زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر

مفتی عمران اللہ قاسمی

استاذ عربی دارالعلوم دیوبند
علمی گیرائی ، فنی مہارت، تصنیف و تحریر کا نفیس ذوق، تفہیم کا عمدہ ملکہ، تدریس کا اچھوتا اسلوب، کسی بھی مضمون کو اپنے الفاظ کا جامہ پہنا کر فہم مخاطب کے قریب تر کردینے کا ہنر، با فیض وبا توفیق استاذ، گفتگو میں ٹھہراؤ، تہذیب و شائستگی ،لہجہ میں وقار و اعتماد، حدیثِ نبوی سے خصوصی مناسبت، تفسیر قران کا محبوب اشتغال، بلند پایہ محدث ،مفسر، بالغ نظر فقیہ ،کثیر المطالعہ، کثیر التصانیف، محنت وجد و جہد امتیازی وصف، ہمہ وقت علمی مصروفیت، تلامذہ اور مستفیدین کا جم غفیر، عقیدت مند و محبین کی بہتات، مگر رہن سہن، لباس و وضع سادہ، آرام و تنعم سے دور، شانِ استغنائی نمایاں، ایسے ہی تھے ہمارے ہر دل عزیز استاذ محترم، استاذ الاساتذہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری رحمہ اللہ ، جو عالم اسلام کی عظیم دینی درسگاہ دار العلوم دیوبند کے شیخ الحدیث اور صدر المدرسین تھے، ان سے ربط و انتساب باعث فخر، اور استفادے کے مواقع کو غنیمت شمار کیا جاتا تھا۔
۱۹۹۳؁ء کی بات ہے ،راقم ما در علمی جامعہ عربیہ اعزاز العلوم ویٹ میں زیرتعلیم تھا، امتحان نزدیک تھے، امتحانات کی تیاری میں عمدگی اور تیزی لانے کی ترغیب دیتے ہوئے محترم اساتذہ کرام نے خبر سنائی، کہ اس مرتبہ امتحان کے لئے ہم لوگوں کے استاذ حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری بھی تشریف لارہے ہیں اسی لمحہ پہلے پہل حضرت والا کے نام سے آشنائی ہوئی، اس کے بعد دن بدن اساتذہ کرام کی مجالس میں حضرت والا کا محبت بھرا تذکرہ سننے کو ملتا ، متعین تاریخ میں دیگر ممتحنین کے ساتھ حضرت مفتی صاحب رونق افروز ہوئے۔ سردی کا موسم تھا عربی رومال ،گرم عبایا، پیروں میں پشاوری جوتا، رفتار وگفتار سے وقار جھلکتا ہوا۔ اساتذہ وطلبہ شاداں و فرحاں نظر آتے۔ حسن اتفاق ہماری جماعت سال دوم عربی کی ایک کتاب ہدایۃ النحو کا امتحان بھی حضرت سے متعلق ہوا، اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت والا نے احقر سے ہدایۃ النحو میں ایک مقام سے مکمل دو صفحہ کی عبارت پڑھواکر ترجمہ سنا اور دوسرے مقام پر چند لائن عبارت و ترجمہ کے بعد مطلب بھی دریافت کیا، امتحان کی یہ سعادت مدرسہ میں ہم لوگوں کے لئے باعث افتخار تھی ، اسی وقت سے احقر کے ذہن میں حضرت والا کی پر وقار شخصیت اور عظمت کا نقش قائم ہوگیا، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا ۔ پھر چند سال بعد دار العلوم میں داخل ہوکر حضرت والا سے ترمذی شریف اور طحاوی شریف پڑھنے کی سعادت ملی اوراس کے بعد تو قریب سے دیکھنے ،برتنے کے کثیر مواقع ملے، یقیناً حضرت والا کی ذات متعدد اہم خصوصیات کا مرقع تھی آپ کی بدولت مسند حدیث کو عظمت و اعتماد حاصل تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ کی وفات کو محبین، تلامذہ ایک نہ پر ہونے والا خلا گردانتے ہیں۔
حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ ۱۹۴۰؁ء مطابق ۱۳۶۰؁ھ کو موضع کالیڑا ضلع بناس کانٹھا گجرات میں پیدا ہوئے تھے، والد صاحب نے از خود تعلیم کا آغاز کرایا، مگر وہ اپنی مصروفیات کے سبب زیادہ توجہ نہ دے سکے اس وجہ سے انھوں نے آپ کو گاؤں کے مدرسہ میں ہی داخل کردیا، یہاں پر آپ نے مکتب کی تعلیم مکمل کی ، اس کے بعد چند ماہ دار العلوم چھاپی میں رہے پھر شہر پالنپور کے مدرسہ میں داخل کردئے گئے، وہاں تقریباً چار سال فارسی ،عربی کی ابتدائی کتب پڑھیں ،بعد ازاں مزید تعلیم کے لئے سہارنپور کا رخ کیا، اور مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں چند سال داخل رہ کر اساطین علم و فن اساتذہ سے مختلف فنون کی تعلیم پائی، بالآخر فقہ و حدیث و تفسیر اور دیگر فنون میں اعلی تعلیم کے لئے ۱۳۸۰؁ھ میں دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا ، ۱۳۸۲؁ھ مطابق ۱۹۶۳؁ء میں جو دار العلوم کا سو واں سال ہے دورۂ حدیث سے فراغت پائی، اس کے اگلے سال اساتذہ کی تربیت میں رہ کر فتوی نویسی کی مشق کی، اس تعلیمی سلسلہ کی تکمیل کے بعد آپ نے اساتذہ کرام کے مشورے سے ۱۳۸۴؁ھ میں تدریس کا آغازکیا، اور دار العلوم اشرفیہ راندیر میں آپ کا تقرر ہوا، جہاں پر نو سال تک مختلف فنون اور حدیث کی اعلی کتابیں زیر درس رہیں اس کے بعد اکابر واساتذہ کے مشورے سے ۱۳۹۳؁ھ میں دار العلوم دیوبند تشریف لے آئے ، یہاں تقریباً ۴۸ سال مسند علم کو زینت بخشی، یہ حضرت والا کی زندگی کا سوانحی اختصار ہے۔
حضرت والا کی زندگی کا قریب سے مشاہدہ کرنے والے سبھی اس بات کے معترف ہیں کہ حضرت مفتی صاحب کی زندگی تابندہ نقوش اورایسے جلی عنوانات سے عبارت تھی جو علم کے متلاشی کیلئے لازم تقلید ہیں، کامیابی کی طلب رکھنے والوں اور سرخ روئی کے جویا کو ان عناوین کی روشنی میں ہی سفر شروع کرنا چاہئے ۔
جد وجہد ، علمی انہماک وہمہ وقتی مصروفیت حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی زندگی کا سب سے نمایاں اور امتیازی وصف محنت وجد وجہد ہے ،بلکہ آپ کی پوری زندگی جد وجہد سے عبارت تھی، آپ اکثر اوقات تصنیف ومطالعہ اور درس کی مصروفیت رہتی ،اپنے مقصد کو پانے کے لئے بہت جد وجہد کرتے ، کبھی فارغ نہ رہتے، مطالعہ، علمی مذاکرہ، درس و تدریس ، خطاب و تقریر ، تصنیف و تالیف ،ہمہ وقت کوئی نہ کوئی شغل رکھتے تھے، محنت وجد وجہد کا یہ شغف زمانہ طالب علمی ہی سے تھا۔ استاذ محترم حضرت مولانا مفتی محمد امین صاحب پالنپوری جو حضرت مفتی صاحب کے چھوٹے بھائی بھی ہیں، حضرت کی دور طالب علمی کی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتلاتے ہیں۔ ’’حضرت بھائی صاحب مجھ سے تقریبا دس سال بڑے تھے وہ شروع ہی سے محنتی مزاج واقع ہوئے تھے جس وقت وہ دار العلوم دیوبند میں تکمیل افتاء کے طالب علم تھے مجھے اپنے ساتھ دیوبند لے آئے اور میرا حفظ قرآن شروع کرادیا، بھائی صاحب اپنی درسی مصروفیت، کتب کے تکرار ومطالعہ اور فتاوی تحریر کرنے کے ساتھ مجھے حفظ کراتے تھے، میرا سبق اور آموختہ خود سنتے تھے اور خود بھی حفظ کرتے تھے ۔ مسجد قدیم سے متصل ، باب قاسم سے باہر والا وہ کمرہ جس کا دروازہ باہر کی طرف کھلتا ہے اور جو آج کل شعبہ صفائی و چمن بندی کا دفتر ہے ، آپ کی رہائش گاہ تھا، رات کو اس کے باہر والے چبوترے پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے ، وہیں پر پھر اپنے قرآن کریم کے حفظ کا سبق یاد کرنے لگتے، جسے صبح کو اپنے استاذ شیخ عبد الوہاب محمود مصری کو سناتے تھے، نیز اپنے تعلیمی امور، شعبہ افتا کی مصروفیات ، میرے (مفتی محمد