برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر 

 مشرف عالم ذوقی 

جب عرب ممالک نے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا جائزہ لیا تو ہم میں کون تھا ، جو خوش نہیں تھا ! ہم تب بھی خوش تھے جب امریکن ایجنسیوں اور یوروپ کی بے شمار ایجنسیوں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی رپورٹ شائع کی، جب یہ معاملہ برطانیہ کی پارلیمنٹ میں اٹھا ، ہم اس وقت بھی خوش تھے، خوش اس لئے تھے کہ ہمارے اندر جذبات بھی سرد ہو چکے تھے، پچھلے چھ برسوں میں ہم خود کو بے سہارا محسوس کر رہے تھے، اس لئے اگر کوئی سہارا نظر آتا تو ملک کے مسلمانوں کو اس بات کا یقین ہو جاتا تھا کہ وقت تبدیل ہوگا، اخلاق اور پہلو خان کی کہانیاں اب نہیں دہرایی جاہیں گی . اشتعال انگیز بیانات اور میڈیا کی مسلم مخالف مہم کمزور ہوگی ۔ ۲۸ اپریل کو ایک درد مند دل نے یہی تو کیا تھا، کویت کی حکومت کا شکریہ ادا کیا اور بڑے مسلم اسکالر میں ذاکر نایک کا نام لیا، ذاکر نائیک سے مجھے بھی اختلاف ہے مگر کیا ان کے مسلم اسکالر ہونے پر شک کیا جا سکتا ہے ؟ ذاکر نائیک نے کچھ غلطیاں ضرور کی تھیں، اس کی سزا مسلمانوں کو ملی، میرا لباس تمہارے لباس سے زیادہ سفید ، یہ عقیدہ دل میں رکھنے کا تھا ، انہوں نے صلائے عام کر دیا، غرض ہندو بھی ناراض ہوئے ، مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ بھی؛ میں مانتا ہوں کہ دہلی اقلیتی کمیشن میں ایک بڑے عہدے پر بیٹھے شخص کو کویت حکومت کا شکریہ ادا نہیں کرنا چاہیے تھا، لیکن آپ ظفر الاسلام صاحب کے ۲۸ اپریل کے ٹویٹ کو دیکھیں تو اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ان پر ملک دشمنی کا مقدمہ قائم ہو، آج ایک فاشسٹ حکومت ، مسلمانوں کو برباد کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے، اوقاف کی زمینوں پر قبضہ ہو رہا ہے، ملی مسائل میں دخل دیا جا رہا ہے، شر انگیز بیانانات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے، مرنے کے بعد مسلمانوں کو جلاہے جانے کی صلاح دی جا رہی ہے۔ کیا پچیس سے تیس کروڑ مسلم آبادی کی آواز خاموش کی جا سکتی ہے؟ یہ آواز اس لئے خاموش ہے کہ ہمارے پاس کوئی قائد نہیں، ہمارا کوئی سہارا نہیں، ہم بھی اپنوں کے دشمن بن جاتے ہیں، جب کورونا کو لے کر پولیس تبلیغی جماعت والوں کو گرفت میں لینے کے لئے مرکز پہچی تھی، ظفر صاحب نے اس وقت بھی آواز بلند کی، کیونکہ تبلیغی جماعت والوں کو کیجریوال حکومت نے الگ خانے میں رکھا تھا اور یہ مناسب سلوک نہیں تھا، دہلی حکومت میں بڑے منصب پر ہونے کے باوجود وہ کبھی اپنے اخلاقی فریضے سے نیچے نہیں آیا ہے، ایسے لوگوں پر ہمیشہ سے فاشسٹوں کی نظر رہی ہے۔

