خبر در خبر (627)
شمس تبریز قاسمی
کرونا وائرس ایک عذاب اور لاعلاج مرض ہے ، پوری دنیا کو اس نے اپنی چپیٹ میں لے رکھا ہے ، بڑے بڑے طاقتور ممالک اور میڈیکل سائنس میں نمایاں مقام رکھنے والے اس کی زد میں ہیں۔ یہ ایک ایسا وائرس ہے جو کسی کو بھی اور کہیں بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ اس کا کوئی دھرم اور مذہب نہیں ہے ، یہ کسی ایک خطہ اور علاقہ تک محدود نہیں ہے ۔ امیر غریب ، گورے، کالے ، مالک، ملازم ، ہندو، مسلمان، سکھ عیسائی، دلت آدی واسی ، عربی، عجمی، تعلیم یافتہ ناخواندہ، عوام سیاست داں ہر ایک اس کی زد میں ہے اور اس پر قابو پانا ، اس کو روکنا اور اس سے بچنے کیلئے کوشش کرنا دنیا کے ہر ایک شہری کی بنیادی اور اولین ذمہ داری ہے۔ اس خطرناک اور مہلک عذاب سے بچاؤ کیلئے ممکنہ تدابیر اختیا رکرنا اور سبھی ذات ، مذہب اور دھرم کے لوگوں کو ملک کر اس کے خلاف لڑنا ضروری ہے تاہم افسوس کی بات ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس وائرس اور عذاب کو بھی ہمارے ملک میں فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا ہے اور اس کیلئے ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا جارہا ہے۔
بھارتیہ میڈیا کئی دنوں سے یہ ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے کہ کرونا وائرس کو وزیر اعظم مودی نے بھارت میں پھیلنے سے روک دیا تھا ۔ 133 کڑور کی آباد ی والے ملک میں بمشکل 1000 کرونا کے مریض پائے گئے تھے ۔ اس معاملے میں بھارت امریکہ ، اٹلی، اسپین اور چین جیسے ترقی یافتہ ممالک سے آگے بڑھ گیاتھا جہاں کورونا نے قہر برپا کر رکھا ہے۔ وہ ممالک اس پر قابو پانے میں ناکام رہے لیکن بھارت نے اس کو پھیلنے نہیں دیا تھا۔ لیکن مرکز نظام الدین میں 1314 مارچ کو ایک اجتماع ہوا جس میں تقریباً 2500 مسلمان شریک تھے ۔ اس اجتماع کے بعد بھارت بھی بری طرح کرونا وائرس کی زد میں آگیا اور یہاں کورونا مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھنے لگی ہے۔ میڈیا نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فرضی نیوز چلانے کا سلسلہ شروع کردیا ۔ ڈاکٹرس اور نرس سے جھڑپ، پولس کے ساتھ بدتمیزی اور تھوکنے والی پرانی ویڈیوز کو دکھانا شروع کردیا او ریہ تاثر دینے کی کوشش کی تبلیغی جماعت کے لوگوں میں قانون کی خلاف ورزی ، سرکاری عملہ سے بدتمیزی اور بھارت سے غداری فطرت میں رچی بسی ہے حالاں سچ سامنے آگیاہے کہ اس طرح کی کسی بھی ویڈیو کا تعلق تبلیغی جماعت سے نہیں ہے۔ میڈیا کی اس منفی اور جھوٹ پر مبنی رپوٹنگ نے ایک مرتبہ پھر بھارت کے ہند ومسلم سماج میں کھائی پیدا کرنے اور ماحول کو زہریلا بنانے کا سبب ثابت ہوئی ہے۔ کئی علاقوں میں اس کے آثار بھی دکھ رہے ہیں ۔
