اپنے کسی عمل سے قوم و مذہب کی بدنامی نہ ہونے دیں۔ شب برأت میں جہاں اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے دعا مانگیں وہیں اللہ سے یہ بھی دعا کریں کہ اللہ کورونا وائرس کی دہشت سے پوری دنیا کو نجات عطا فرمائے۔
کامران غنی صبا
آج (9 اپریل) شب برأت ہے۔ آج کی رات کے متعلق مختلف طرح کی باتیں کہی جاتی ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ شب برأت کے تعلق سے ایک بڑا طبقہ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ جہاں ایک طرف بہت سارے افراد بالخصوص نوجوان شب برأت میں صرف شب بیداری کو عبادت سمجھتے ہیں اور رات بھر جاگنے کے لیے وہ یا تو سڑکوں پر مٹرگشتیاں کرتے ہیں، بائیک چلاتے ہیں یا دوستوں کے ساتھ خوش گپیاں کر کے رات گزار دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے شب برأت کی رحمتیں اپنے دامن میں سمیٹ لیں۔
وہیں دوسری طرف ایک اور بڑا طبقہ سرے سے شبِ برأت کی اہمیت و فضیلت کا ہی انکار کرتا ہے۔ یہ دونوں رویہ ٹھیک نہیں ہے۔ جو لوگ شب برأت کی اہمیت و فضیلت کو تسلیم کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اس رات میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں۔ کثرت کے ساتھ درود و سلام کا اہتمام کریں۔ اپنی، اپنے رشتہ داروں اور تمام عالمِ انسانیت کے لیے رحمت و مغفرت کی دعائیں مانگیں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے مذہب اور قوم کی بدنامی ہو۔
وہیں جو لوگ شبِ برأت کی فضیلت کا انکار کرتے ہیں انہیں بھی چاہیے کہ وہ جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی بجائے معروضیت کے ساتھ اپنی بات رکھیں۔ عام لوگوں کے ذہن میں شب برأت کے تعلق سے جو غلط روایات اور رسومات رواج پا گئی ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم سرے سے شب برأت کی اہمیت و فضیلت کا ہی انکار کر دیں۔ عام طور سے سمجھا یہ جاتا ہے کہ شب برأت کے حوالے سے جو حدیثیں پیش کی جاتی ہیں وہ ضعیف ہیں اس لیے شب برأت کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے۔
حالانکہ حدیث کا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی حدیث سند کے اعتبار سے کمزور ہو اور وہی حدیث یا اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ دوسری حدیث دوسرے اسناد کے ساتھ موجود ہو، تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے۔ شب برأت کے متعلق دس صحابہ کرامؓ سے اس کے فضائل روایت کیے گئے ہیں۔ اس لیے روایتوں کو ضعیف کہہ کر انہیں سرے سے رد کر دینا مناسب نہیں۔ ہاں شب برأت کی وہ رسومات جن کی اصل نہ تو قرآن و حدیث میں ہے اور نہ صحابہ کرام نے کبھی یہ رسومات انجام دیں، ان سے گریز کرنا چاہیے۔
اسلام رسومات کا دین نہیں ہے۔ رسومات کے نام پر کھیل تماشہ، فضول خرچی اور نئے نئے افعال کو فروغ ملتا ہے۔ گمراہی کے دروازے کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے صحابہ کرامؓ اور ان کے بعد کے ادوار میں بھی رسم و رسومات پر سختی سے روک لگائی گئی۔ اسلام دین فطرت ہے وہ تفریح کے نام پر لوگوں کو تکلیف پہنچانے، تہواروں کے نام پر شور و غوغا کرنے اور دین کے نام پر ہنگامہ آرائی کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتا۔
اس وقت پوری دنیا میں کورونا وائرس کی دہشت ہے۔ ہزاروں افراد اس وائرس کی زد میں آکر لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ لاکھوں افراد اس وائرس سے متاثر ہیں۔ دنیا کے بیش تر ممالک میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی حکومت نے احتیاط کے پیش نظر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے۔ عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مذہبی عبادتگاہیں عوام کے لیے بند کر دی گئی ہیں۔ مذہبی رہنماؤں کی جانب سے بھی بار بار اپیل کی جا رہی ہے کہ لوگ عبادات و رسومات اپنے گھروں میں ہی انجام دیں۔ گویا کہ اس بار لاک ڈاؤن میں ہی شب برأت ہے۔
مسلمان آج کی رات قبرستان جاتے ہیں۔ اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور متعلقین کی قبروں پر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ غریبوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ لیکن اس بار حالات مختلف ہیں۔ ملی اداروں اور مذہبی رہنماؤں کی طرف سے عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ شب برأت کی عبادت اپنے گھروں میں ہی کریں۔ ایصال ثواب بھی گھروں سے ہی کیا جائے۔ نوجوان گلیوں اور سڑکوں میں نہ گھومیں۔ حکومت کی طرف سے عوامی اجتماعات اور گھر سے غیر ضروری کاموں سے باہر نکلنے پر پہلے سے ہی پابندی ہے۔ تقریباً سبھی بڑے ملی اداروں اور رہنماؤں کی طرف سے بھی بار بار اپیل کی جا رہی ہے کہ لوگ غیر ضروری کاموں سے گھر سے باہر نہ نکلیں۔
ایسے میں یہ ہمارا قانونی، مذہبی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ کورونا وائرس کے خطرات سے بچنے کی جو تدبیریں بتائی جا رہی ہیں ہم ان پر سختی سے عمل کریں۔ اپنے کسی عمل سے قوم و مذہب کی بدنامی نہ ہونے دیں۔ شب برأت میں جہاں اپنے اور اپنے متعلقین کے لیے دعا مانگیں وہیں اللہ سے یہ بھی دعا کریں کہ اللہ کورونا وائس کی دہشت سے پوری دنیا کو نجات عطا فرمائے اور ہم سب کو مہلک اور وبائی امراض سے محفوظ رکھے۔
(مضمون نگار ‘اردو نیٹ جاپان’ کے اعزازی مدیر ہیں)