امین صاحب) اسباق حفظ و آموختہ کو سننے، اور خود اپنا حفظ قرآن کا سبق یاد کر کے سنانے کے ساتھ وہ بہت پابندی سے اساتذہ کرام خصوصاً حضرت مفتی سید مہدی حسن شاہجہاں پوری صدر مفتی دار العلوم دیوبند، حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی صدر المدرسین دار العلوم دیوبند اور شیخ عبد الوہاب محمود مصری استاذ عربی دار العلوم دیوبند کی خدمت بھی انجام دیتے تھے ‘‘ مذکورہ مصروفیات وقت اور محنت کی متقاضی ہوتی ہیں ، حضرت مفتی صاحب اپنی محنت، لگن اور شوق کے ساتھ ضروری اشیاء کی فراہمی، غذائی سامان کی خریداری کرکے لاتے ، اور دوسرے کام بھی برضا و رغبت کرتے ،اور ان میں عموماً ناغہ نہ ہوتا تھا۔
میرِ کارواں حضرت مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں: کہ ۱۳۸۲؁ھ میرا دار العلوم میں داخلہ کا سال ہے اور یہی حضرت مفتی صاحب کا دورۂ حدیث سے فراغت کا سال ہے ۱۳۸۳؁ھ میں وہ تکمیل افتاء کے طالب علم تھے ، ان کی محنت و یکسوئی مثالی تھی وہ اس وقت دار العلوم کے نمایاں ممتاز طلبہ میں شمار ہوتے تھے ، یکسوئی کے ساتھ اپنے تعلیمی امور میں مصروف رہتے تھے، ایک کام پورا کر کے دوسرا شروع کردیتے تھے اپنے مقصد کے علاوہ دوسری طرف بالکل متوجہ نہ ہوتے تھے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ عید الاضحٰی کے موقع پر ایک مرتبہ وہ اپنے کمرے سے دار جدید کی طرف جارہے تھے، احاطہ مولسری میں میری ملاقات ہوئی فرمانے لگے، ابو القاسم جی چاہتا ہے کہ آج دار جدید دیکھ لوں، کئی ماہ سے ادھر آنا نہیں ہوا، یہ ان کی محنت و یکسوئی کا حال تھا۔ جب کہ ان کے رہائش والے کمرے سے دار جدید کا فاصلہ اتنا زیادہ نہیں ہے کہ وہاں تک پہنچنے میں کافی وقت صرف ہوتا ہو، اس لحاظ سے حضرت مفتی صاحب کا یہ واقعہ موجودہ وقت کے طلبہ کے لئے کسی استعجاب سے کم نہیں ہے۔ دور طالب علمی کی یہی محنت، یکسوئی اور جدوجہد حضرت مفتی صاحب کے کامیاب ہونے کی کلیداورعلمی دینا میں عظمت و محبوبیت کے حصول کا سبب ہے اسی محنت و جدوجہد کی بدولت آپ اعلی مقام پر فائز ہوئے۔
عموماً تعلیمی مرحلہ کی تکمیل کے بعد مزاج بدل جاتا ہے، طلب علم کے زمانے میں یکسوئی کے ساتھ محنت وجد وجہد کرنے والے بیشتر افراد تدریس کے میدان میں قدم رکھتے ہی محنت کاشغف باقی نہیں رکھ پاتے، آرام وراحت کے اسباب کا حصول یا دیگر مصروفیات فطرت و مزاج کو بدل دیتی ہیں، مشاہدہ اس کا گواہ ہے، مگر حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کا معاملہ مختلف تھا، یکسوئی اور جہد مسلسل فطرت اور مزاج کا حصہ بن گئی تھی آپ نے دور طالب علمی کی طرح تدریس کے زمانے میں بھی انہماک و یکسوئی، اور جدوجہد کو جاری رکھا اور کوئی بھی چیز کوئی بھی صورتحال آپ کے سعی پیہم میں خلل انداز نہ ہوئی، دار العلوم اشرفیہ راندیر میں مدرسی کے زمانے کی کیفیت یہی بیان کی جاتی ہے، جبکہ دارالعلوم دیوبند میں تو اساتذہ وطلبہ سبھی اس کے مشاہد ہیں۔
