عید سعید محبت و یگانگت اور اتحاد و اجتماعیت کا حسین مظہر

عامر ظفر قاسمی
خادم معہدالطیب نبی کریم نئی دہلی
عید کادن نشاط وسرور فرحت وخوشی کادن ہے جو سال میں دو مرتبہ حاصل ہوتا ہے پہلی خوشی اس کی یہ ہے کہ رمضان شریف کا مبارک مہینہ آیا اس میں خدا تعالیٰ کی رحمتوں اور نعمتوں کی بارش ہوئی تم نے جی لگا کر مہینہ بھر صبح سے شام تک اپنے آپ کو بھوکے پیاسے رکھا اور رات کو یادالہی میں بسر کیا اس کی خوشی میں رمضان المبارک کے ختم ہوتے ہی یکم شوال کا دن تمہارے لئے فرحت وخوشی کادن مقرر کردیا گیا اور اس دن کو عید الفطر کہتے ہیں۔
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب عیدالفطر کادن آتا ہے فرشتے راستوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور آواز لگاتے ہیں اے مسلمین کی جماعتوں اپنے رب کریم کی طرف چلو وہ تمہیں ایک اچھے کام کی توفیق دیتا ہے پھر اس پر ثواب عظیم عطا فرماتا ہے، تمہیں رمضان المبارک کی راتوں میں نماز پڑھنے کا حکم دیا اور تم نے نماز پڑھی تمہیں دن میں روزہ رکھنے کا حکم دیا تم نے روزہ رکھا. تم نے اپنے رب کے حکم کی اطاعت کی اب اسکا انعام حاصل کرو، جب نمازِ عید ختم ہو جاتی ہے تو فرشتے آواز لگاتے ہیں خوش ہوجاو کہ تمہارے پروردگار عالم نے تمہاری مغفرت فرمادی اب تم خوشی خوشی اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ ؛ اسی لئے اس دن کو انعام و اکرام کادن کہتے ہیں۔
جب نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو اہل مدینہ سال میں دو میلے کرتے تھے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ کیا ہے؟
انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ زمانہ جاہلیت میں ہم ان ایام میں خوشی مناتے تھے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا خدا تعالیٰ نے انکے عوض ان سے بہتر دن خوشی منانے کے لئے تمہیں عطا فرمائے. ایک عیدالفطر اور دوسرا عید الاضحٰی۔
عید کے دن دو رکعت نماز واجب ہے جن لوگوں پر جمعہ کی نماز فرض ہے انہیں پر عید کی نماز واجب ہے اور جو شرطیں جمعہ کی نماز کی ہیں وہی عید کی نماز کی ہیں، مگر عیدین میں نماز کا خطبہ نماز کے بعد پڑھا جاتا ہے اور خطبہ کا پڑھنا اور سننا سنن مؤکدہ ہے۔
عید کی نماز کیلئے اذان اور تکبیر نہیں، بلکہ آفتاب بلند ہونے کے بعد سب مسلمان ایک جگہ جمع ہوں جب سب جمع ہوجایں تو امام انکو دورکعت نماز پڑھائے اور اور ہرایک رکعت میں تین زائد تکبیر یں کہے جائیں ان زائد تکبیروں کا کہنا امام اور مقتدی دونوں پر واجب ہے، اس کے بعد امام ممبر پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھیں.

