان میں آنے جانے والوں کے لئے کشادہ راستے ہیں اور دونوں جانب ہوٹل، ریستوران، دکانیں، بینک اور دیگر تجارتی مراکز موجود ہیں۔ اس بازار میں داخل ہوتے ہی جب سامنے نظر جاتی ہے تو دور ایک کثیر منزلہ خوبصورت مسجد نظر آتی ہے۔ ایک بلند مینار اور گنبد والی اسی مسجد پر جا کر اس بازار کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ لیہہ کی جامع مسجد ہے جو جموں و کشمیر وقف بورڈ کے تحت آتی ہے، اس میں بیک وقت تقریباً ایک ہزار لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے اسی بازار میں بائیں جانب ایک خوبصورت اور کشادہ امام باڑہ ہے۔ جب اس امام باڑے سے چند قدم آگے بڑھیں گے تو بازار کے حصہ میں ہی بائیں جانب مڑتے ہی لداخ بدھسٹ ایسوسی ایشن مونیسٹری موجود ہے۔ جامع مسجد کے برابر سے ہی اس کے عقب میں جانے والے پیچیدہ اور تنگ راستوں سے جب آگے بڑھیں گے تو بمشکل ۱۰۰؍ میٹر کے فاصلے پر ایک گرودوارہ موجود ہے۔ اور اس کے چند قدم کے فاصلے پر ہی بائیں جانب موراوین نام کا ایک چرچ اس بات کا احساس کراتا ہے کہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کیوں تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ بازار سے نکل کر جب بائیں جانب آگے بڑھیں گے تو کرشنا مندر ملے گا۔ لیہہ شہر میں اگر چہ بودھ اور مسلم فرقہ کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے اور ہندو، سکھ اور عیسائی مذہب کے ماننے والوں کی تعداد کم ہے، لیکن اس کے باوجود یہاں کثرت میں وحدت کا بھرپور مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ سب لوگ یہاں ایسے مل جل کر رتے ہیں کہ نام پوچھنے پر ہی معلوم ہوتا ہے کہ کون کس مذہب کا ماننے والا ہے۔
قدرت نے جہاں اس علاقہ کو بے پناہ حسن و خوبصورتی سے نوازا ہے، وہیں لیہہ کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اس پورے خطے کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہے۔ یونیسیف اور جیوا کی کانفرنس کے دوران تمام مذہبی مقامات پر جانے کا موقع ملا۔ کیوں کہ سبھی مذہب کے رہنماؤں کا سبھی مذہبوں کی عبادتگاہوں کا دورہ اس کانفرنس کا ایک حصہ تھا، تا کہ صحت، صفائی اور پانی کے صحیح استعمال کے لئے لوگوں کو بلا مذہب و فرقہ بیدار کیا جا سکے۔ ظاہر ہے کہ مذہبی مقامات اور مذہبی رہنماؤں کی آج بھی اپنی معنویت ہے اور لوگ ان کی باتوں کو سر آنکھوں پر رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود کچھ لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ پھر بھی مساجد، مندر، گرودوارہ، چرچ اور مٹھوں سے نکلنے والی آواز یقیناًلوگوں کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔اس لئے آج جبکہ ایک گروہ کھلے عام ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے تانے بانے کو منتشر کرنے پر آمادہ ہے، ایسے میں ایک سماجی کام کے لئے سبھی مذہبوں کے رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا کافی اہمیت رکھتا ہے۔ امید ہے کہ یونیسیف اور جیوا کی یہ پہل کامیاب ثابت ہوگی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے کاموں کو وسعت دی جائے اور خاص طر پر دہلی اور شمالی ہند کی دیگر ریاستوں میں، جہاں نفرت کے سودا گر کھلے عام اتحاد و یکجہتی کو چیلنج کر رہے ہیں، وہاں اس طرح کی تحریکوں کو زور و شور سے چلایا جانا چاہئے۔ (ملت ٹائمز)
(مضمون نگار روزنامہ انقلاب میں ریزیڈینٹ ایڈیٹر ہیں