امریکہ نے چینی کمیونسٹ پارٹی کے پولت بیورو کے رکن سمیت ۴؍ اہم عہدیداروں پر معاشی اور سفارتی پابندی لگائی۔ اب نہ امریکہ میں ان سے کوئی لین دین ہوگا نہ انہیں امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت ہوگی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے مزید چینی حکام کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اعلان کے مطابق ، امریکی حکومت نے چینی حکام پر پابندی عائد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ جمعرات کو اس کی ابتدا چین کے چار اہم عہدیداروں پر پابندی عائد کرکے کی گئی۔ ا ن ۴؍ لوگوں میں ملک کے طاقتور پولت بیورو کے ایک رکن بھی شامل ہے۔ ان پر الزام ہے کہ وہ ایغور مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہیں ۔ اس بات کا امکان ہے کہ اس اقدام کے نتیجے میں امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی کا شکار تعلقات مزید کشیدہ ہو جائیں گے۔
جن لوگوں پر پابندیاں عائد کی گئیں
وہائٹ ہاؤس نے جن لوگوں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے ان میں کمیونسٹ پارٹی کے ژنجیانگ خطے کے سربراہ سربراہ چین چوانگو اور تین دیگر حکام کے امریکہ میں موجود مالی مفادات ان پابندیوں کی زد میں آئیں گے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے طاقتور پولت بیورو میں اہم عہدہ رکھنے والے چین چوانگو امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے اب تک کے اعلیٰ ترین چینی عہدیدار ہیں ۔انھیں اقلیتوں کے خلاف بیجنگ کی پالیسیوں کا نقشہ ساز تصور کیا جاتا ہے۔
دیگر حکام میں ژنجیانگ کے پبلک سیکوریٹی بیورو کے ڈائریکٹر وینگ منگشان، ژنجیانگ میں پارٹی کے ایک سینئر رکن ژو ہیلون، اور ایک سابق سیکیورٹی اہلکار ہیو لیوجون شامل ہیں ۔
پابندیاں کیا ہیں؟
ان پابندیوں کے بعد امریکہ میں ان تمام شخصیات کے ساتھ مالی لین دین جرم ہو جائے گا اور امریکہ میں موجود ان کے اثاثے منجمد کر دیئے جائیں گے۔تاہم ہیو لیوجون کو اُن ویزا پابندیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جن کی وجہ سے باقی تین عہدیدار اور ان کے خاندان امریکہ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اس کے علاوہ ژنجیانگ کے پبلک سیکوریٹی بیورو پر مجموعی طور پر بھی پابندیاں عائد کی گئی ہیں ۔
مزید لوگوں پر کارروائی ہوگی
اس دوران امریکہ کے وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ امریکہ خطے میں `خوفناک اور منظم استحصال کے خلاف اقدامات کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا’’امریکہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے ژنجیانگ میں ایغور، قزاق نسل کے افراد اور دیگر اقلیتی گروہوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور استحصال پر خاموش تماشائی نہیں بنا رہے گا۔پومپیو نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ امریکہ کمیونسٹ پارٹی کے دیگر حکام کے خلاف بھی ویزا پابندیاں عائد کر رہا ہے جنھیں ژنجیانگ میں استحصال کا ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے۔تاہم ان عہدیداروں کے نام ظاہر نہیں کئے گئے، اور بتایا جا رہا ہے کہ ان کے خاندان کے ارکان بھی ممکنہ طور پر ان پابندیوں کے شکار ہو سکتے ہیں ۔امریکہ اور چین کے درمیان تنازعات پہلے ہی کورونا وائرس کی وبا اور چین کی جانب سے ہانگ کانگ میں ایک قومی سلامتی کا قانون متعارف کروانے کی وجہ سے عروج پر ہیں ۔
واضح رہے کہ ۲۰۱۴ء سے چین سے ایغور مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی خبریں آ رہی تھیں ۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق وہاں مسلمانوں کو نماز پڑھنے اور ڈاڑھی رکھنے یا خواتین کو حجاب پہننے سے روکا جا رہا تھا۔ البتہ اس پر عالمی برادری توجہ نہیں دے رہی تھی۔ گزشتہ دنوں ڈونالڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ جلدہی چین میں ایغور مسلمانوں کے خلاف مظالم اور زیادتی میں ملوث چینی حکام کے خلاف پابندیاں عائد کریں گے۔ اس کیلئے انہوں نے ایک ایڈمنسٹریٹیو آرڈر پر دستخط بھی کئے تھے۔ اسی آرڈر کے تحت اب کارروائی شروع کی گئی ہے۔ لیکن مبصرین کی رائے میں یہ کارروائی دراصل چین اور امریکہ کے درمیان جاری موجودہ چپقلش کا نتیجہ ہے۔ واضح رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان باوجود سرد کاروباری جنگ کے کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے تک امریکہ اور چین کے درمیان کاروباری معاہدے ہوئے تھے۔ لیکن وبا کے پھیلنے کے بعد امریکہ چین کی کھل کر مخالفت کرنے لگا اور اس نے مختلف وجوہات کو بنیاد بنا کر چین پر قدغن لگانے کی کوششیں شروع کیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایغور مسلمانوں کے خلاف زیادتی کئی سال سے جاری تھی لیکن امریکہ نے یہ قدم اب جا کر اٹھایا کیونکہ اسے چین کے خلاف کارروائی کا بہانہ چاہئے تھا۔






