قاسم سید
کیا ملک دھیرے دھیرے جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے یا اسے زبر دستی دھکیلا جارہا ہے اور بالفرض کوئی جنگ ہوتی ہےتو وہ قومی سلامتی کے تحفظ کی خاطر ہوگی یا شیوسینا کے بقول کسی انتخابی مفاد کو مدنظر رکھ کر جنگجو یانہ کیفیت پیدا کی جارہی ہے۔ موجودہ صورتحال میں ملک کسی جنگ کا متحمل ہے اور کیا یہ کسی مسئلہ کا حل ہے۔ مختلف گوناگوں مسائل اور سنگین اندرونی چیلنجوں سے نبردآزما ہندوستان کو ایسا کوئی قدم اٹھانا چاہئے یاپھر صبروتحمل اور تدبر سے کام لے کر سفارتی محاذ پر جنگ چھیڑ کر دشمن کے حوصلے پست کرکے اس کی ناک دیوار سے لگائی جائے۔ انتقام اور بدلہ کی پرشور آوازوں میں معقولیت پسندی کے مظاہرے کی توقع کی جاسکتی ہے کیاحکمراں سیاستدانوں کے بڑ بولے بیانات کے چکر ویوہ میںسرکار خود پھنس گئی ہے اور اسے باہر نکلنے کاراستہ نہیں مل رہا ہے اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ فوج ذہنی طور پر جنگ کے لیے تیار ہے اور ہم جنگ چھیڑ کر بغیر نتیجہ حاصل کیے اسے بند کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا عالمی برادری ایسے کسی اقدام کی حمایت کرے گی یہ جنگ ایٹمی جنگ میں بدل گئی تو کیا ہوگا اور جنگ نہیں لڑی جائے تو دشمن کوسمجھانے ، اس کی عقل ٹھکانے لگانے کا راستہ کیاہے۔ کیا دونوں ملکوں کے ارباب اقتدار ایک دوسرے کے بارے میں غلط اندازے لگائے بیٹھے ہیں؟ کیا بارود کے ڈھیرپر پہنچ چکے کشمیر کی صورتحال پر قابو پانے کا راستہ جنگ ہی ہے جبکہ دفاعی ماہرین کے مطابق ہندوستان کےپاس جنگ کے لیے دس دن سے زیادہ گولہ وباردو نہیں ہے تو پھر یہ سوال تواپنی جگہ موجود ہے کہ پاکستان کی آئے دن کی شرارتوں ۔ بالواسطہ جنگ تھوپے جانےاور دہشت گردانہ حملوں کا علاج کیا ہے اور ملک کب تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے خاموش رہے گا۔ قیادت بزدلی کے طعنے سہے گی۔ وزیراعظم کو ان کے انتخابی بیانات یا دولاکر دبائو ڈالاجائے گا۔انہیں پاکستان کو لولیٹر لکھنے کی جگہ کارروائی کرنے ،ایک سرکی جگہ دس سر لانے کا عہد تازہ کراکے جنگ کے میدان میں دھکیلا جائے گا جس ٹوئٹر اور فیس بک کو بی جے پی نے ہتھیار بنایاتھا اور سات ریس کورس تک داخلہ حاصل کیا اب وہی سوشل میڈیا اس کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز تبصروں کا سیلاب آیا ہوا ہے اور مودی سرکار شدید دبائو میں ہے۔ عوام کے غم وغصہ اور شہید پریواروں کی روتی بلکتی تصاویر کو باربار دکھا کر الیکٹرانک میڈیا حکومت کو کٹہرے میںکھڑا کرنے میں لگا ہے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ موجودہ صورتحال پیدا کرنے میں حکومت کی بھی کوئی دلچسپی ہے، ایسا ماحول بناکر ان ایشوز سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتی ہے جو اس کے لیے وبال جان بن گئے ہیں اور اس سرکار کو لوگ جملے بازوں کی سرکار کہنے لگے ہیں ۔ پاکستان کے خلاف جنگ اور نفرت ودشمنی کا ماحول یقینا عارضی طورپر چیلنجوں کی تپتی دھوپ میں سائبان بن سکتا ہے لیکن یہ دائو الٹا پڑگیا تو اس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا پڑ سکتا ہے ۔ یقینی طورپر ہندوستانی قیادت سخت ترین امتحانی دور سے گزری ہے ۔ اعصاب شکن دبائو کو جھیلنے کی طاقت اور تحمل وتدبرکاامتحان ہے وہیں اپنی سنگین غلطیوں اور سیکورٹی میں پائی جانے والی خامیوں کا فراخدلی سے جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے جس کا اعتراف وزیر دفاع منوہر پریکر نے کیا ہے ۔
ہمارے سامنے تین بڑے سوال ہیں کیا جنگ ناگزیر ہے اور فساد ختم کرنے کا واحد راستہ ہے ،دوسرے سیکورٹی خامیوں کا جائزہ لےکر وہ سوراخ بند نہیںکرنے چاہئیں جہاں سے دشمن کو گھسنے اور وار کرنے کاباربارموقع ملتا ہے ۔ پٹھان کوٹ اور اڑی کیمپ پر دہشت گردانہ حملہ اس کی مثال ہے تیسرے موجودہ حالات میں مسلمانوں کارول کیاہے۔ہندوستان میں جنگجویانہ ذہنیت اور توسیع پسند عزائم رکھنے والا ایک موثرطبقہ ہمیشہ رہاہے جو پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کاقائل ہے وہیںپاکستان میں بھی طاقتور گروپ گزشتہ جنگوں کی شکستوں کو فراموش نہیں کرنا چاہتا اور انتقام کی اندھی آگ میں جلتا رہتا ہے۔ ان کی روزی روٹی بھی ٹکرائو اور تصادم کے ماحول سے چلتی ہے ۔ کئی بار لگا کہ شاید اب جنگ چھڑ جائے مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ دونوں طرف کی قیادت نے یہ موقع نہیں آنے دیا ۔ جنگیں مسائل پیدا کرتی ہیں حل نہیں کرتیں امریکہ نے افغانستان ،عراق پرفوج کشی کی۔دہشت گردوں کی اعلیٰ قیادت کو ختم کردیا لیکن دہشت گردی ختم نہیں ہوئی ۔دونوں ملکوں سے واپسی کرنی پڑی بلکہ اس کی عسکری کارروائیوں سے دنیاپہلے سے زیادہ خطرات میں گھرگئی ۔ اس آگ نے یوروپی ممالک کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ اگر پاکستان کو دنیا سے مٹابھی دیاجائے ،مطلوبہ دہشت گردوںکو صفایاکردیاجائے تو کیا دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔ کیونکہ دہشت گردی کو ہوادینے اور اسے پالنے پوسنے والے وہی ممالک ہیں، انہیں آکسیجن فراہم کرنے والے وہی ہیں جو دہشت گروں کے خلاف عالمی مہم کی کمان سنبھالے ہیں سابق سوویت یونین بیس سال تک افغانستان میں رہا مبینہ دہشت گردی ختم ہوئی؟جبکہ خوداس کے حصہ نجرے ہوگئے ۔ یہ نظریاتی جنگ ہے جو ذہنوں میں پرورش پاتی ہے اس کا علاج بھی اسی ہتھیار سے ہوگا۔ پاکستان ایک مہرہ ہے ہندوستان کوپریشان کرنے والی طاقتیں کوئی اور مہرہ تلاش کرلیں گی۔ویسے بھی پاکستان ان کے لیے کارآمد نہیں رہا۔ ہندوستان کے کاندھوں پر جو سواری کررہے ہیں ساتھ کھڑے ہونے کا دکھاوا کررہے ہیں۔ وہ کبھی کسی کے نہیں ہوئے۔ اگرپاکستان کو واقعی سبق سکھاناہے تو اس کے ساتھ تمام تجارتی روابط ختم کردیجئے۔ سفارتی تعلقات منقطع کرلیں۔ ہندوستانی حدود کے آسمان میں اس کے داخلہ پرپابندی لگادیں ۔ ایک کمزور ملک معاشی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا مگر تجارتی مفادات سے وابستہ لوگ سرکار کو ایسا کرنے دیں گے اس میں شبہ ہے ۔جہاں تک سیکورٹی خامیوں کا سوال ہے پٹھان کوٹ میںبھی یہ سوال شدت کے ساتھ ابھرکر آیا تھا ایک ایئر بیس اور پھر چھ ماہ بعد کنٹرول لائن کے نزدیک فوجی کیمپ پر چند دہشت گردحملہ کرنے میں اپنی مرضی کا ٹارگیٹ طے کرتے ہیں اور وار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ بھاری سازوسامان کے ساتھ بغیر روک ٹوک ،تاروں کی باڑھ کاٹ کر آرام سے داخل ہوگئے۔ پٹھان کوٹ میں 80گھنٹے تک تصادم جاری رہاوہیں اڑی کیمپ میں 17جوانوں کوشہید کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ کیا یہ سیکورٹی انتظامات کی سنگین خامیوں کی طرف اشارہ نہیں کرتا۔ انہیں اندرونی حالات کا بخوبی علم تھا وہ یہ تک جانتے تھے کہ کچن کہاں ہے اور خواب گاہیں کدھر ہیں۔ اہم فوجی تنصیبات کو معمولی دہشت گرد نشانہ بناسکتے ہیں تو یہ سیکورٹی کے لیے سنگین چیلنج تو ہے ۔ ہم اسے کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں۔ توکیاہم اپنے فوجیوں کی جان کی حفاظت کرنے میں نااہل ہیں۔شاید سارا قصور پاکستان کانہیں ،ہمارابھی ہے۔ اس موقع پر یہ کہہ کر خاموش کردینا کہ ایسی کوئی بات پاکستان کے ہاتھ مضبوط کرتی ہے، ریت میںسرچھپانے کے مترادف ہے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے ،نااہلی پر پردہ ڈالنے کی ناپاک کوشش کی جارہی ہے۔ جوابی کارروائی کی دھمکیوں اور شوروغل میں ان سوالوں کا جواب اب تلاش نہیں کیاگیاتو آگے بھی نقصان ہوسکتا ہے ۔ گوا کے معاملات میں زیادہ دلچسپی لینے والے وزیردفاع قومی سلامتی کے تحفظ میںناکام ہیں توانہیں رخصت کردیناچاہئے۔
جہاں تک مسلمانوںکاتعلق ہے وہ ہمیشہ کی طرح پوری قوت کے ساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ انہوں نے بزدلانہ کارروائی کی مذمت کی ہے اور سرکار قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے کوئی فیصلہ لیتی ہے تو اس کے ساتھ ہوںگے۔ اس میں اگر مگر کی کوئی گنجائش نہیں ۔ لیکن کشمیرمیں جوصورتحال بن رہی ہے ۔ ہندوستانی مسلمان خود کو اس سے لاتعلق نہیں رکھ سکتا ۔ ارباب دانش اچھی طرح جانتے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل سے ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل منسلک ہے کوئی بھی راستہ نکلے سب سے زیادہ وہی متاثرہوں گے ۔ مسلم قیادت کا اس پر خاموش رہنا بہت مہلک ثابت ہوگا۔ حکومت اور آر ایس ایس کا جو نظریہ ہے وہ محتاج تذکرہ نہیں۔ اس لیے ہمیںحالات پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ مسلم قیادت سرجوڑ کر بیٹھے اورساتھ آگے بڑھے ورنہ جو گرداڑ رہی ہے اس کی علامتیں اچھی نہیں ہیں۔اللہ خیرکرے۔(ملت ٹائمز)
qasimsyed2008@gmail.com