سادگی اپنوں کی دیکھ ،اوروں کی عیاری بھی

خالدانورپورنوی المظاہری
حجاج زیا رت حر مین شریفین کے لئے کیلے روانہ ہو رہے ہیں، کچھ راستے میں ہیں، اور کچھ مدینہ منورہ تک پہو نچ چکے ہیں، زبان پر لبیک ،لبیک کی صدا ئیں ہیں ،اور د ل میں خا نہ کعبہ کی زیا رت کا شوق ،ایک ہی تمنا لئے ہوئے سا ری ظاہری زیب وزینت کو چھوڑکر دربا رالٰہی میں حا ضری چاہتے ہیں کہ میرا رب مجھ سے راضی ہو جا ئے ۔ایک ہی لباس وپو شا ک ہیں سب کے، شا ہ وگدا، امیر وغریب، حا کم ومحکوم سب برابر ہیں یہاں، کیا انوکھی اور نرالی وردی ہے سب کے جسم پر، دو سا دہ چا دریں جو کفن،قبروحشر کی یاددلا تی ہیں۔ ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے، اجتماعیت اور مساوات کا ایسا خوبصورت منظرکہ اب نہ کوئی بندہ رہااورنہ بندہ نواز۔ بڑی بڑی حسین وجمیل عمارتیں،اورفن تعمیرکے خوبصورت نمونے دیکھے ہونگے لوگ،مگروہ دل کشی اور رعنائی جوکعبۃ اللہ میں اللہ نے رکھی ہے وہ سب سے ماسواہے،عبدیت اوربندگی کے سواکسی چیزکابھی ہوش نہیں رہتا، کیاہے دنیا،اوردنیاکی لذتیں اورخواہشات ؟خانہ کعبہ کودیکھنے کے بعد انسان سب کچھ بھول چکاہوتاہے۔
پوری دنیاکھینچی چلی آرہی ہے،ابراہیم خلیل اللہ کی اس آوازپرجوانہوں نے ایک ویران وادی غیرذی ذرع میں لگائی تھی،صدیاں گذرگئیں ؛مگرپھربھی’’ میں حاضرہوں،میں حاضرہوں اے میرے اللہ!میں حاضر ہوں، تیراکوئی شریک نہیں ،میں حاضرہوں ‘‘کہتاہواکعبۃ اللہ کی طرف پوری دنیاسے لاکھوں کی تعدادمیں لوگ چلے آرہے ہیں،اتنی بڑی بھیڑ،اوراتنابڑامجمع مگرنہ لڑائی،نہ جھگڑا،سب ایک ہی مقصدکے تحت دیوانہ و ارکبھی کعبۃ اللہ کاطواف کررہے ہیں،توکبھی صفاومروہ کے درمیان دوڑلگارہے ہیں،حجر اسودکابوسہ نہیں لے سکتے تودورسے ہی استلام کرتے ہیں،کبھی زمزم کاپانی پیتے ہیں،توکبھی میدان عرفات کی طرف چلے جارہے ہیں،جہاں نہ چھت ہے ، نہ سائبان،ہاں اللہ کے رسول کایہی فرمان ہے ،اوریہی کافی ہے ایک مسلمان کیلئے۔
ابراہیم خلیل اللہں کی آوازاورحج کے لئے لوگوں کو دعوت دینے میں اللہ نے کون سی تاثیررکھی تھی کہ ہرآئے دن حاجیوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے،30؍سے40 ؍لاکھ کی تعدادکم نہیں ہوتی ہے،مختلف رنگ ونسل اور زبان وبیان کے باوجود؛جوامن وسکون اورشانتی کاماحول وہاں دیکھنے کوملتاہے وہ صرف ایک معجزہ ہے اوراللہ کے رسول، پیارے حبیب ،سرکاردوعالم ﷺ کی مقدس سرزمین کی برکت اوردعاؤں کا اثر ہے ۔
موجودہ سعودی حکومت نے بھی اس امن وسکون کو بحا ل وبرقراررکھنے اور عالمی اجتماع کے باوجود اتحاد و اتفاق اوراجتماعیت کی راہ ہموارکرنے اور حج کی تمام پالیسیوں ،حرمین کی توسیع اور حجاج و معتمرین کے لئے آسانیاں فراہم کرنے میں جوخدمات انجام دی ہیں وہ یقینالائق تحسین اور قابل مبارکباد ہے۔