(عید کی نماز ادا کرنے کا طریقہ)
پہلے اس طرح نیت کرے کہ میں عیدالفطر کی دو رکعت واجب معہ چھ زائد تکبیروں کے اس امام کےپیچھے پڑھتاہوں. پھر تکبیر تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لے اور ثناء پڑھے. پھر اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے اور ہاتھ چھوڑ دے. پھر دوسری مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے اور ہاتھ چھوڑ دے. پھر تیسری بار اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھائیں اور ہاتھ باندھ لے. پھر امام اعوذباللہ اور بسم اللہ آہستہ اور سورۃ فاتحہ اور سورت آواز سے پڑھے. مقتدی سماعت کرے. پھر رکوع اور سجدے کرکے دوسری رکعت کے لئے کھڑے ہوں۔
دوسری رکعت میں پہلے امام سورہ فاتحہ اور سورت پڑھے. پھر امام اور مقتدی اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اٹھائیں اور ہاتھوں کو چھوڑ دیں. پھر دوسری دفعہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھائیں اور ہاتھوں کو چھوڑ دیں. پھر تیسری دفعہ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ کانوں تک اُٹھائیں اور ہاتھوں کو چھوڑ دیں، پھر چوتھی مرتبہ بغیر ہاتھ اٹھائے اللہ اکبر کہہ کر رکوع میں جائیں اور طریقہ کے موافق دو رکعت نماز پوری کریں۔

عید کادن جہاں ہرلحاظ سے ہرکسی کےلئے یکساں خوشی اور مسرت کا دن ہے وہیں رب العزت کی نعمتوں کے اظہار کا بڑا سنہرا دن ہے درحقیقت یوم عید الفطر رب کی اپنے بندوں پر بخششوں کا دن ہے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا عید کے دن اللہ تبارک و تعالٰی زمین پر کچھ فرشتوں کا نزول کرتا ہے جو ندا لگاتے ہیں ’ امت محمد چلو اپنے اس پروردگار کی بارگاہ میں جو لازول بخشش والا ہے جو تھوڑے سے تھوڑا نیک عمل بھی قبول فرماتا ہے اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمادیتا ہے ‘ پھر جب سب لوگ عید گاہ میں نماز کیلئے جمع ہو تے ہیں اللہ تبارک و تعالٰی خوش ہو کر فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اے فرشتو!تم نے دیکھا کہ امت محمد پر میں نے رمضان المبارک کے روزے فرض کئے تھے ، انہوں نے مہینہ بھر کے روزے رکھے مسجدوں کو آباد کیا میرے کلام پاک کی تلاوت کی ، اپنی خواہشات کوروکا ، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کی ، اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کی. اور اب ادب سے اظہار تشکر کیلئے میری بارگاہ میں حاضر ہیں میں ان کو جنت میں ان کے ان اعمال کا بدلہ دوں گا ، پھر ارشاد فرماتا ہے ،اے امت محمدؐ ! جو چاہو مانگو، عزت و جلال کی قسم ! اس موقع پر مجھ سے جو مانگوگے میں دوں گا اور تم عید گاہ سےپاک وصاف ہوکر نکلوگے تم مجھ سے خوش ہو جاؤ اور میں تم سے راضی ، یہ ارشاد سن کر فرشتے خوش ہوتے ہیں اور اس امت کو بشارت دیتے ہیں۔
اب عید مبارک کواس نقطئہ نظرسےہم دیکھتے ہیں کہ یہ چوں کہ اسلام کا بڑا عظیم اور بڑا ممتاز تہوار ہے اور یہ مسلم ہے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے اس کے اصول عالمگیر ہیں اسی لئے یہ یکساں طور سے سارے عالم میں اسلام کی بھلائی کا خواہاں جس میں امیر و غریب اور رنگ ونسل کی کوئی تمیز نہیں، اس نے عید کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کی اجازت فقط محدود حلقے کیلئے نہیں دی بلکہ اپنے پیروکار وں میں سے صاحب زر افراد کو یہ حکم دے رکھا ہے کہ اس سے پہلے کہ تم عید کی خوشیاں مناؤ، اس بات کا جائزہ لے لو اور اپنے مفلس و نادار مذہبی بھائیوں کا مشاہدہ کرلو جو اپنی ناداری کی وجہ سے عید کی خوشی میں شریک نہی ہوسکتے،کیونکہ اگر ایسا نہیں کرتے تو تمہارا یہ جشن عید ادھورا رہے گا، اس لئے کہ ایسا جشن اس وقت مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ امیروغریب اور چھوٹے بڑے کی تخصیص کے بغیر ہرشخص اس میں شرکت نہ کرے یا ایسی شرکت کی اجازت نہ ہو ، یعنی جس جشن میں فرقتیں قربتوں میں نہ بدلیں وہ جشن نہیں ، بزم سوگ ہوتا ہے ، اسی لئے مذہب اسلام نے عیدسعید کی صورت میں ایک ایسا بزم دیا ہے جس کی نظیر کسی دوسرے مذہب میں نہی ملتی ۔
صدقۂ فطرکےواجب ہونے کی یہی حکمت ہے کہ عید کادن امیرحضرات کیلئے بڑا فراخی کا دن ہوتا ہے جبکہ غریب مسلمانوں کیلئے معمولی کھانےکا انتظام کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے معاشرہ کی اس ناہمواری کو ختم کرنے کیلئے اللہ تعالٰی نے اپنے صاحب ثروت بندوں پر صدقۂ فطر کو واجب قرار دیا تاکہ اس کے غریب بندے عید کے دن احساس کمتری کے شکار نہ ہوجائیں، اور رب کی نعمتوں سے ناامید نہ ہوجائیں ۔
ان تمام خوبیوں کے باوجود یوم عید الفطر کو دنیا کی سب سے نرالی اور بےنظیر تقریب سعید ہونے کا شرف حاصل ہے اسلام نے عالم انسانیت کیلئے قرآن مجید کی شکل میں جو انوکھے اور عالمگیر ضابطے بتائے ہیں، ان میں ایک ضابطہ رمضان بھی ہے چنانچہ یہ ضابطہ دراصل طہارت قلب، تزکیۂ نفسِ جنوں کی تربیت ہے تاکہ فرزندان توحید کے دل و دماغ پاکیزگی کا گہوارہ بن جائیں اور یوم عیدالفطر کو بڑی عاجزی اور ادائے بندگی کے ساتھ خدا کی ان نعمتوں کا فراخ دلانہ شکر ادا کریں جو اس نے رمضان المبارک اور عید مبارک کے دن عطا کی، اسی لئےعید مبارک اسلامی تعلیمات کی برکتوں کے صدقے ایک عالمی درس اتحاد کا پیغام دیتا نظر آتا ہے اور ایک لاجواب اجتماعیت کا منظر ہرجگہ نمایاں ہوتا ہے، اسی اتحاد و اجتماعیت سے مسلمانوں کے دل و دماغ کو منور کرنے کیلئے مذہب اسلام ہزاروں افراد کے اجتماع کی یہ سالانہ تقریب مسلمانوں کو عطا کی ہے، جہاں سبھی فرزندانِ توحید ایک امام کی آواز پر جھک جاتے ، اٹھ پڑتے اور بیٹھ جاتے ہیں چند منٹوں کے اتحاد کا نظارہ اور یہ دلکش منظر تو کسی دوسرے مذہب میں کبھی نہیں دیکھا جاسکتا ۔
(عید کے مستحبات)
1 – غسل اور مسواک کرنا
2 – اپنے پاس جو کپڑے موجود ہوں ان میں سے اچھے کپڑے پہننا
3 – خوشبو لگانا
4 – عیدگاہ میں عید کی نماز پڑھنا
5 – عیدگاہ پیدل جانا
6 – ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا
7 – عید کی نماز سے پہلے گھر میں یا عیدگاہ میں نفل نماز نہ پڑھنا. اور عید کی نماز کے بعد عیدگاہ میں نفل نہ پڑھنا..
8 – نماز عید الفطر سے پہلے کھجور یاکوئ میٹھی چیز کھانا
9 – اگر صدقہ فطر واجب ہو تو اسکو نماز سے پہلے ادا کرنا
10 – عیدالاضحیٰ میں نماز عید کے بعد اپنی قربانی کا گوشت کھانا.
عیدالفطر کی نماز کوجاتے ہوئے راستے میں آہستہ آہستہ تکبیر کہنا مستحب ہے
اور عیدالاضحیٰ میں ذرا بلند آواز سے تکبیر کہتے ہوئے جانا مستحب ہے
(عید یا وعید)
رمضان المبارک کے بعد یاتو ہمارے لئے عید ہوگی یا وعید ہوگی، ہم دونوں میں سے ایک حال میں ہونگے. عید کے بارے میں تو آپ جانتے ہیں کہ خوشی کوکہتے ہیں اور وعید سزا کو کہتے ہیں، جن لوگوں کی رمضان المبارک میں مغفرت ہوگی ان کی اس رمضان المبارک کے بعد عید ہوگی، اور جن کی رمضان المبارک میں مغفرت نہ ہوسکی ان کے لئے رمضان کے بعد وعید ہوگی، ایک مرتبہ عید قریب تھی. ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت عید کب ہوگی؟ وہ فرمانے لگے، جب دید ہوگی تب عید ہوگی، مطلب یہ ہے کہ جب محبوب کی دید ہوگی تب ہماری عید ہوگی، کیونکہ عاشق کا تو یہی کام ہوتا ہے کہ اس کے لئے تو محبوب کا وصل ہی اصل عید ہوتی ہے۔ اس لئے ان راتوں میں یہ دعائیں مانگیں کہ اے اللہ ہمیں اپنا قرب عطا فرما تاکہ ہماری عید صحیح معنوں میں عید بن سکے۔