مدثر احمد قاسمی
اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانیت کو غفلت سے بیدار کرنے کے لئے کتاب اللہ اور رسول اللہ کے ذریعہ ہدایت و رہنمائی کا ایک عظیم ذخیرہ عطا فرمایا ہے تاکہ انسان ایک متحرک زندگی گزار کر اپنی آخرت کے لئے توشہ تیار کرسکے۔
لیکن قابلِ فکر بات یہ ہے کہ انسان بیداری کے مواقع کو بھی اِس طر ح گزاردیتاہے گویا کہ بیداری کے وہ مواقع بھی اُن کی غفلت کی تسکین کے لئے وارد ہوئے ہیں۔ اِس کی واضح مثال رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں کو آرام اور نیند کے حوالے کردینا ہے۔ ایک ایسا موقع جب بھوک اور پیاس کو محسوس کرکے غریبوں اور حاجت مندوں کے لئے ہمیں بیدار ہوجانا چاہئے؛ ہم کوشش یہ کرتے ہیں کہ ہمارا دن اِس طرح سو کر گزر جائے کہ ہمیں بھوک اور پیاس کا احساس ہی نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ہم سہل پسندی والے اپنے اِس طرزِ عمل سے رمضان المبارک کے مقاصد میں سے غمخواری کاا حساس بیدار کرنے والا مقصد گنوا دیتے ہیں۔
اِس تمہید کے پیشِ نظر ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم رمضان المبارک کے حوالے سے شارحِ شریعت نبی اکرم ﷺ کی مبارک زندگی کا بغور مطالعہ کریں اور یہ دیکھیں کہ رمضان المبارک میں آپ ﷺ شب و روز کس طرح گزار تے تھے اوراِس مقدس مہینے کے تعلق سے آپ ﷺ کے احساسات کیا تھے۔ اللہ ر ب العزت کا ارشادِ گرامی ہے: ’’فی الحقیقت رسول اللہ (ﷺ)کی ذاتِ مبارکہ میں تم سب کے لئے اسوئہ حسنہ ہے۔‘‘ (احزاب:۲۱)
رمضان المبارک کے حوالے سے نبی اکرم ﷺ کی حیات ِ طیبہ کا ایک اہم خلاصہ یہ ہے کہ سن ۲؍ہجری میں روزہ کی فرضیت کے بعد سے سن ۱۱؍ ہجری تک یعنی دنیا سے پردہ فرمانے تک آپؐ نے کل ۹؍ رمضان کے مہینوں میں روزے رکھے۔ آپ ﷺ کی حیات ِ طیبہ کے ۹؍ سال کے رمضان کے یہ روزے اُمت مسلمہ کے لئے اِس اعتبار سے عظیم سوغات ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ کے رمضان کے روزں کو دیکھا اور پرکھا اور پھر قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے منبعِ ہدایت سے رہنمائی لے کر روشنی کا ایک نہ بجھنے والا مینار قائم کردیا۔یقیناً خوش نصیب ہیں وہ افراد جو اُس مینارئہ نور سے روشنی حاصل کر کے رمضان کے روزوں سے اپنی دنیا و آخرت کی رونق میں اضافہ کرتے ہیں۔
چونکہ اِس سال ماہِ رمضان کا ورودِ مسعود ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب پوری دنیا کورونا وائرس سے متاثر ہے، اِس وجہ سے اِس بات سے کوئی انکار نہیں ہے کہ مسلمانوں کو روزہ، تراویح اور دیگر عبادات کی ادائیگی میں ایک مشکل وقت کا سامنا ہے، لیکن اگر مسلمانوں نے اِس مشکل وقت میں رمضان المبارک کو کما حقہ گزار لیا تو اللہ کی ذات سے یقین ہے کہ فتوحات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا (ان شاء اللہ)، جیسا کہ اسلام کی تاریخ میں سخت حالات میں فتوحات کا ایک زرین سلسلہ بھی اسی مبارک مہینے میں مرقوم ہے۔ اسلامی تاریخ کی دو عظیم فتوحات …. سن ۲؍ہجری میں غزوئہ بدر میں فتح اور سن ۸؍ہجری میں فتح مکہ …جنہوں نے دنیا میں حق و باطل کے درمیان واضح لکیر کھینچ دی اور حق کی راہ پر گامزن لوگوں کو مضبوطی فراہم کی، رمضان المبار ک کے مقدس مہینے میں حاصل ہوئی تھیں۔
مسلمانوں کو رمضان المبارک کی اِن فتوحات سے یہ سبق لینے کی ضرورت ہے کہ سخت حالات انہیں اللہ کے احکامات کی تابعداری سے نہیں روک سکتے۔ ہاں! یہ سمجھنا ضروری ہے کہ طبی نقطہ نظر سے حکومت کی جانب سے جو حفاظتی گائیڈ لائنس جاری کی گئی ہیں اُن کو سامنے رکھ کر ہی ہمیں رمضان المبارک میں اپنی عبادات کی ترتیب بنانی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں رمضا ن کی عبادات اور حکومتی احکامات کے درمیان اِس طرح توازن قائم کرنا ہے کہ دونوں میں سے کوئی ہمارے ہاتھ سے نہ جائے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ زندگی میں کوئی بھی اہم اور قابلِ قدر چیز بغیر مشکل اور جد و جہد کے حاصل نہیں ہوتی۔ چونکہ رمضان المبارک نیکیوں کا خزینہ ہے تو ہم یہ کیسے تصور کر سکتے ہیںکہ وہ خزینہ ہم سو کر او ر غفلت میں رہ کر حاصل کر لیں گے۔ ایک حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ: ’’روزہ میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں عطا کروں گا۔‘‘ (بخاری) اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس بدلے کا وعدہ کیا ہے، اس کی وسعت کا اندازہ بھی ہمارے تصور سے ما وراء ہے، لہٰذا انعامات کے اُس بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونے کیلئے، ہمیں اپنی عبادت والی محنت کو دو چند کر دینا چاہئے۔
خدا کا شکر ہے کہ کثیر تعداد میں مسلمان رمضان المبارک سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور جسمانی و مالی عبادت سے اپنا مقدر چمکاتے ہیں۔ یوں تومسلمان ہر سال رمضان میں دوسروں کیلئے افطار کا اہتمام بھی کرتے ہیں، لیکن اِس سال بطورِ خاص صاحبِ وسعت مسلمان اِ س کا اہتمام کریں اور پہلے سے بڑھ کر اور بڑھا کر کریں؛ کیونکہ سالِ رواں کوروناوائرس کی مار نے معاشی طور پر بڑی تعداد میں متوسط اور نچلے متوسط طبقے کے لوگوں کو متا ثر کیا ہے اور یہ کمزور طبقہ دانے دانے کا محتاج ہے۔ ان شاء اللہ ہم اپنے اِس عمل سے دُہرے اجر کے مستحق بنیں گے؛ ایک ضرورت مند کی مدد کرنے کے صدقے میں اور دوسرے روزہ افطار کرانے کے بدلے میں۔ آپ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’اے لوگو! جس نے اِس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو یہ اُس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا