چین نے ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ میں اٹھایا کشمیر کا مسئلہ، بھارت چراغ پا

بیجنگ: (ڈی ڈبلیو ) کشمیر بحران کو ایک سال مکمل ہوگئے ہیں ۔ 5 اگست 2019 کو بھارت کی بی جے پی حکومت نے کشمیر کے خصوصی درجہ اور آرٹیکل 370 کو ختم کردیا تھا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کردیاتھا۔ علاوہ ازیں کشمیر میں مکمل کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کئی طرح کی پابندیاں عائد کردی گئی تھی ۔ کچھ پابندیاں ایک سال مکمل ہونے کے باوجود بر قرار ہے جیسے 4جی انٹر نیٹ پر پابندی ابھی وہاں برقرار ہے ۔
ایک سال مکمل ہونے پر چین نے ایک بار پھر کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں اٹھایا ہے جسے بھارت نے داخلی امور میں مداخلت کہہ کر مسترد کر دیا ہے۔ ادھر کشمیریوں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں آنے والا وقت مزید سخت ہوگا اس لیے اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
بھارت نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں چین کے جانب سے مسئلہ کشمیر کو اٹھانے کی کوشش کو مسترد کرتے ہوئے پھر کہا ہے کہ یہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ بھارت کا دعوی ہے کہ چین کو اس بارے میں عالمی برادری کی جانب سے زیادہ حمایت حاصل نہیں ہے اور اسے ان غیر ضروری کوششوں سے باز رہنا چاہیے۔
چین نے کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے تعلق سے بدھ پانچ اگست کو سلامتی کاونسل ارکان کی توجہ خطے کی جانب مبذول کرائی۔ گزشتہ برس پانچ اگست کو ہی بھارت نے کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی اختیارات منسوخ کر دیئے تھے اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ چین نے اسی موقع کی مناسبت سے سکیورٹی کاؤنسل میں کشمیر کی صورت حال کا ذکر کیا۔
گزشتہ ایک برس میں یہ تیسرا موقع تھا جب سکیورٹی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ اجاگر کیا گیا تاہم پہلے کی طرح اس بار کسی خاص قرارداد پر نہ تو بحث ہوئی اور نہ ہی کوئی ایسی قرار داد منظور کی گئی۔ اس موقع پر چینی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیر میں پانچ اگست کے تعلق سے بھارتی اقدامات ”غیر قانونی اور پوری طرح سے غلط ہیں۔”
بیجنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے کہا، خطہ کشمیر کے حالات پر کشمیر کی قریبی نظر ہے۔ کشمیر کے تعلق سے ہمارا موقف مستقل اور واضح ہے۔ پہلا تو یہ کہ یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل کی مختلف قراردادوں اور دو طرفہ معاہدوں کے حساب سے بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک تاریخی تنازعہ ہے۔ دوسرا یہ کہ خطہ کشمیر میں کسی جانب سے یکطرفہ تبدیلی غیر قانونی اور غلط ہے۔ تیسرے یہ کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق فریقین کے درمیان صلاح و مشورے، بات چیت اور پرامن انداز میں مناسب طریقے سے اسے حل کیا جا نا چاہیے۔”
نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ نے چین کے ان بیانات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تعبیر کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا، ”ہم نے اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ چین نے سکیورٹی کونسل میں کشمیر پر بحث کا آغاز کیا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ چین نے اس موضوع کو چھیڑا ہے جس کا تعلق بھارت کے داخلی امور سے ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی کوششوں کو عالمی برادری کی جانب سے کوئی بہت زیادہ حمایت نہیں ملی ہے۔”
اس دوران جینوا میں انسانی حقوق کے ماہرین نے بھارت اور عالمی برادری سے کشمیر میں خوفناک اور بگڑتی ہوئی انسانی حقوق کی صورت حال پر فوری اقدامت کرنے کو کہا ہے۔ ماہرین نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ اگر “بھارت کشمیر کی صورتحال کو درست کرنے، تاریخی اور حالیہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفتیش اور تشدد کو روکنے کے لیے فوری طور پر اقدمات کر کے اپنے فرائض پورے نہیں کرتا ہے تو پھر عالمی برادری کو آگے بڑھانا ہوگا۔”
کشمیر میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے ان اقدامات کا اثر یہ ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر ایک بار پھر اجاگر ہوا ہے۔ انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن امروز پرویز کہتے ہیں کہ ” کشمیروں کے لیے یہ برس ہولناکیوں سے پر رہا ہے تاہم اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کافی ہائی لائٹ بھی ہوا ہے۔”
ایک اور سرکردہ کارکن خرم پرویز کشمیر سے متعلق سکیورٹی کونسل میں بات چیت کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ یہاں کی خراب ہوتی صورتحال کا عکاس ہے۔
کشیمر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی سمیت متعدد لیڈران ابھی تک نظر بند ہیں ۔ لمبے عرصے تک سابق وزیر اعلی فاروق عبد اللہ اور عمر عبداللہ کو بھی نظر بند رکھا گیا تھا ۔