العربیہ نیٹ کے حوالہ سے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکایہ بیان ہمارے سامنے ہے ، وہ کہتے ہیں:حجاج کرام کی خدمت ہمارافرض ہی نہیں بلکہ یہ عظیم الشان فریضہ ہماری اور پوری قوم کیلئے باعث شرف بھی ہے،حجاج کرام کوآرام وسکون مہیاکرنااوران کی ہرچھوٹی بڑی ضرورت کاخیال رکھناہماری اولین ذمہ داری ہے،مکۃ المکرمہ ،مقامات مقدسہ ،مدینۃ المنورہ میں جتنے بھی ترقیاتی اورتعمیراتی منصوبے شروع کئے گئے ہیں، ان کامقصداللہ کے گھرآنے والے مہمانوں کوزیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرناہے۔ خادم الحرمین نے وزیر برائے امورحج ڈاکٹر بندربن محمدحجازسے حج کی تیاریوں کاجائزہ لیتے ہوئے واضح طور پرکہا ہے کہ حجاج کرام کی خدمت کرنے میں کسی قسم کی لاپرواہی نہ کریں،یہی وجہ ہے کہ حجاج کرام کی خدمت پر مامورہرہرشخص حجاج کرام کی خدمت کواپنے لئے پیشہ وارانہ ڈیوٹی نہیں سمجھتاہے؛ بلکہ دینی اورانسانی فریضہ کے ساتھ اپنے لئے باعث اعزاز بھی سمجھتاہے۔
ظ ظ ظ
ہاں یہ اوربات ہے کہ ایک طبقہ شروع سے ہی اسلام اورمسلمانوں کاسخت گیردشمن رہاہے،ظاہری طور پر الفت ومحبت کے گن گانے میں انہیں بڑی مہارت حاصل ہے،مگردلوں میں نفاق چھپائے رکھتے ہیں ، وہ حج جیسی مقدس عبادت میں اپنی سیاست کرناباعث فخروثواب سمجھتے ہیں،شایدیہی وجہ ہے کہ جب حج پروٹوکول پردستخط کرنے کی باری آتی ہے تو وہ انکار کردیتے ہیں۔
دنیاتویہ سمجھ رہی ہے کہ امسال ایران کے حج پرپابندی لگانے والے سعودی حکمراں ہیں،مگراہل نظرجانتے ہیں کہ ایرانی حکومت نے خودایرانی عوام پریہ ستم ڈھایاہے،حج انتظامیہ کی شرطوں کونہ ماننے کی ظاہرہے کوئی بڑی وجہ ضرورہوگی،اورہوسکتاہے کہ اس کے پیچھے کوئی بہت بڑی سازش بھی ہو۔
سال گذشتہ منٰی میں حادثہ پیش آیا،گھنٹے بھرمیں سات سوسے زائدحاجی شہیدہوگئے،دنیابھرسے تعزیتی پیغامات آئے،رومن کھیتولک کے روحانی پیشواپوپ فرانسیس ،اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری،ہمارے ملک ہندوستان کے وزیراعظم نریند ر مو د ی ، روسی صدر،برطانوی وزیراعظم،جنوبی افریقہ کے قائم مقام صدر،امریکہ ، جرمنی، اور دیگر حکومتو ں، اور وز ا ر ت خارجہ کے ترجمان وذمہ داروں نے منٰی حادثہ میں شہیدہوئے حجاج کرام کیلئے اظہارتعزیت کیا،اوررنج وغم کی اس گھڑی میں شاہ سلمان اورعالم اسلام کے ساتھ اپنی افسوس کا اظہار کیا ، دیگراسلامی ملکوں کے حکام نے بھی اپنے گہرے دکھ کااظہارکیا،صرف ایران ملک ہی ایساہے جس کے ردعمل سے ایسالگاجیسے اس کو موقع کی تلاش تھی۔
ایرانی حکومت نے نہ صرف یہ کہ حج کی تیاریوں کے سلسلہ میں سعودیہ حکومت پر کڑی تنقیدکی اور مناسب تحفظ فراہم نہ کرنے کاالزام عائدکیا،بلکہ شکوک وشبہات میں ڈالنے کیلئے افواہوں کابازارگرم کیا، احتجاجی مظاہرہ کیا،اپنے شہریوں کے مرنے پرتین روزہ سوگ کااعلان کیا۔سعودیہ حکومت کی ناہلی کو بتاتے ہوئے بہت ہی زوردار انداز میں اپنامطالبہ بھی دہرایاکہ حج کے انتظامات عالم اسلام کی مشترکہ ذمہ داری قراردی جائے۔حرمین شریفین اورحج کے انتظامات سے سعودی حکومت کودستبردار ہوجانا چائیے۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ سعودی حکومت ا ور وہاں کی عوام حاجیوں کی خدمت جس اندازمیں کرتی ہے اس کی نظیرملنی مشکل ہے،سال گذشتہ کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق 20؍لاکھ حاجیوں کی خدمات کیلئے ڈیڑھ لاکھ سیکوریٹی ،23,000؍سرکاری وظیفہ خوار ،8,000؍رہنما،43,000؍خیمے ، 40,000؍ بسیں، 555؍ ایمبولینس، 25؍ اسپتالس، 5,000؍ بیڈ، 55؍شفاخانے،اور38,000؍دیگرخدماتی آلات مقررکئے گئے۔