نومبر 2019 میں چین کے صوبہ وہان سے یہ وائرس شروع ہوا اور اب تقریباً دنیا کے 170 ممالک کو اپنی چپیٹ میں لے رکھاہے ، دنیا کا ہر ملک اس کے خلاف لڑائی لڑنے اور اس سے بچاؤ کی کوشش کررہا ہے ، کہیں بھی یہ بحث نہیں ہورہی ہے کہ کرونا کس دھرم کے لوگوں سے پھیلاہے ، کرونا جیسی وباء کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ صرف بھارت دنیا کا ایسا ملک ہے جہاں میڈیا لگاتار دن رات یہ کہہ رہی ہے کہ بھارت میں کرونا کیلئے تبلیغی جماعت ذمہ دار ہے دوسرے الفاظ میں کرونا وائرس کیلئے ذمہ دار صرف مسلمان ہیں۔ چین ، امریکہ، اٹلی، ایران، برطانیہ، اسپین، جرمنی جیسے ممالک اس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں تاہم وہ ممالک اب تک اس کا سبب تلاش نہیں کرسکے ہیں لیکن بھارت نے اس کا سبب اور سینٹر تلاش کرلیا ہے ۔
مرکز نظام الدین میں13\14 مارچ کو 2000 افراد کا اجتماع ہوا تھا ۔ان دنوں بھارت میں مکمل لاک ڈاﺅن کا اعلان نہیں ہواتھا بلکہ یہاں معاملہ کو کوئی خاص اہمیت تک نہیں دی گئی تھی ، کئی علاقوں اور مقامات میں ہزاروں لوگ اکٹھے ہورہے تھے۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس کی سرکار گرائی گئی اور بی جے پی نے اپنی سرکار بنائی ۔ 14 مارچ کو میرٹھ کی شوبھت یونیورسیٹی کے کنووکیشن میں گوا کے گورنر ستیہ پال ملک نے شرکت کی جہاں کئی ہزار کا اجتما ع تھا ۔ یوپی کے وزیر اعلی نے مکمل لاک ڈاؤن نافذ ہوجانے کے بعد 25 مارچ کو ایودھیا کے ایک پروگرام میں شرکت کی ۔ پارلیمنٹ کی کاروائی بھی 23 مارچ تک چلتی رہی۔ 22 جنوری کوایک جلوس کی شکل میں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر تالیاں اور تھالیاں بجائی اور جنتا کرفیو کی کامیابی کا شاندار جشن منایا ۔ اچانک مکمل لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی دنوں تک لاکھوں مزدوروں کی بھیڑ دہلی کے مختلف علاقوں میں اکٹھا ہوئی ، ایئر پورٹ پر بھیڑ جمع ہوئی ، لکھنو کے پانچ ستارہ ہوٹل میں اداکارہ کننی کپور کا پروگرام منعقد ہوا جس میں کئی بی جے پی کے رہنما شریک تھے اور اداکارہ کرونا پوزیٹیو پائی گئی تھی۔ ایسے کئی سارے پروگرام ہوئے جہاں پانچ سو سے زیادہ کی بھیڑ تھی لیکن ان سب کے خلاف کوئی بات نہیں ہورہی ہے صرف تبلیغی جماعت اور مرکز کو نشانہ بنا یا جارہاہے ۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ فروی کے اخیر اور ماچ کے شروع میں تقریب پوری دنیا الرٹ ہوگئی تھی لیکن اس کے باوجود ہندوستان نے کوئی توجہ نہیں دی ۔ پارلیمنٹ کی کاروائی 23 مارچ تک چلتی رہی۔ اپوزیشن سیشن بند کرنے کا مطالبہ کیا تو وزیر برائے پارلیمانی امور نے کہا کہ بھارت میں ماحول نارمل ہے بند کرنے کی ضرروت نہیں ہے ۔