مہمانوں اور طلبہ سے ملاقات کے لئے عصر کے بعد کا وقت متعین تھا، اس وقت بھی عموماً علمی مشغلہ جاری رہتا، طلبہ کی طرف سے پیش کردہ سوالات کے جوابات یا شبہات کا ازالہ، کسی علمی مسئلہ کا مذاکرہ رہتا۔ دیگر اوقات میں ملنے کی اجازت نہ تھی البتہ کوئی اہم اور ضروری معاملہ در پیش ہونے کی صورت میں ملاقات ممکن تھی۔ کسی اہم وجہ یا سخت بیماری کی وجہ سے ہی علمی مشغلہ موقوف ہوتا ورنہ بیماری کے ایام میں بھی بقدر استطاعت مصروف رہتے اور اپنا مشغلہ جاری رکھتے تھے۔ راقم کو اچھی طرح یاد ہے کہ سن ۲۰۰۲؁ء میں حضرت مفتی صاحب کی ایک آنکھ پر لقوہ کا اثر ہوگیا تھا، آنکھ پر ورم کی وجہ سے وہ آنکھ بند رہتی تھی، کھل نہیں پاتی تھی، علاج سے افاقہ نہیں ہورہا تھا ، عام تشویش اور بے چینی کی صورت تھی ، ان ایام میں بھی آپ نے درس موقوف نہ کیا۔ انھیں دنوں استاذ محترم حضرت مولانا قاری شوکت علی صاحب مہتمم جامعہ عربیہ اعزاز العلوم ویٹ حضرت مفتی صاحب کی عیادت کے لئے دیوبند وارد ہوئے، عصر کے بعد حضرت مفتی صاحب کے در دولت پر حاضری ہوئی احقر بھی ساتھ تھا، تو دیکھا کہ حضرت مفتی صاحب ’’رحمۃ اللہ الواسعہ‘‘ کی کمپوز شدہ جلد پر ایک طالب علم کی مدد سے نظر ثانی فرمارہے ہیں، علیک سلیک کے بعد حضرت نے کاغذات ایک طرف رکھے، مزاج پرسی کے بعد گفتگو کا بے تکلف دور چلا، حضرت قاری صاحب نے فرمایا کہ اس پریشانی کے وقت میں آپ کو آرام کی زیادہ ضرورت ہے، تصنیف وغیرہ کا یہ کام صحت یابی تک موقوف کر دیجئے، حضرت مفتی صاحب کا جواب تھا ، قاری صاحب! ابھی ایک آنکھ سلامت ہے اس سے میں اچھی طرح دیکھ سکتا ہوں شاید اللہ تعالی نے اس آنکھ کواسی لئے سلامت رکھا ہو کہ میں اپنے باقی ماندہ کام پورے کرلوں، لہٰذا میں اپنے بقیہ کاموں کو پورا کرنے میں لگا ہوں۔ پھر جلد ہی حضرت مفتی صاحب نے قاری صاحب سے اجازت لے لی، اور اپنے کام میں مصروف ہوگئے، بعد میں ڈاکٹر کی تبدیلی ہوئی دوسرے ڈاکٹر نے لقوہ تجویز کر کے علاج کیا اور جلد ہی شفا ہوگئی ۔ احقر مذکورہ مجلس میں حاضر تھا، اس وقت بھی مفتی صاحب کے جواب سے سبھی متحیر ہوئے ، اس کے بعد جب بھی اس مجلس کی یاد آتی ہے تو حضرت مفتی صاحب کے الفاظ کانوں میں کھٹکنے لگتے ہیں، اپنی کاہلی وسستی پر ندامت کے ساتھ حضرت الاستاذ علیہ الرحمہ کی جدوجہد ، وقت کی قدر دانی اور سعی پیہم پر رشک آنے لگتا ہے۔
ایک مرتبہ ششماہی امتحان کے بعد وطن سے واپسی ہوئی تو ہم چند ساتھی حضرت والا کی خدمت میں حاضر ہوئے ، حضرت نے باری باری تعطیل کے ایام کی مصروفیت دریافت کی کہ ان دنوں میں تم نے کیا کیا؟لاشعوری اور بے پرواہی کا غلبہ تھا، کسی کے پاس معقول جواب نہ تھا،حضرت نے اپنے کام میں مصروف رہتے ہوئے مختصر الفاظ میں وقت کی قدر دانی کی تلقین کی پھر اس کے بعد بتلایا کہ ان تعطیل کے ایام میں میں نے کافیہ پر عربی حاشیہ کی تکمیل کی ہے، جو طباعت کے لیے گئی ہوئی ہے ۔ درس نظامی سے وابستگی رکھنے والے حضرات جانتے ہیں کہ کافیہ فن نحو کی اہم کتابوں میں شمار ہوتی ہے، حضرت رحمہ اللہ نے امتحان کے درس کا سلسلہ موقوف ہونے کے ایام میں یہ وقیع حاشیہ تحریر فرمایا جو الوافیہ کے نام سے دستیاب ہے۔
تفہیم کا انفرادی اسلوب اور درس کی مقبولیت