جائزہ رپورٹ کے مطابق صرف تین دن میں 340؍حاجیوں کی اوپن سرجری مفت ہوئی ،چونکہ کسی بھی حاجی کے بڑے سے بڑے ،یابھیانک مرض کی شکل میں بھی اس کا علاج وہاں مفت کیاجاتاہے ،کسی طرح کی کوئی فیس نہیں لی جاتی ہے،اور نہ کسی دوسرے ملک کے باشندہ ہونے کی وجہ سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ ہوتاہے ،وہی شوق ورغبت ،اور وہی جذبہ ان کے ساتھ بھی کارفرماہے۔
جگہ جگہ حجاج کی رہنمائی کیلئے سائن بورڈ،اہم مقامات پرآویزاں بڑی بڑی راہنما اسکرینیں،چاک وچوبنداسپیشل فورس،پولیس کے دستے،کشادہ داخلی اورخارجی اَن گنت راستے،ان راستوں سے نکلتے ایمرجنسی راستے،فضامیں گشت کرتے ہیلی کاپٹرز،ایک ایسامنظم اورمربوط نظام کہ دیکھنے والااورزیارت حرمین کیلئے گیا ہوا ہرحاجی تعریف کئے بنانہیں رہتاہے۔
ان تمام ترانتظامات کے باوجودہونے والے حادثات کوکون روک سکتاہے؟ہاں یہ بات ہے کہ سال گذشتہ حرم پاک میں کرین حادثہ کے بعد کچھ دنوں منٰی میں بھگڈرکاواقعہ پیش آیا،اس لئے امت مسلمہ کاپریشان ہوجانا،اوردردسے کراہ اٹھناایک فطری بات ہے،مگراعتراض اس کی جانب سے جس کے دونوں ہاتھ خون سے رنگین ہوں ،افسوسناک ضرورہے!
یہ کون نہیں جانتاہے کہ منٰی میں بھگڈرکاجوحادثہ پیش آیا،اس کے ا صل ذمہ دارایرانی حجاج ہیں، اگر گروپ بندی سے متعلق مقررکردہ تعلیمات پرایرانی حجاج عمل پیراہوتے تویہ حادثہ کبھی بھی پیش نہیں آتا، مگرسارے اصولوں اورسارے قوانین کوتوڑکر300؍ایرانی حجاج کایہ گروپ جمرات کی صبح مزدلفہ سے براہ راست جمرات کی طرف کنکڑیاں مارنے کیلئے روانہ ہوگیا۔جبکہ رول کے مطابق انہیں پہلے منٰی پہونچ کر اپنے خیموں میں قیام کرناتھا،اورجمرات جانے کیلئے اپنے مقررہ باری کاانتظارکرناتھا،لیکن گروپ نے اس پر عمل نہیں کیا،اورمزدلفہ سے سیدھے جمرات کیلئے نکل گیا۔300؍ایرانی حاجیوں کایہ گروہ جمرہ عقبہ کی رمی کرنے کے بعد ایگزیٹ ڈورسے نکلنے کے بجائے کچھ دیروہیں ٹھہرا،اورپھراسٹریٹ نمبر204؍پرمخالف سمت کی طرف چل دیا،رمی کے ختم ہونے تک کاانہوں نے انتظارنہیں کیا،یہ گروپ اسی راستہ سے واپس ہوگیا،جوراستہ جمرات کی طرف جانے کیلئے دوسرے حج مشن کے گروپوں کیلئے مخصوص تھا،جس سے رَش بڑھ گیا،اوربھگڈرمچ گئی،گرمی کی شدت نے مشکلات میں اضافہ کردیا،کئی ہزارجانیں گئیں،اس سے زیادہ زخمی ہوئے،سب سے زیادہ یہی ایرانی حجاج اس حادثے میں متأثرہوئے۔