مسلمانوں کے خلاف قومی میڈیا کے منفی پیروپیگنڈہ کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ہمیشہ اور ہر موقع پر میڈیا یہی کرتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہمیں اپنا بھی جائزہ لینا ضرروی ہے کہ کیا ہم محتاط تھے۔ ہم نے معاملہ کو سنجیدگی سے لیا تھا ۔ کئی سارے ایسے بیانات ہیں جس نے میڈیا کو بہت سارا مواد فراہم کردیا۔ تبلیغی جماعت کے امیر مولانا سعد کاندھلوی کی ایک آڈیو نے میڈیا کو سب سے زیادہ موقع فراہم کیا جس میں انہوں نے حکومت کی ہدایات ماننے سے انکار کردیا تھا حالاں کہ اب انہوں نے ایک دوسری آڈیو جاری کرکے پہلے بیان سے رجوع کرلیا ہے۔ ٹک ٹاک پر بہت سارے مسلم نوجوان ایسی ویڈیوز بنارہے ہیں جس میں وہ مذہب کے نام پر سرکاری ہدایات کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان دوسرے نوجوان سے مصافحہ کرنے کیلئے ہاتھ آگے بڑھاتا ہے سامنے والا انکار کرتاہے تو یہ نوجوان کہتا ہے کہ بھائی ایک کرونا کی وجہ سے تم سنت پر عمل کرنے سے انکار کررہے ہو اس طرح کی ویڈیوز بنی ہوئی ہے۔ یہ معاملہ بھی اب تحقیق کا موضوع بن چکا ہے اور سائبر سیل ایسی 30 ہزار ویڈیوز کی تحقیق کررہا ہے۔ قرنطینہ میں رہتے ہوئے پانچ سے زیادہ افراد کے ساتھ جماعت کا اہتمام کرنا اور اس طرح کے کئی ایسے ایشوز ہیں جہاں ہم موقع بھی فراہم کررہے ہیں ۔ شہر سے لیکر گاؤں تک اس معاملہ کو مسلمانوں نے سنجیدگی سے لیاتھا ۔ ایک ہدایت پر مسلمانوں نے مسجد کے بجائے گھروں میں نماز پڑھنا شروع کردیا۔ ریلیف اور باز آباد کاری کا کام بھی مسلمان شروع دن سے کررہے ہیں اور اس میدان میں وہ سب سے سبقت رکھتے ہیں لیکن ان سب کے باوجود مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر بدنام کرنے کی سازش رچی گئی اورہماری کو تاہی نے بھر پور موقع فراہم کیا ۔
بہرحال اس سچائی سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ اپنی کوتاہی، ناکامی اور نااہلی کو چھپانے کیلئے تبلیغی جماعت کو ذمہ دار ٹھہرا کر سرکار یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ ہم نے کرونا وائرس پر قابو پالیا تھا لیکن تبلیغی جماعت کی وجہ سے ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اس فلسفہ پر بھارت کی ایک بڑی آبادی یقین بھی کرے گی کیوں کہ بھارت اندھ بھگتوں کا سب سے بڑا مرکز ہے ۔ یہاں سائنس اور دلائل سے زیادہ اندھ بھگتی کو اہمیت حاصل ہے ۔موجودہ حکومت اور وزیر اعظم نریندر مودی عوام کی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اسی بنیاد پر کرونا کے خلاف جنگ کرنے کیلئے وہ کبھی تالی وتھالی بجواتے ہیں۔ کبھی نو منٹ ک تک لائٹ بند کرواکر کینڈیل اور دیا جلواتے ہیں اور لوگ یہی سمجھ کرکرتے ہیں کہ مودی جی نے کہاہے تو کچھ سو چ سمجھ کر ہی کہا ہے ، یقینی طور پرکرونا اس سے بھاگ جائے گا ۔ بہرحال یہ پوری کوشش بی جے پی کو یقینی طور پر سیاسی فائدہ پہونچائے گی ۔ان کا ووٹ بینک بڑھے گا اور مودی سرکار پر کسی طرح کا الزام بھی نہیں لگ پائے گا ۔
تبلیغی جماعت دنیا کی سب سے پرامن تحریک ہے ، 150 سے زیادہ ممالک میں اس کا م کاج جاری ہے ۔ آئندہ دنوں میں انشاء اللہ تعالی یہ جماعت پہلے سے زیادہ منظم، مضبوطی اور جذبے کے ساتھ کام کرے گی ۔
(کالم نگار پریس کلب آف انڈیا کے جوائنٹ ڈائریکٹر اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں)