سرکار اینکرس کو امور خارجہ و دفاع کا مشیر کیوں نہیں بنا لیتی؟

قاسم سید
وزیر اعظم کی متوازن تقریر نے نیوزچینلوں اور ان کے اینکروں کے ارمانوں پر اوس ڈال دی ہے جو ہر قیمت پر ہندوستان اور پا کستان کے درمیان جنگ چاہتے ہیں ۔ان کی بے صبری اور اوتاؤلے پن کا مشاہدہ کافی دنوں سے ہر خاص وعام کر رہا ہے ۔ جلد بازی اور بے قراری اور انتقامی ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابھی را فیل ڈیل پر دستخط ہوئے کہ انہوں نے مژدہ جانفژا سنایا کی اس ڈیل سے چین اور پاکستان پر کپکپی طاری ہو گئی ۔بی پی خطر ناک حد تک بڑھ گیا ،دونوں کی سانسیں رک گئیں،حالانکہ اس ڈیل کے تحت پہلا جنگی طیارہ 2019میں ملے گا یہی نہیں جب سندھ آبی معاہدہ پر نظر ثانی کااشارہ ملا تو ان کی بانچھیں کھل گئیں مانو من کی مراد پوری ہو گئی۔
اینکر چلا نے لگے کہ پاکستان کو کر بلا بنا دیا جائے گا۔بو ند بو ند کو ترسے گا پاکستان ،گڑگڑ ا نے لگا آنتکستان ،گلا سوکھ گیا،گھٹنوں پر آگیا پا نی بند کر نے کی خبر سے سکتہ طاری ہو گیا اور اب تڑپا تڑپا کے مارا جائیگا وغیرہ جیسی سنسنی خیز اور انسانیت کش ہیڈ لائنس کے ساتھ خبریں دی جا نے لگیں ریٹائرڈ فوجی الگ آگ اگل رہے ہیں،حالانکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ توڑنا اتنا آسان نہیں اگر ایسا ہو ا بھی تواس کے نفاذ میں10سے 12سال لگ جائیں گے اس کیلئے ڈیم بنائے جائیں گے۔ بالفرض ابھی پا نی روک بھی دیا جائے جو ناممکن ہے تو پورا کشمیر ڈوب جائیگا۔
یہ سوال بھی ہے کہ 6دریاؤں کا پانی پاکستان جاتا ہے اسے روک کر کہاں رکھا جائیگا ۔بنگلہ دیش اور نیپال خاموش رہیں گے ۔چین کا رویہ کیا ہوگا ۔یعنی حقائق سے کوسوں دور ہوا میں کاغذی تلواریں چلا کر عوام کے خون کو کھولانے کا عمل بلا روک ٹوک جاری ہے ۔ اسی طرح چینلوں نے انکشاف کیا کہ وزیر اعظم نے فوجی سربراہوں اور قومی سلا متی کے مشیر کے ساتھ وار روم میں جا کر جنگ کے امکانات پر غور کیا ہے ۔ ریت کے ماڈل کے ذریعے مجوزہ جنگی اقدامات کے بارے میں بتایا گیاہے ۔ یہ خفیہ میٹنگ کا فی دیر تک جاری رہی ۔سوال یہ ہے کہ اگر یہ میٹنگ خفیہ تھی تو انہیں کیسے پتا چل گیا، اس کی تفصیلات کیسے باہر آگئیں ۔ڈیجیٹل انڈیا کے دور میں ریت کے ماڈل وار روم میں کیا کر رہے تھے اور جنگی حکمت عملی پر غور کر تے وقت وزیردفاع وہاں موجود کیوں نہیں تھے۔ایسے بے پرکی فرضی خبریں دیکر ہمارے نیوز چینل عوام کے ساتھ سنگین مذاق کر رہے ہیں۔ اگر حکومت اس کھیل میں شریک ہے تو یہ داؤ الٹا پڑ سکتا ہے اسلئے کہ عوام کی توقعات کو آسمان پر پہنچادیا گیا ہے ۔
عوامی جذبات سے حکومت بن سکتی ہے لیکن جنگ نہیں لڑی جا سکتی ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کھیل میں نا می گرامی چینل شریک ہیں۔پہلے یہ معاملہ صرف ہندی تک محدود تھا لیکن اب اس جنگ میں انگریزی چینل بھی کود پڑے ہیں۔کارپوریٹ اور بازاروں میڈیا نے خود کو اس طوائف کی سطح سے گرادیا ہے جو اپنے کوٹھے سے آواز لگا لگا کر گراہکوں کو متوجہ کر تی ہے ۔ ان کے نزدیک ٹی آر پی اوربزنس کی لڑائی میں ملک بھی داؤ پر لگ جائے تو گھاٹے کا سودا نہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیاان پر لگام نہیں لگا نی چاہئے ،ان کیلئے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہونا چاہئے، میڈیا کی آزادی کے نام پر کچھ بھی کئے جا نے کی اجازت ہو نی چاہئے ۔کیا عوام کو بے وقوف بنا نے کی اجازت اسلئے دی جارہی ہے کہ سرکارنے بھی پاکستان کو سبق سکھا نے کے نام پر جو لمبے چوڑے وعدے کئے تھے وہ اس میں ناکام رہی ہے۔ سرکار کو چاہئے کہ وہ ان اینکروں کو امور خارجہ ودفاع کو مشیروں کو طور پر رکھ لے جو پل بھر میں معاملہ کے تہہ تک پہنچنے اورمختصر وقت میں جنگ جیتنے کاہنر جا نتے ہیں۔کیونکہ اگر یہ چینلوں پر بیٹھ کر آگ اگلتے رہے تو سماج میں بھیانک تقسیم ہوجائیگی جو ملک کی یکجہتی کیلئے انتہائی مہلک ثابت ہو گااور آخر میں ایک مشورہ اور دینا ضروری لگتا ہے کہ اگرخدانخواستہ جنگ کے حالات پیدا ہو نے لگے تو سرکار گؤ رکشکوں اور داعش کے خلاف لڑنے کی ٹریننگ لینے والوں کے شجاعت کو سلام کرتے ہوئے انہیں محاذ جنگ پرضرور لگائے جو آئے دن مظلوموں پر ہاتھ آزماتے رہتے ہیں کہ اس بہا نے ان کی دیش بھکتی کے جذبے کی گہرائی کا تو پتا چل جائیگا۔ (ملت ٹائمز)
(کالم نگار سینئر صحافی اورروزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر ہیں)