کیا ارنب نے معافی مانگی ؟ کیا ان لوگوں نے معافی مانگی جو کہتے تھے ، ملک کے غداروں کو ، گولی مارو سالوں کو ؟ کیا ان پر کوئی مقدمہ قائم ہوا ؟ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے، زی نیوز نے معافی مانگی؟ زی نیوز نے لفظ کھید یعنی دکھ محسوس کیا، جس دن امیش دیوگن نے اپنے ایک لائیو پروگرام میں یہ کہا کہ اب اس چینل پر ہندو مسلمان نہیں ہوگا ، اسی دن اس چینل پر عام دنوں سے کہیں زیادہ مسلمانوں کو رسوا اور بدنام کیا گیا، یہ فرضی ویڈیو جو کبھی ویتنام کے نکلتے ہیں، کبھی بنگلہ دیش کے، کبھی کسی اور ملک کے ، اور ان ویڈیوز کو مسلمانوں اور تبلیغی جماعتوں کے کارنامے کہہ کر دکھایا جا رہا ہے ، کیا ضروری نہیں کہ ایسے چینلوں پر ہر دن مقدمے قائم کے کیے جائیں، کیا زی نیوز کے ‘ کھید ‘ ظاہر کرنے سے عام ہندوؤں تک یہ پیغام پہچا کہ کہ تبلیغی جماعت یا مسلمان بے گناہ ہیں ؟ کیا ارنب کے ریپبلک چینل پر مسلمانوں کو مسلسل رسوا کرنے کا سلسلہ بند ہوا ؟ کیا محض کھید ظاہر کرنا، اپنا پلڑہ جھاڑنا عام ہندوؤں کو زہریلی نفسیات کے جال سے باہر لانے میں کامیاب ہوگا ؟ سوال ہی نہیں؛ ملک کا نقشہ وہی لیکن فسادی مسلمان، دہشت گرد مسلمان، ۲۵ کروڑ عوام کو نفرت پھیلانے والے چینلوں نے حاشیہ پر ڈال دیا ہے۔ مسلمان سو کروڑ ہندوؤں کی نظر میں آج مجرم سے کہیں زیادہ ہیں، ایسے لوگ قانون کی نظروں میں مجرم نہیں، ایسے لوگوں پر راج دروہ یعنی ملک دشمنی کا مقدمہ نہیں چلتا، کوئی گاندھی پر علامتی گولیاں برساتا ہے، کوئی گوڈسے کا مندر بناتا ہے ۔ کیا یہ سب راج دروہ نہیں ؟ جب زعفرانی بریگیڈیر نے حملہ کیا تو ظفر صاحب نے صاف طور پر تحریر کیا کہ دہلی کے شمال مشرقی ضلع کے فسادات کے تناظر میں ہندوستانی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا کویت کے نوٹس لینے پر میری طرف سے 28؍ اپریل 2020 کو جاری کردہ ایک ٹویٹ سے کچھ لوگوں کو تکلیف ہوئی ہے جو کبھی میرا ارادہ نہیں تھا۔ میں ان سب لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جن کے جذبات میرے ٹویٹ کی وجہ سے مجروح ہوئے ہیں۔

میں مزید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ٹویٹ کی محدودیت بھی ، کیونکہ وہ بہت کم الفاظ میں لکھی جاتی ہے، اس بات کی ذمہ دار تھی کہ پوری داستان سادہ زبان میں نہیں لکھی جا سکی۔

اس ٹویٹ کا بتنگڑ بنادیا گیا اور اس میں ایسی خود ساختہ باتیں شامل کردی گئیں جن کے کہنے کا نہ میرا ارادہ تھا اور نہ ہی کبھی مقصد تھا۔ میڈیا کے ایک حصے نے اس کو بدل دیا ، اس کے مشمولات کو مسخ کیا اور اشتعال انگیز خیالات کے ساتھ اس کو نشر کیا جن کو نہ میں کہا اور نہ ہی جن کا میرا کبھی ارادہ تھا یا ہے۔ ظفر صاحب نے یہ بھی لکھا کہ میں اپنے ملک کا یہ دفاع کرتا رہوں گا چہ جائیکہ میں اپنے ملک کے خلاف کسی دوسرے ملک یا عرب یا مسلم دنیا سے شکایت کروں ۔ یہ ہمارے آئین کے خلاف ہے، میرے اپنے خیالات کے خلاف ہے اور میری پرورش اور میرے مذہبی اعتقاد کے خلاف ہے جو مجھے یہ سکھاتا ہے کہ ’ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ‘ ۔

کیا اس معافی نامہ کے بعد بھی کچھ رہ جاتا ہے ؟ چھتیس گڑھ میں ایک مسلمان مزدور کو زندہ جلانے والے اور ویڈیو بنانے والے نے کیا معافی مانگی؟ دہشت گردی کے ایسے ہزاروں قصّے فاشسٹ طاقتوں سے منسوب ہیں، کسی نے معافی نہیں مانگی، مذاق تو یہ کہ ظفر صاحب کی مخالفت کرنے والا ایک طبقہ مسلمانوں کا بھی ہے، اگر یہی رویہ رہا تو سچ بولنے والے ہم تمام لوگوں کی زبانیں کاٹ دہلی جائیں گی، ویسے بھی میڈیا اب ہندوستانی مسلمانوں کو غدار ہی سمجھتا ہے! 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں