بابری مسجد، مسجد تھی اور ہمیشہ مسجد ہی رہے گی، غاصبانہ قبضہ سے حقیقت ختم نہیں ہوتی، سپریم کورٹ نے فیصلہ ضرور دیا ہے مگر انصاف کو شرمسار کیا ہے: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ 

نئی دہلی: (پریس ریلیز) آج جبکہ بابری مسجد کے مقام پر ایک مندر کی بنیاد رکھی جا رہی ہے ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اپنے دیرینہ موقف کو دہرانہ ضروری سمجھتا ہے ۔ شریعت کی روشنی میں جہاں ایک بار مسجد قائم ہو جاتی ہے، وہ تا قیامت مسجد رہتی ہے۔ لہٰذا بابری مسجد کل بھی مسجد تھی، آج بھی مسجد ہے اور انشاءاللہ آئندہ بھی مسجد رہے گی ۔ مسجد میں مورتیاں رکھ دینے سے ،پوجا پاٹ شروع شروع کر دینے سے یا ایک لمبے عرصے تک نماز پر روک لگا دینے سے مسجد کی حیثیت ختم نہیں ہو جاتی۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا محمد ولی رحمانی نے اپنے ایک پریس بیان میں کہا ہے کہ ہمارا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ بابری مسجد کسی مندر یا کسی ہندو عبادت گاہ کو توڑ کر نہیں بنائی گئی۔ الحمدللہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ (2019) میں ہمارے اس موقف کی تصدیق کردی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ بابری مسجد کے نیچے کھدائی میں جو آثار ملے ہیں وہ بات ۱۲ویں صدی کی کسی عمارت کے تھے بابری مسجد کی تعمیر سے 4 سو سال قبل، لہذا کسی مندر کو توڑ کر مسجد نہیں بنائی گئی ۔ سپریم کورٹ نے صاف طور پر کہا کہ بابری مسجد میں 22 دسمبر 1949 کی رات تک نماز ہوتی رہی ہے ۔ سپریم کورٹ کا یہ بھی ماننا ہے کہ 22 دسمبر 1949 میں مورتیوں کا رکھا جانا ایک غیر قانونی اور غیر دستوری عمل تھا، سپریم کورٹ یہ بھی مانتا ہے کہ 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کی شہادت ایک غیر قانونی غیر دستوری اور مجرمانہ فعل تھا۔ افسوس کہ ان تمام واضح حقائق کو تسلیم کرنے کے باوجود کورٹ نے ایک انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ دیا، مسجد کی زمین ان لوگوں کے حوالے کردی جنہوں نے مجرمانہ طریقہ پر اس میں مورتیاں رکھیں اور اس کی شہادت کے مرتکب ہوئے۔
بورڈ کے جنرل سکریٹری نے آگے کہا کہ چونکہ عدالت عظمی ملک کی اعلی ترین عدالت ہے،لہذا اس کے حتمی فیصلے کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے تاہم ہم یہ ضرور کہیں گے کہ یہ ایک ظالمانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ ہے جو اکثریتی زعم میں دیا گیا۔ سپریم کورٹ میں 9 نومبر 2019 کو فیصلہ ضرور دیا ہے مگر انصاف کو شرمسار کیا ہے،الحمدللہ ہندوستانی مسلمانوں کے نمائندہ اجتماعی پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر فریقوں نے بھی عدالتی لڑائی میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔یہاں یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ ہندوتوا عناصر کی یہ پوری تحریک ظلم ، جبر ، دھونس، دھاندلی کذب اور افتراء پر مبنی تحریک تھی ۔ یہ سراسر ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مذہب یا مذہبی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں تھا جھوٹ اور ظلم پر مبنی عمارت کبھی بھی پائیدار نہیں ہوتی۔
جنرل سیکریٹری صاحب نے اپنے بیان میں آگے کہا کہ حالات چاہے جتنے خراب ہوں ہمیں حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے مخالف حالات میں جینے کا مزاج بنانا چاہیے نئے حالات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے ۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ” وتلک الایام نداولہا بین الناس ” (یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں) ۔ لہذا ہمیں نہ تو مایوس ہونا ہے اور نہ حالات کے آگے سپر ڈالنا ہے ہمارے سامنے استنبول کی ایاصوفیہ مسجد کی مثال اس آیت کی منہ بولتی تصویر ہے۔میں مسلمانان ہند سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلہ اور مسجد کی زمین پر مندر کی تعمیر سے ہرگز بھی دل برداشتہ نہ ہوں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیےکہ توحید کا عالمی مرکز اور اللہ کا گھر خانہ کعبہ بھی ایک لمبے عرصے تک شرک و بت پرستی کا مرکز بنا رہا بالآخر فتح مکہ کے بعد پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ وہ دوبارہ مرکز توحید بنا ۔انشاء اللہ ہمیں پوری توقع ہے کہ صرف بابری مسجد ہی نہیں یہ پورا چمن نغمہ توحید سے معمور ہوگا۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ایسے نازک موقع پر اپنی غلطیوں سے توبہ کریں، اخلاق و کردار کو سنواریں، گھر اور سماج کو دیندار بنائیں اور پورے حوصلہ کے ساتھ مخالف حالات میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کریں۔