4,000؍سے زائدامدادی کارکن اورفوجی اہلکاراور200؍سے زائدایمبولینس پہونچ گئیں،انتظامیہ نے بروقت جس مستعدی کامظاہرہ کیاوہ قابل قدرہے،ورنہ اس سے بھی زیادہ جانیں جاسکتی تھیں۔اس سے قبل 2006ء میں منٰی میں بڑاحادثہ پیش آیاتھا، جس میں تین سو جانیں گئی تھیں،اس حادثہ کے بعد سعودی حکومت نے کافی اصلاحات کیں،اورتعمیری کام کئے،جمرات تک آنے کیلئے اس وقت ایک ہی راستہ تھا،اس حادثہ کے بعد آنے کیلئے دس اورجانے کیلئے گیارہ راستے حکومت نے بنائے،جمرات جانے کیلئے پانچ وسیع پل تعمیرکئے، اور جمرات کوایک پیلریعنی عمودکے بجائے دیوارکی صورت میں لمباکردیا۔
حج کی گذشتہ چالیس سالوں پراگرہم نظرڈالیں تومعلوم ہوگاکہ تقریباًآٹھ کروڑ حاجیوں نے حج کیا ہے ، ان میں تقریباً3,400؍حاجیوں کی وفات ہوئی،یہ ایسے حادثے ہیں جو زیادہ ناقص انتظامات کی وجہ سے نہیں بلکہ ان طاقتوں کی درپردہ سازش کی وجہ سے پیش آئے ہیں ؛ جنہیں اسلام اورمسلمانوں سے بے حد نفرت ہے۔
پندرہویں صدی ہجری کے جو36؍سال گذرے ہیں،اس میں سعودیہ عربیہ کی جانب سے سات کڑور حاجیوں کے حج کاانتظام ہواہے،حادثہ کی وجہ سے ہویابغیرکسی حادثہ کے مجموعی طورپر5,000؍حاجیوں کی وفات ہوئی ہے،ایسے میں وفیات کی کل نسبت زیرواعشاریہ ،زیرو،زیرو،زیرو،زیروسات بنتی ہے۔اسے ہم کیا کہیں ؟حج انتظامیہ کی ناہلی یاپھر کامیابی!!
حج مذہب اسلام کاپانچواں رکن ہے،وہ لوگ یقیناخوش نصیب ہیں،جنہیں اللہ نے زیارت حرمین شریفین کا موقع نصیب فرمایاہے،اس کے گناہ مٹ جاتے ہیں،اوروہ پاک وصاف ہوکر اس طرح گھرلوٹتاہے جیسے آج ہی پیدا ہوا ہو،حج مبروراورمقبول کاثواب صرف جنت ہے،وہ جوکچھ بھی مانگتاہے ،اللہ قبول کرتے ہیں،اوروہ شخص جس کو اللہ نے وسعت دی،مال ودولت سے نوازا،بیت اللہ تک پہونچنے کی صلاحیت اورقدرت کے باوجود حج کو نہیں گیا، اللہ کے رسول ﷺ کہتے ہیں:اس کایہودی ہوکرمرنااورنصرانی ہوکرمرنابرابرہے۔ایک دوسری حدیث میں اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا:جس کو نہ کسی صریح حاجت نے حج سے روکا،نہ کسی ظالم سلطان نے ،نہ کسی روکنے والے مرض نے،پھربھی حج نہ کیا،اوراسی حالت میں موت آجائے تواسے اختیارہے خواہ یہودی ہو کر مرے یانصرانی!
حج اعتراف بندگی کااہم ذریعہ ہے،اورعشق ومحبت کی ایسی داستان کہ لاکھوں کے مجمع میں خانہ کعبہ کا طواف ،صفاومروہ کی سعی،ایک دن منٰی میں پڑاؤ،دوسرے دن عرفات میں،اوررات مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے ، پھرجمرات ،سارے تھکادینے والے اعمال؛ مگرپھر بھی وہی جوش وجذبہ اورزبان پرلبیک،لبیک کی صدائیں، اس بات کی گواہ ہیں کہ حج کا مقصدخالص رضائے الٰہی کا حصول اور سنت نبوی کی پیروی ہے،حج کو میدان سیاست بنانااورزینہ کے طور پر بھولے بھالے حاجیوں کا استعمال کرناحج کی روح کے خلاف ہے ،اسی لئے حج انتظامیہ نے کڑی شرطیں لگائیں اور پھگر سے بھگدڑ جیساحادثہ پیش نہ آئے اصول وقوانین مقررکئے ؛مگر ایرانی وفد نے حج پروٹوکول پر دستخط کرنے سے انکارکردیا!!
سادگی اپنوں کی دیکھ ،اوروں کی عیاری بھی دیکھ!!
(مضمون نگار ماہنامہ ندائے قاسم پٹنہ کے ایڈیٹر ہیں)
(ملت ٹائمز)

SHARE