آسام کے انتخابی حلقوں کی نئی حدبندی پر اٹھتے سوالات

پروفیسر اختر الواسع 

آسام میں اسمبلی و پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ حکومت اس منصوبے کو جلد ہی عملی جامہ پہنانے میں کامیاب بھی ہوجائے گی۔ مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتاپارٹی صدارتی حکم نامہ کے ذریعے نئی حد بندی کی جو کوشش کررہی ہے اس سے آسام کی متعدد سیاسی و سماجی تنظیموں کو خدشہ ہے کہ اس سے نئے مسائل پیدا ہوں گے اور سیاسی وسماجی محرومی کے ساتھ ساتھ نئی حد بندی کو ہتھکنڈہ بناکر یہاں کی اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کو اس طرح پارہ پارہ کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے جس سے یہاں مسلمانوں اور قبائلیوں کو ایوانوں میں جو نمائندگی حاصل ہے اس سے انہیں محروم کیا جاسکے۔ چنانچہ انہیں خدشات کی بنیاد پر جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مولانا محمود مدنی نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے تاکہ بی جے پی حکومت کی اس بے وقت کی نئی حد بندی کے عمل کو روکا جاسکے۔

صدارتی حکم کی روشنی میں ڈی لمیٹیشن کمیشن نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں اور اس کے لیے پہلے ہی ڈی لمیٹیشن کمیشن کے مطالبہ پر شمال مشرق کی چار ریاستوں کے اراکین اسمبلی کا الگ الگ پینل بھی تشکیل پا چکا ہے۔ واضح ہوکہ حکومت نے 6 مارچ 2020 کو ہی اس کا فیصلہ کیا تھا اور وہ آسام، منی پور، اروناچل پردیش اور ناگالینڈ کے پارلیمانی و اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی چاہتی ہے۔ چنانچہ آسام اسمبلی کے اسپیکر ہتیندر گوسوامی نے الگ الگ سیاسی جماعتوں کی پانچ رکنی نمائندہ کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے جس میں اسم گن پریشد کے رامیندر نرائن کالیتا، کانگریس سے کملکھیادی پورکیاستھا، اے یو ڈی ایف کے حافظ بشیر احمد، بی جے پی کے مسرنل کمار ساکیہ اور بوڈولینڈ پپلس فرنٹ کے ربیرم نرزیری شامل ہیں۔ اس میں آسام سے تعلق رکھنے والے پانچ اراکین پارلیمنٹ کی بھی نامزدگی عمل میں آئی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حکومت جلدبازی میں نئی حدبندی کیوں چاہتی ہے اور کیوں ایسی کوشش ہے کہ جلد ازجلد وہاں کی اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کا جغرافیہ تبدیل کر دیا جائے، تو اس میں کوئی بات ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے بلکہ صاف عیاں ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو شروع سے ہی آسام میں مسلم رائے دہندگان کے ارتکاز پر اعتراض ہے اور کھل کر ماضی میں بی جے پی لیڈران نے کہابھی ہے کہ یہاں بنگلہ دیشی مسلمانوں نے یکجا سکونت اختیار کرلی ہے اور یہی لوگ انتخابات میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ چنانچہ گزشتہ ایک دہائی سے اس بات کو زیادہ زور و شور سے یہ کہا جانے لگا ہے کہ مسلمان شمال مشرق کی سالمیت کے لیے خطرہ ہےں۔ بی جے پی اور آسام گن پریشد سے وابستہ سیاستدانوں نے کئی اسٹیج پر بھی مسلمانوں کی کثیرآبادی پر سوالات کھڑے کیے ہیں اورلوگوں کو ڈرانے کی کوشش کی ہے کہ یہا ںجلد ہی اسلامی پرچم لہرایا جانے والا ہے۔

بہت سی تنظیموں اور سماجی تحریکات سے وابستہ افراد حکومت کی نئی حدبندی والی پالیسی پر طرح طرح کا اندیشہ ظاہرکرہے ہیں ۔ کہا جارہا ہے کہ بی جے پی حکومت آسام کے اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی نئی حد بندی اس طرح سے کرنا چاہتی ہے تاکہ مسلم ووٹوں کو بے اثرکردیاجائے تاکہ اے آئی یو ڈی ایف جیسی سیاسی جماعتوں کی کامیابی کے امکانات کم سے کم ہوجائیں۔

دراصل 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں پوری قوت سے ابھر نے والی آسام یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ نے ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کے کان کھڑے کر دیئے تھے ۔ اس سے قبل اسمبلی انتخابات میں بھی اے آئی یو ڈی ایف نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا ، شاید یہی وجہ ہے کہ آسام میں حکمراں بی جے پی چاہتی ہے کہ انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی ایسی کرادی جائے تاکہ مسلمانوں کا ووٹ بکھر کر رہ جائے اور فرقہ پرست جماعتوں کی کامیابی کی راہیں آسان ہوجائیں ۔ اے یو ڈی ایف کو بنگلہ دیشی دراندازوں کی پارٹی کہنے والوں کے پیٹ میں مروڑ اس لیے بھی ہے کہ ٹوپی کرتا اور داڑھی والے درویش صفت انسان مولانا بدرالد ین اجمل کی سربراہی والی یہ سیکولر پارٹی روزبروز آگے بڑھتی جارہی ہے۔

