صلاح الدین زین کی رپورٹ
نئی دہلی: (صلاح الدین زین) بھارت کے سابق وزیر داخلہ اور کانگریسی رہنما پی چدمبرم نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے حکومت اور عدالت دونوں پر نکتہ چینی کی ہے۔
پی چدمبرم نے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کو روک پانے میں ناکامی پر بھارتی عدالتوں کے رویے پر سوالات اٹھائے ہیں۔ حالانکہ عام طور پر بھارتی رہنما کشمیر کی موجودہ صورت حال پر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں تاہم سابق مرکزی وزیر نے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی رہنما نے کشمیر کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ شاید بھارت اس بات کو سمجھ سکے کہ کشمیریوں کو کس بڑے پیمانے پر ناانصافیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں عدالتوں پر نکتہ چینی کرتے ہوئے لکھا، ”مجھے تو یقین ہی نہیں آتا کہ گزشتہ تقریباً دس ماہ سے، عدالتیں بھی شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ میں اپنے آئینی فرائض سے دستبردار ہو جائیں گی۔ کم سے کم اب بھارت کے دیگر حصوں کے لوگ ان افراد کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی شدت کو تو سمجھ سکیں گے جنہیں حراست میں رکھا گیا اور جو اب بھی زیر حراست ہیں۔”
منموہن سنگھ کے دور حکومت میں پی چدمبرم ہی جموں و کشمیر کے معاملات کے انچارج تھے۔ انہوں نے کشمیر کے تئیں حکومت کی پالیسیوں پر بھی شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا، ” اب جبکہ ہم لاک ڈاؤن چار میں داخل ہوگئے ہیں، مجھے کشمیریوں کی فکر لاحق ہے جو ایک وحشت ناک لاک ڈاؤن میں ہیں۔ اس میں سب سے بری طرح متاثر ہونے والی محبوبہ مفتی اور ان کے سینئر ساتھی ہیں جو ملک کی ایک لاک ڈاؤن ریاست میں اب بھی حراست میں ہیں۔ انہیں تمام طرح کے انسانی حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔”
سابق وزیر داخلہ کے یہ بیانات ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب رمضان میں لاک ڈاؤن کے دوران کشمیر میں پر تشدد سرگرمیاں اپنے عروج پر ہیں اور حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ گزشتہ روز ہی سرینگر کے پرانے شہر میں بھارتی سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان تصادم میں حزب المجاہدین کے ایک سینئر کمانڈر جنید کی ہلاکت کے بعد شہر میں تناؤ کا ماحول ہے۔