تعلیم سے فراغت کے بعد حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اصلاً تدریس کا مشغلہ ہی اختیار کیا، اور اپنی جدو جہد، علمی پختگی، حسن بیان کی بدولت علمی دنیا میں امتیازی مقام حاصل کیا۔ حضرت مفتی صاحب خطاب کے دوران اکثریہ واقعہ بیان کرتے تھے کہ جب میں تدریس کے لئے راندیر جانے لگا تو استاذ محترم حضرت علامہ ابراہیم بلیاوی علیہ الرحمہ کی خدمت میں حاضر ہوکر نصیحت کی درخواست کی، آپ نے چلتے وقت آخری نصیحت فرمائی ــ: مولوی صاحب تین باتیں یاد رکھنا (۱) جو بھی پڑھانا فن دیکھ کر پڑھانا اس سے علم میںاضافہ ہوگا (۲) سنت کی پیروی کرنا عوام میں مقبولیت ہوگی (۳) طلبہ کو اپنی اولاد سمجھنا۔ حضرت مفتی صاحب فرماتے تھے کہ میں اپنے استاذ کی ان قیمتی نصائح پر زندگی بھر عمل پیرا رہا ہوں اور جو کتاب بھی پڑھانے کیلئے ملتی ہے میں اس کو فن دیکھ کر ہی پڑھاتا ہوں، چنانچہ حضرت مفتی صاحب پوری تیاری اور حسن ترتیب کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں درس دیتے تھے، وہ تفہیم کی انفرادی صلاحیت رکھتے، اس کے لئے تمہید اور اس طرح مقدمات قائم کرتے کہ اصل مقصود تک ذہن کی رسائی ہو جاتی، آسان و مختصر جملوں والی تعبیرات کے ذریعہ اپنی بات پیش کرنے کا عجیب ملکہ ان کو حاصل تھا۔ احقر نے ترمذی شریف اور طحاوی شریف حضرت والا ہی سے پڑھی ،ان دونوں کتابوں کے درس میںان کا محدثانہ طرز اور شانِ فقاہت خوب اجاگر ہوتی، حدیث پر مفصل کلام،مرتب گفتگو ، متن پر کلام کے ساتھ سند پر بحث ، دیگر مسالک کے دلائل، وارد شدہ شبہات کا ازالہ اور مسلکِ احناف کے ترجیحی دلائل، ائمہ مذاہب کے نظریات و دلائل کی وضاحت کرنے کے ساتھ حضرت مفتی صاحب اقوال مختلفہ کا تجزیہ ایسے اچھوتے اسلوب میں پیش کرتے کہ ہر قول حدیث شریف کے قریب نظر آتا اور بآسانی سمجھ میں آجاتا کہ یہ اختلاف نص فہمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ دھیمی آواز ، باوقار لہجہ گفتگو میں ٹھہراؤ کے ساتھ درس کی تقریر جاری رہتی اور پورے سال اسی طرح تسلسل رہتا، نص سے مسئلہ کے استنباط کی تفہیم پر کلام کرتے ہوئے ایسا سہل اسلوب اپناتے کہ کسی کے لئے کوئی دشواری نہ رہتی، انہیں خصوصیات کی بدولت آپ کا درس بے پنا ہ مقبول تھا، طلبہ جوق در جوق کھنچے چلے آتے اور ہمہ تن گوش ہوکر سیرابی حاصل کرتے، احقر نے غبی ، لا پرواہ، سست ہر نوع کے طالب علم کو آ پ کے درس میں شرکت کا حریص پایا، باہر سے آنے والے مہمانان جن میں دیگر مدارس کے طلبہ اور اساتذہ بھی ہوتے وہ بھی آپ کے درس میں شرکت کا شوق رکھتے تھے، اور آپ کی شان محدثانہ کے قائل ہوتے۔آپ نے تدریس کے پورے دورانیے میںجو تقریبا ساٹھ سالوں پر محیط ہے مختلف فنون کی متعدد کتابوں کا درس دیامگر ترمذی شریف ، طحاوی شریف بخاری شریف اور حجۃ اللہ البالغہ کے اسباق کو خاص شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی۔
تقریر و خطابت:
متعلقین واحباب کی طلب پر فارغ اوقات میں مختلف مقامات پر خطاب کے لئے بھی تشریف لے جاتے تھے، علمی اور بصیرت افروز فرمایا کرتے تھے۔ عام فہم لب ولہجہ، مجلسی انداز، تکلفات سے پاک، آورد سے خالی، انداز بیان سادہ، نہ پر شکوہ الفاظ اور نہ انوکھی تعبیرات کہ گفتگو سامعین کے سروں سے گذر جائے، موقع اور احوال کی مناسبت سے گفتگو کے معیار میںاتار چڑھاؤ رہتا تھا، اہل علم کی مجلس میں ان کے علم کے مطابق اور عوام الناس کے مجمع میں ان کے فہم کے مناسب۔ حضرت والا خشک عنوان کو تروتازہ بناکر پیش کرنے کا ہنر بھی جانتے تھے، اور بعض مواقع پر تو صرف حضرت والا کا خطاب ہی بہتر اور مناسب معلوم ہوتا تھا۔ دار العلوم دیوبند میں تعلیمی سال کے آغاز پر اساتذہ کرام کی خصوصی نششت میں، مدرسہ ثانویہ میں تعلیمی سال کے آغاز پر ابتدائی جماعتوں کے طلبہ کے ما بین، پھر مسجد رشید میں تمام طلبہ کے ما بین آپ کا خطاب ہی متعین طور پر ہوتا تھا، جس میں عموماً سورہ علق کی ابتدائی آیات تلاوت فرماکر تعلیم کی اہمیت ،طلب علم کے مراحل بیان کئے جاتے ، اسی طرح رابطہ مدارس عربیہ کے اجلاس اور دیگر مواقع پر بھی کلیدی خطاب آپ ہی کا ہوتا تھا، اکثرمنتخب آیات قرآنیہ کی تلاوت سے خطاب شروع ہوتا، آیات کی تشریح کرتے ہوئے مضمون کا حالات حاضرہ سے انطباق ،ان سے ملنے والا سبق و رہنمائی بیان کرتے، معاشرے کی برائیوں اور کج روی کو اجاگر کرتے، اس سلسلے میں ان کی بے باکی بھی خوب دیکھنے میں آتی ۔
حضرت مفتی صاحب کی تفہیم کا جوہر درس کے علاوہ، خطاب میں بھی خوب ظاہر ہوتا تھا، بعض فقہی مسائل، شرعی اصول بہت آسانی وسلیقہ سے عوام کے ذہن نشیں کردیتے تھے، پروگرام اور اجلاس کا مقصد واضح کردیتے۔ جب ایک مخصوص فرقہ کی ریشہ دوانی اور دریدہ دہنی پر بند لگانے کی نیت سے جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی علیہ الرحمہ کی صدارت میں تال کٹورہ اسٹیڈیم نئی دلی میں تحفظ سنت کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا، عوام و خواص کا مجمع، علماء وعوام کا جم غفیر تھا، پروگرام کی تمہیدات کے بعد اظہار خیال و خطاب کا سلسلہ جاری تھا، ناظم اجلاس حضرت مولانا عبد العلیم صاحب فاروقی مدظلہ نے حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری کا نام پکارا، آپ نے بڑے سلیقہ سے مقاصد اجلاس کو سمجھایا پھر مرتب و مدلل گفتگو کرتے ہوئے سنت کی وضاحت ، اس کی تحفظ کی ضرورت، تقلید و عدم تقلید کی توضیح اور اہل سنت و الجماعت سے اس مخصوص فرقے کے اصولی اختلاف کو ظاہر کر کے سامعین کو ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کیا، اس خطاب کے بعد سامعین کی تشنگی دور ہوئی، اس فرقہ کی ریشہ دوانیوں کے تدارک سے آگاہی ہوئی۔ حضرت کے خطاب کے بعد سامعین کے چہروں سے اطمینان کا احساس اور کسی مشکل بات کو سمجھ جانے کی خوشی صاف ظاہر ہوتی تھی۔
تصنیف و تالیف :
تصنیف و تالیف بھی آپ کا محبوب مشغلہ تھا، تدریس کی طرح آپ کا اسلوب تحریر صاف، سادہ اور دل نشیں ہوتا تھا، تسہیل کوہی ترجیح ہوتی تھی، آپ کے قلم سے نکلی ہوئی تمام کتابوں میں اسی ضرورت کو پیش نظر رکھا گیا ہے،جس کی بنا پر تقریباً سبھی کو قبول عام حاصل ہے، چھوٹی بڑی تمام تصانیف پچاس کے قریب ہیں، اس اعتبار سے آپ کثیر التصانیف کی فہرست میں شامل ہیں، احقر کی کوتاہ نظر میں تدریسی مصروفیت کے ساتھ اتنا کثیرتصنیفی کام کرنے کی کوئی دوسری مثال ہمارے طبقہ میں نہیں ہے، درس نظامی کے فنون میں سے اکثر پر آپ نے خامہ فرسائی کی اور وقیع قابل قدر کتابیں تصنیف فرمائیں، بعض فنون میں ایک سے زائد کتابیں منظر عام پر آئیں، مثلاً تفسیر میں: ہدایت القرآن کی آٹھ جلدیں ۔ اصول تفسیر میں:الفوز الکبیر کا عربی ترجمہ اور اس کی شرح العون الکبیر۔ فن حدیث میں: تحفۃ القاری شرح صحیح بخاری بارہ جلدیں، تحفۃ الألمعی شرح سنن ترمذی آٹھ جلدیں، ایضاح المسلم شرح صحیح مسلم تا کتاب الایمان، زبدۃ شرح معانی الآثار ، محفوظات اول دوم سوم۔ اصول حدیث میں : فیض المنعم شرح مقدمہ مسلم، تحفۃ الدرر شرح نخبۃ الفکر، شرح علل الترمذی۔ حکمت شریعت : میں رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغہ پانچ جلدیں، تعلیق حجۃ اللہ البالغہ (حاشیہ عربی) دو جلدیں، کامل برہان الہی چار جلدیں ۔ فقہ میں: حاشیہ امداد الفتاوی، آپ فتوی کیسے دیں۔ اصول فقہ میں: مبادی الأصول، معین الأصول۔ نحو میں : آسان نحو، ہادیہ شرح کافیہ، الوافیہ حاشیہ عربی برکافیہ۔ صرف میں : آسان صرف، گنجینہ صرف شرح پنج گنج۔ منطق میں : آسان منطق، مفتاح التہذیب شرح التہذیب ، ارشاد الفہوم شرح سلم العلوم ۔ فلسفہ میں: مبادی الفلسفہ، معین الفلسفہ۔ تذکرہ و سوانح میں: حیات امام طحاوی، حیات امام ابو داؤد، تذکرہ مشاہیر محدثین۔ مذکورہ کتب کے علاوہ ’’ دین کی بنیادیں اور تقلید کی ضرورت ‘‘ ’’ تسہیل ادلہ کاملہ ‘‘ ’’ ایضاح الأدلہ ‘‘ ’’آسان فارسی حصہ اول ، دوم ‘‘ وغیرہ قابل ذکر ہیں، حضرت کی تصنیف کردہ کتب کے جملہ صفحات کی تعداد تیتس ہزار چھ سو بیس بنتی ہے جو ان کی مکمل زندگی کے جملہ ایام سے زائد ہے جبکہ کسی بھی انسان کی عمر کے ابتدائی بیس سال تعلیم وتربیت اور کھیل کود کی نذر ہو جاتے ہیں اگر یہ بیس سال نکال کر صرف عملی زندگی کے ساٹھ سال باقی رکھے جائیں اور ان کے ایام کا تقابل تصنیفات کے صفحات سے کیا جائے تو صفحات کی تعداد کافی بڑھ جاتی ہے۔ آج کل اس قدر کثیر صفحات کا مطالعہ بھی دشوار ہوتا ہے، لہٰذا حضرت رحمہ اللہ کا تدریسی مصروفیت کے ساتھ اتنا تصنیفی کام کردینا عظیم کارنامہ ہے۔
تصانیف کے ذیل یہ پہلو بھی نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ جہاں آپ کے قلم گہر بار سے ،تحفہ القاری، تحفۃ الالمعی، رحمۃ اللہ الواسعہ، کامل برہان الہی، ہدایت القرآن جیسے عظیم شاہکار وجود پذیر ہوئے وہیں ابتدائی اور مبادی حیثیت کی کتب بھی منظر عام پر آئیں جن میں محفوظات، آسان منطق، آسان نحو، آسان صرف، آسان فارسی، مبادی الأصول وغیرہ شامل ہیں، جبکہ عام طور پر عظیم و ضخیم کتابوں کے مصنفین ابتدائی کتب کی طرف متوجہ نہیں ہو پاتے ان کا مطمح نظر زیادہ تر بڑی تصانیف ہوتی ہیں، اس حوالے سے آپ کی ذات میں جامعیت پائی جاتی ہے۔کہ آپ نے مبادی ، ابتدائی ، متوسط، اور اعلی ہر درجہ کی کتابیں تصنیف فرمائیں، مختصر کتابچے ، متوسط معتدل کتابیں اور ضخیم مطولات بھی تحریر کیں ۔ ایسی جامعیت کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔
علمی مسائل میں چھوٹوں سے تبادلۂ خیال:
علم و استعداد کی پختگی، محدثانہ شان ، فقیہانہ بصیرت ، نصف صدی سے زائد تدریسی تجربہ، پچاسوں کتابوں کے مصنف ،ہر فن پر با بصیرت نگاہ رکھنے کی بنا پرعلمی دنیا میں آپ کو اعتبار و استناد حاصل تھا مگر پھر بھی بہت سوچ سمجھ کر رائے قائم کرتے تھے، آپ کی ایک عادت توہر کسی کے اپنانے کے قابل ہے وہ یہ کہ مطالعہ یا تصنیف کے دوران اگر کہیں ضرورت محسوس کرتے بلا تکلف اپنے چھوٹوں کے ساتھ تبادلہ خیال کرلیتے اوربشاشت کے ساتھ چھوٹوں کی رائے کو بھی قبول کر لیتے ، اس کا اظہاربھی کردیتے تھے، حضرت مفتی خورشید انور صاحب ناظم تعلیمات دارالعلوم دیوبند، مفتی اشتیاق احمد صاحب، مفتی کلیم الدین صاحب اساتذہ دار العلوم ، مفتی محمد نعمان مفتی دار العلوم دیوبند وغیرہ سے اکثر تبادلۂ خیال ہوتا رہتا تھا ، اسی طرح اساتذہ تجوید و قرأت سے بھی قواعد تجوید ، اختلاف قرأت وغیرہ پر مذاکرہ کرلیتے ، اس میں ذرا بھی جھجھک کا اظہار کرتے نہ بڑا پن جتلاتے ،اس کا مقصد اطمینان کا حصول اور دوسروں کو ترغیب دینا ہوتا تھا۔ موجودہ دور میں جبکہ تفوق و برتری کا مزاج غلبہ پاچکا کسی بھی مسئلہ سے متعلق دوسروں سے گفتگو کرنا قصر شان تصور کیا جاتا ہے اور مسئول عنہ بھی تنقیص سائل میں مبتلا ہوجاتا ہے، ایسے دور میں حضرت والا کا یہ طرز عمل بہت معنویت رکھتا ہے، بلکہ علم کے ہر خوشہ چیں کیلئے حرزِ جان بنانے کے لائق ہے ۔