آر ایس ایس اور ان کی ہمنوا سیاسی وغیر سیاسی جماعتوں نے بنگلہ دیشی دراندازی کو ثابت کرنے کے لیے وہاں کی آبادی کا تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق 2001 کی مردم شماری میں آسام کے 23 اضلاع میں سے 6 ضلعوں میں ہندو اقلیت میں آگئے تھے اور اندازہ ہے کہ 2011 کی مردم شماری میں ہندوؤں کی آبادی اور کم ہوجائے گی۔ اے یو ڈی ایف کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھنے والے لوگوں کے نزدیک یہ ہندوستان کے لیے بہت بڑے خطرے کی بات ہے کہ آسام کے کئی ضلعوں میں مسلمانوں کی آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے۔منفی ذہنیت کے لوگوں کے لیے یہ بہت خطرے کی بات ہے کہ کریم گنج میں 52.30 فیصد، ہیلاکنڈی میں 57.62 فیصد، دھوبڑی میں 74.29 فیصد، گوالپاڑہ میں 57.71 فیصد، بارپیٹا میں 59.36 فیصد اور نوگاؤں میں 50.99 فیصد مسلم آبادی کیوں ہے۔ مسلمانوں کی مجتمع آبادی کو دیکھ کر فرقہ پرستوں کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں اور روڈ سے ایوانوں تک وہ یہ پروپیگنڈہ کررہے کہ اے یو ڈی ایف بنگلہ دیشی درانداز مسلمانوں کو لاکر یہاں آبادکررہی ہے ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 1996 میں ریاستی حکومت کی منصوبہ بند سازش اور فرقہ پرستوں کی مہم کے نتیجے میں لاکھوں آسامی مسلمانوں کے نام ووٹر لسٹ سے خارج کردئیے گئے تھے لیکن جب پورے ملک میں اس کے خلاف مہم چلائی گئی تو ایک بڑی تعداد لوگوں کے نام دوبارہ ووٹرلسٹ میں شامل کیے گئے ، چنانچہ 2001 میں مسلمانوں کی تعداد 1996 کے مقابلے میں زیادہ ہوگئی، اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرقہ پرست تنظیمیں یہ کہہ رہی ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد میں یہ اضافہ کیوں؟ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ چونکہ 2006 میں ہی اے یو ڈی ایف کا جنم ہوا اس لیے اس نے پہلے بنگلہ دیشی دراندازوں کو یہاں بسایا ، انہیں قانونی تحفظ فراہم کیا پھر سیاسی میدان میں اپنی موجودگی درج کرائی۔

حکومت کی نئی حد بندی کو فی الحال غیرضروری قرار دیتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند نے جنرل سکریٹری اور سابق رکن راجیہ سبھا مولانا محمود مدنی نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں مرکزی سرکار کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے ، چنانچہ عدالت عظمیٰ نے سرکار کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے۔ دراصل عرضی گزار مولانا محمود مدنی نے سرکار کی منشاپر سوال اٹھا تے ہوئے کہا ہے کہ آسام میں اقلیتوں کے سیاسی حقوق پر شب خون مارا جاسکتا ہے ۔ عرضی گزارنے چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبدے، جسٹس آر سبھاش ریڈی اور جسٹس اے ایس پوبنا کی بنچ کے سامنے عرضی دائر کرکے ریاست آسام میں اسمبلیوں کی جدید حد بندی کو غیر قانونی، موجودہ حالات کے تقاضوں کے مغایر اور جلد بازی پر مبنی عمل قرار دیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں مرکزی سرکار کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے۔

اسمبلیوں کی حد بندی آبادی کے سبھی طبقے کو برابر حصہ دینے کے لیے کی جاتی ہے توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت یہ عمل کس بنیاد پر انجام دیا جارہا ہے ۔ ریاست میں این آرسی کا عمل مکمل نہیں ہوا ہے اور نہ اس بنیاد پر آباد ی کا رجسٹر کوقطعی شکل دیا جاسکا ہے اور نہ حال میں کوئی مردم شماری ہوئی ہے، تو پھر یہ حد بندی کا موجودہ عمل 2001 کی مردم شماری کو بنیاد بنا کر کیے جانے کا کیا جواز ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حکومت نے خود آسام کو 28 اگست 2019ء سے ”ڈسٹربڈ ایریا“ قرار دے رکھا ہے تو ایسے خطہ میں نئی حدبندی چہ معنیٰ دارد؟ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جن بنیادوں پر آسام میں 2008ء میں اسمبلی حلقوں کی حد بندی کے عمل کو موقوف کردیا گیا تھا آج بھی وہاں کے حالات اسی طرح خراب ہیں اور وہاں این آرسی کی وجہ سے جو خوف و ہراس ہے اس کو دیکھ کر کوئی بھی ذی ہوش انسان وہاں نئی حد بندی کا آپریشن چلاکر ایک نئے قسم کی بے چینی کو جنم نہیں دے سکتا ۔ ایسا محسوس کیا جارہا ہے کہ وہاں نئی حد بندی سے بے چینی، فکرمندی اور تشویش کی لہر دوڑ سکتی ہے ۔ چنانچہ جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی عرضی میں 27 جنوری 2020 کو نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ اور آل بوڈو اسٹوڈینٹ یونین کے ساتھ ’بی ٹی آر معاہدہ‘ کا بھی حوالہ دیا ہے جس کے تحت وہ گاؤں جو بوڈو لینڈ سے باہر ہیں لیکن وہاں بوڈو قبیلہ کی اکثریت ہے، ان کو بھی بوڈو لینڈ میں شامل کیا جائے گا، سوال یہ ہے کہ اب تک اس معاہدہ پر عمل نہیں ہوا ہے اور نہ اس کے تحت کسی علاقے کی حد بندی ہوئی ہے تو ایسی صورت میں سرکار کس طرح سے جدید حد بندی کے عمل کو نافذ کرپائے گی ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ہند کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔

(مضمون نگار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس ہیں)