سیمیں کرن
ابھی میں اس منظر کی گرفت میں ہوں جو آپ سے بانٹنا چاہتی ہوں ، دو باریش حضرات کہ جن میں پیچھے بیٹھے بزرگوار غالباً والد تھے صحت و عمر کے لحاظ سے ۔ پچھلے صاحب نے گود میں اک بکرے کو بڑی مضبوطی سے کس کر گود میں بٹھا رکھا تھا بکرا اس گرفت اور احتجاج پہ تمام رستہ سڑک کو گل و گلنار کر رہا تھا کہ اس اثناء میں اشارہ آ گیا، بکرے کی عزت کی خاطر یا پھر بکرے کے مارک ہونے کا زعم ، وہ زن سے اشارہ توڑتے نکل گئے مگر کانسٹیبل کی آواز نے رکنے پر مجبور کر دیا مگر وہ صاحبان بجائے معذرت کرنے کے کانسٹیبل کو لتاڑنے لگے ” شرم نہیں آتی، قربانی کا جانور لیکر جا رہے ہیں کتنے ثواب کا کام، تم ہو کہ نیکی سے روک رہے ہو ۔۔۔۔۔” تقریر کافی لمبی اور وعظ آمیز تھی، کانسٹیبل بھی بے چارا آخر تو مسلمان ہی تھا، شاید نیکی کا تصور اس کا بھی مروجہ ہی تھا۔ اشارہ توڑنا گناہ کے زمرے میں نہ آتا تھا اور موٹر سائیکل پہ بکرا لے جانا کسی نیکی کا درجہ تھا، اپنے فرض کی ادائیگی سے غفلت بھی کسی گناہ کے درجے میں داخل نہ ہو سکی اور ایک امکان یہ بھی ہے کہ “ھذا من فضل ربی” کے تحت کوئی فضل بھی کمایا جا چکا ہو ۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ میں یہ منظر بھول جاتی کہ آخر میں بھی تو آپ عوام ہی میں سے ہوں ۔۔۔۔۔ بھول جانا نظر انداز کر دینا سمجھ کر بھی نہ سمجھنا ہمارا قومی شیوہ ! اس طرح کے بہت مناظر آپ کے اردگرد بھی بکھرے پڑے ہوں گے ! ہم مذہبی تہوار مناتے ہیں جوش و خروش سے مگر کنڈے لگا کر مسجد اور گلی محلے پہ لائٹنگ چوری کرتے ہیں! اور اپنے تئیں نیکی کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں! حج کی آمد ہے اور میرا بھائی کہتا ہے کہ وہ حج اس وقت کرے گا جب وہ حج کی فیس بھر لے، ابھی اسے دیگر اخراجات کو مینیج کرنا ہے مگر بے شمار حاجی بھائی جذبہ حج سے سرشار ، حاجی بننے کے خمار و زعم اور اس نیکی کے غبار میں بھیگ کر غالباً یہ بھول جاتے ہیں کہ ریاست کے قوانین کا احترام بھی رب کا حکم اور بہت بڑی عبادت ہے ! فیس ادا کئیے بغیر حج ریاستی حکم کی خلاف ورزی اور مضحکہ خیز ہے !
اس موسم میں سارا سال خفا رہنے والے آپ کو اک روایتی سا معافی نامہ بھیج دیں گے ۔۔۔۔۔ یہ معافی ناموں کا موسم ہے میری طرح آپ کو بھی بہت سے موصول ہوئے ہوں گے مگر عید قربانی، حج یہ مناسک ادا کرتے آپ نے سوچا کہ کیا محض اک معافی سے تلافی ہو گئی ؟ کیا وہ حق تلفی، وہ دل شکنی ، کسی کا حق غصب کرنے کا گناہ ۔۔۔۔۔ کیا کفارہ ادا ہو گیا ؟! میں یہ سارے رویے دیکھ کر سوچنے پر مجبور ہو جاتی ہوں کہ ہم ساری عمر رویے کے خدا سے ملتے ہیں۔ کیفیت کا بڑا خدا ہمارا مطلوب و مقصود ہی نہیں! ہم رویے کا فتویٰ لے کر مطمئن ہو جاتے ہیں ! بس ہم اتمام حجت کرنا جانتے ہیں! یہ ہمارے رویے اور اتمام حجت کا بھوت ہے جو ہم حلالہ جیسی مکروہ رسمیں اور مولوی حلالہ جیسے کردار جنم دے لیتے ہیں ۔ یہ ہمارے رویوں کے ناجائز بچے ہیں! یہ کرتے سمے ہم بھول جاتے ہیں کہ شاید ہم بھی سبت شکن والوں میں شامل ہو گئے ہیں! اک عجیب دو رخی ہے ہمارے مزاجوں میں ! اک طرف اتمام حجت کا اہتمام ہے ، فتووں ، شریعت کا انکار و تضحیک ہے! دوسری جانب نیکی و ثواب کمانے کی عجیب سی حرص و ہوس کے تمسخرانہ رویے ہیں ! اتنی تسبیحات، اتنا ذکر ، یہ میسج دس بار فارورڈ کر دیجئے ، اتنے لاکھ ذکر کا ثواب آپ کے اکاؤنٹ میں ، ، پوچھتے ہیں شیشہ دیکھنے سے کیا وضو ٹوٹ جاتا ہےَ جیسے مضحکہ خیز فتوات گردش کرتے ہیں ۔ میں ان رویوں کے بندا خدا اور رویے کے خدا پر غور کرتی ہوں تو ورطہ حیرت میں پڑ جاتی ہوں ! مجھے اس کی اور دیگر وجوہات کے علاوہ بہت بڑی وجہ مجھے اس کی اور دیگر وجوہات کے علاوہ بہت بڑی وجہ مجھے ہمارے مدرسے، مسجد کے خطیب کے واعظ کی ریاست کے قوانین سے لاتعلقی نظر آتی ہے۔
میری حسرت ہی رہی کہ کبھی جمعہ خطبہ میں، رمضان المبارک کی معطر ساعتوں میں یا عیدین کے خطبات میں کبھی کسی عالم یا مولوی نے اس طرف توجہ دی ہو کہ لللہ آپ اشارہ مت توڑئیے، یہ بہت بڑا گناہ کیونکہ یہ کسی کی جان لینے کا سزاوار ہو سکتا ہے، یہ کسی کو عمر بھر کے لیے اپاہج کر سکتا ہے ! برائے مہربانی اپنے کم سن بچوں کو موٹر سائیکل یا گاڑی مت تھمائیے، یہ ایک مہلک فعل ہے! کبھی کسی عالم نے نہیں پوچھا قبلہ آپ جو نماز ادا کرنے آئے ہیں کیا کسی نا بالغ کی پشت پر سوار تو ہو کر نہیں آئے ؟؟ سوائے مجھ جیسے چند احمقوں اور پاگلوں کے میں نے کبھی کسی ماں یا باپ کو ٹوکتے یا منع کرتے نہیں دیکھا کہ نا بالغ بچے کو سواری نہ دی جائے ! سڑکیں ، گلیاں کوڑا کرکٹ سے بھری ہوں، مسجد کو میں نے اس مسئلے سے لاتعلق ہی پایا۔ وہاں لاؤڈ سپیکر چیخ چیخ کر توبہ، ذکر سے من کو پاک کرنے کے اعلانات کریں گے مگر کوئی یہ بتانے کی زحمت کرتا نہیں نظر آیا کہ توبہ کا اک ذریعہ اپنے ماحول کی صفائی بھی ہے! ذکر صرف گردان نہیں ہے اپنے گردوپیش پہ غور و فکر کرتا ذہن و دل بھی ذکر ہی میں مشغول ہے یہ کون بتائے ؟؟
اب بکر عید کی آمد ہے ، ثواب، قربانی کے حصے اور اجتماعی قربانی اور کھالیں ہمیں دیں ، صرف اسی مدرسے کو دینے سے آپ کی محبت کی مہر پکی ہو گی، کی نوع کے پمفلٹ دھڑا دھڑ نظر آ رہے ہیں ! اک دوڑ لگی ہے جس میں ہر کسی کو اپنا حصہ کمانا ہے ڈالنا ہے، آخر نیکی کا کام جو ہوا مگر جو گلی کوچوں میں گندگی ہم بے دریغ پھیلا دیتے ہیں۔ کیا گلیاں، سڑکیں، گھروں کے دروازے گندگی، بدبو، غلاضت سے ایسے اٹ جاتے ہیں اور کہیں کسی ایک کونے سے کسی مرد قلندر کی آواز نہیں اٹھتی کہ یہ بھی گناہ ہے! انسانوں کو آزار میں مبتلا کر دینا کہیں کی دینداری نہیں کیا کھالوں کی دوڑ کے ہیجان میں مبتلا چاہیں تو ایسے انتظامات نہیں کر سکتے کہ قربانی کے لئے کوئی ایک مقام کسی کمیونٹی میں متعین کر لیا جائے کیا یہ ناممکن بات ہے ، ایسے انتظامات کچھ جگہوں ، شہروں میں نظر آتے تو ہیں مگر یہ قانونی ٹائپ کی نیکی شاید ہمیں نیکی نہیں لگتی، آخر نماز روزہ، حج ، زکوۃ، ذکر کے علاوہ قانون کی پاسداری کو نیکی سمجھنے میں ابھی ہمیں کتنے برس لگیں گے؟ یہ بات ہماری مسجدوں کا خطبہ بننے میں ابھی کتنا وقت درکار ہے ، جس روز یہ فرق و تفریق مسجد ختم کر دے گی اس روز ہمیں قانونی نیکی بھی ثواب دینے لگے گی!!!(ملت ٹائمز)
( مصنفہ معروف ادیبہ اور کالم نگارہیں،پاکستان کے مشہورشہر فیصل آباد سے وطنی تعلق ہے)