استغنا وبے نیازی
آپ نہایت حلیم، قانع اورمستغنی واقع ہوئے تھے، آپ کے رہن سہن،لباس ووضع سے استغنائی شان نمایاں رہتی تھی، کثیرالعیال ہونے کے سبب گھریلو مصارف زیادہ ہوگئے مگرکبھی کسی کے سامنے اس کا ذرا بھی اظہار فرمایا بلکہ استغنا کا دامن تھامے رکھا، جب وسعت وفراخی ہوئی تب بھی کبھی دولت و جائداد کو اہمیت نہ دی ۔کافی دنوں پہلے کی بات ہے جب آپ دیوبند میں اپنامکان تعمیر کرارہے تھے،آپ کے پڑوسی نے معمار سے کہا کہ اس دیوار میں ہماری طرف تھوڑی جگہ چھوڑ کرایک طاق بنادینا تاکہ ہم رات میں یہاں چراغ وغیرہ رکھ لیا کریں، معمار نے سنی ان سنی کردی اور طاق نہیں بنایا، دیوار اوپر تک تعمیر ہو چکی تھی، اگلے روز پڑوسی نے حضرت مفتی صاحب سے کہا ہم نے اس معمار سے یہاں پر دیوار میں ایک طاق بنانے کو کہا تھا؟حضرت والانے معمار سے کہا کہ بھائی ان کے لئے جہاں پر یہ کہتے ہیں طاق بنا دو۔ معمار نے از راہِ ہمدردی عرض کیا حضرت آپ بہت بھولے آدمی ہیں، یہاں کا ما حول نہیں سمجھتے ہیں کل کواس طاق کی وجہ سے یہ لوگ دیوار پر دعویٰ کردیں گے کہ یہ دیوار ہماری ہے اس لئے میں نے نہیں بنایا، یہ بات سن کر حضرت برہم ہوگئے، اورکام موقوف کراکر پہلے وہ طاق بنوایا ، اور پھر معمار سے بولے اگر یہ لوگ کل کو اس طاق کی وجہ سے دیوار پر مدعی ہوئے اور دیوار کا مطالبہ کرنے لگے تو میں اپنی اولاد سے کہہ جاؤں گا کہ ان کو یہ دیوار دے دینا۔
حضرت مفتی صاحب کی ابتدائی زندگی عسرت میں گذری تھی ،بعد میں جب وسعت و فراخی ہوئی تو امورِ خیر میں خاموشی کے ساتھ حصہ لیتے، اور بہت کثرت سے خرچ کرتے تھے، محلہ کی مسجد ، نادار طلبہ اور دیگر ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے تھے، جب بچوں کی تعلیم و شادی اور ضروریات رہائش وغیرہ سے فارغ ہوگئے تو دارالعلوم اشرفیہ راندیر اور دارالعلوم دیوبند سے وصول کردہ اپنی مکمل تنخواہ کا حساب لگاکر واپس فرمادی ، پھر حسبتاً للہ بلا تنخواہ درس دینے لگے ، اور تا دم واپسیں یہی معمول رہا، اس پر صابر و شاکر رہتے۔اسی طرح مکان و جائداد میں سب بچوں کے حصے متعین کرکے ہر ایک کو سپرد کرکے خود فارغ کرلیا۔
حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ایسی ہی خوبیوں و کمالات کا مجموعہ تھی، وہ ایسے وقت میں رخصت ہوئے جبکہ ان کے متعلقین و مستفیدین اور ہم جیسے نا اہلوں کو پہلے سے زیادہ ان کی ضرورت تھی ،حضرت والا کی وفات سے دنیا ایک محدث ،فقیہ اور عالم باعمل سے محروم ہوگئی ،مگر یقین ہے کہ اللہ کے بندوں کے درمیان وہ سرخ رو اور با عزت رہے آخرت میں اللہ تعالی کے نزدیک بھی سرخ رو اور دنیا سے زیادہ عزت یافتہ ہوں گے ۔ اللہ تعالی درجات بلند فرمائے ۔ آمین ۔
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا رات کے تاروں سے بھی تیرا سفر

٭ ٭ ٭

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں