کامن سِول کوڈ:شریعت، دستور اور قومی مصالح کی روشنی میں!

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ہندوستان میں جس وقت انگریزوں کے خلاف جدو جہد جاری تھی اور ہندوستان کے تمام شہری اس بدیشی دشمن کے خلاف سیسہ کی دیوار بنے ہوئے تھے ، اس وقت فکر و نظر ، تہذیب ، قومی مفادات ، زبان ، نسل اور جغرافیائی تعلق میں تفاوت کے باوجود جو چیز ان سب کو سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار بنائے ہوئی تھی ، وہ یہی تصور تھا کہ آزادی کے بعد یہ ملک سیکولرزم کی راہ پر چلے گا ، ہر مذہب ، ہر تہذیب اور ہر جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی انفرادی زندگی میں آزادی حاصل ہوگی ، مسلمان جو مذہبی اعتبار سے زیادہ باحمیت واقع ہوئے ہیں ، ممکن نہ تھا کہ وہ اس تیقن کے بغیر اس لڑائی میں شریک ہوتے ، آزادی سے پہلے ہمیشہ ’ قومی لیڈران ‘ مسلم پرسنل لا کے تحفظ اور اس میں عدم مداخلت کا یقین دلاتے رہے ، مہاتما گاندھی جی نے خود بھی گول میز کانفرنس لندن ۱۹۳۱ء میں پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ کہا تھا: ’’مسلم پرسنل لا کو کسی بھی قانون کے ذریعہ چھیڑا نہیں جائے گا ‘‘ ۔۔۔ جنگ آزادی کے سالار مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے فرمایا :
نہ تو کانگریس ہی کا یہ مقصد ہے اور نہ مسلمان ہی اس مقصد سے قیامت تک متفق ہوسکتے ہیں کہ ہندوستان سے مسلم کلچر ، مسلم تہذیب اور مسلم خصائص ختم ہوجائیں اور وہ ہندستان کی متحدہ قومیت میں جذب ہوکر جرمن یا انگریز قوم کی طرح ہندوستانی قوم کے سوا کچھ نہ رہیں ۔
۱۹۳۸ء میں ہری پور میں کانگریس نے اعلان کیا : ’’ اکثریت کی طرف سے مسلم پرسنل لا میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی ‘‘ پھر ۱۹۳۷ء میں ’’ شریعت اپلی کیشن ایکٹ ‘‘ پاس ہوا ، جس نے زیادہ صراحت کے ساتھ مسلم پرسنل لا کو آئین کا حصہ بنا دیا۔
پھر آزادی حاصل ہونے کے بعد جب ہندوستان کا دستور بنا ، تو قانون کے سب سے اہم حصہ ’ بنیادی حقوق ‘ کی فہرست میں ایسی دفعات بھی رکھی گئیں ، جن سے ’’ مسلم پرسنل لا ‘‘ کی حفاظت ہوتی ہے ، دستور ہند کی آرٹیکل ۲۵ میں مذہبی قوانین کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے ؛ چنانچہ دفعہ ۲۵ کا ترجمہ حسب ذیل ہے :
۲۵ (۱) : پبلک آرڈر ، اخلاقیات ، صحت عامہ نیز باب :۳ میں دی ہوئی دیگر دفعات کے تابع ہر شہری کو مذہبی عقائد پر قائم رہنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کی اجازت ہوگی ۔
دفعہ ۲۵ میں دی گئی مذہبی اُمور کی اس ضمانت سے مذہبی رسوم اور ہندوؤں میں اچھوتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو مستثنیٰ کرنے کی غرض سے دو اور تشریحی دفعات بڑھا دی گئیں ، جو حسب ذیل ہیں :
۲۵(۲) ( الف )کسی اقتصادی ، مالی ، سیاسی یا دیگر سیکولر مسئلہ میں جس کا تعلق مذہبی رسم سے ہو ، پابندی عائد کرنا یا اسے ریگولیٹ کرنا ۔
۲۵ (۲) (ب) سوشیل ریفارم کی خاطر پبلک ہندو اداروں کے دروازے تمام ہندوؤں کے لئے کھولنے کے سلسلہ میں اقدام کرنا ۔
اس سے معلوم ہوا کہ ’ مذہبی اُمور ‘ میں حکومت بالکل دخل انداز نہ ہوگی ، ہاں اس سے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ کوئی چیز اصلاً مذہبی ہونے کے بجائے کسی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان ایک رسم کے طورپر مروج ہو ، مثلاً : جہیز ، تلک وغیرہ ، اس میں حکومت مداخلت کرکے ظلم کی روک تھام کرسکے گی ، دوسرے : ’’ اچھوتوں ‘‘ کے سلسلے میں جو امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے ، اس کا سد باب کرے گی اور وہ مذہبی حق متصور نہ ہوگا ۔
پھر ان ’’ بنیادی حقوق ‘‘ کو ناقابل تنسیخ بنانے کے لئے دستور کی آرٹیکل ۱۳ (۲) میں یہ بات صاف کردی گئی کہ حکومت کو ئی ایسا قانون نہیں بناسکتی ، جو باب :۳ میں دیئے ہوئے بنیادی حقوق کے خلاف ہو ، یا اس میں کمی کرے ۔۔۔ اس طرح مسلم پرسنل لا کا تحفظ ( جس کا تعلق مسلمانوں کے رسوم و رواج سے نہیں ہے ؛ بلکہ ان کے اعتقادات اور اسلامی تعلیمات کی بنیادوں ۔۔۔ قرآن و حدیث ۔۔۔سے ہے ) نہ صرف مسلمانوں کا بنیادی حق قرار پایا ؛ بلکہ ناقابل تنسیخ ٹھہرا۔
اس بنیادی حق کے ساتھ ملک کے لئے جو ’ رہنما اُصول ‘ وضع کئے گئے ، اس کی دفعہ (۴۴) یوں رکھی گئی : ’’ (۴۴) ریاست کوشش کرے گی کہ پورے ملک میں شہریوں کے لئے یکساں شہری قانون ہو‘‘ ظاہر ہے یہ دفعہ ، دفعہ (۲۵) سے متصادم ہے ، دفعہ ۲۵ کا تقاضا ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے ان کے مذہب کے مطابق قوانین ہوں ، جب کہ یہ دفعہ سب کے لئے یکساں قانون وضع کرنے کی متقاضی ہے اور اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت کبھی بھی مسلم پرسنل لا یا کسی دوسرے ’’ مذہبی پرسنل لا ‘‘ پر دست درازی کرسکتی ہے ۔
چنانچہ اس دفعہ پر مختلف مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ جناب محمد اسماعیل صاحب ، جناب بی ، پوکر صاحب ، جناب نظیر الدین الدین احمد صاحب اور جناب محبوب علی بیگ صاحب نے تنقید کی اور اس سے مسلم پرسنل لا کو مستثنیٰ رکھنے کا مطالبہ کیا ، جناب نظیر الدین صاحب نے کہا :
انگریز ۱۷۵ برس میں جو نہ کرسکے ، یا جس کے کرنے سے گھبراتے رہے ، اسی طرح مسلمانوں نے ۵۰۰ سالہ دورِ حکومت میں جو کچھ کرنے کی ہمت نہیں کی، ہمیں ریاستوں کو اتنا اختیار نہ دینا چاہئے کہ وہ سب کچھ بیک وقت کر گزریں۔
مگر ڈاکٹر امبیڈکر ( چیرمین دستور ساز اسمبلی) نے ایک نہ سنی ؛ البتہ مسلمانوں کو تسلی دینے کے لئے کہا :
کوئی حکومت اپنے اختیارات کو اس طرح استعمال کرکے مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ نہیں کرسکتی ، میرے خیال میں اگر کسی نے ایسا کیا تو ایسی حکومت پاگل ہی ہوگی ، مگر یہ معاملہ اختیارات کے استعمال کا ہے نہ کہ بذات خود اختیارات کا ۔
رہنما اُصول کی یہی دفعہ ہے جس کے بطن سے ’’ یکساں سول کوڈ ‘‘ کا فتنہ پھوٹا ہے اور جس کی صدائے بازگشت سننے میں آتی رہتی ہے ۔
دستور کی ان دونوں دفعات میں تعارض اس لئے پیدا ہورہا ہے کہ دفعہ (۴۴) کا تعلق مذہبی قوانین سے جوڑا جارہا ہے ؛ حالاں کہ اس کا تعلق دراصل دفعہ (۲۵) کی اس استثنائی دفعہ سے تھا ، جس میں کہا گیا ہے کہ ’ مذہبی رسوم ‘ جن کی مذہب میں کوئی اصل نہ ہو ، حکومت کی مداخلت سے ماورا نہیں ہوں گے ، گویا غیر مذہبی اُمور میں ریاستوں کو دفعہ ۴۴ کے ذریعہ ’’ یکساں قانون سازی ‘‘ کا اختیار دیا گیا تھا ۔
چنانچہ ممبئی ہائی کوٹ کے بینچ نے ۔۔۔جو جناب عبد الکریم چھاگلا اور جناب گجندر گدکر پر مشتمل تھا ۔۔۔ مقدمہ بنام تارا سواماپالی میں دفعہ (۴۴) کے حدود پر مفصل رولنگ دی تھی ، اس کا ایک اقتباس حسب ذیل ہے :
مذہبی رسوم ، پبلک آرڈر ، اخلاقیات ، صحت عامہ ، نیز سماجی بہبود کے خلاف ہو تو ایسے رسوم کو مفاد عامہ کے پیش نظر پس پشت ڈالا جاسکتا ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ مفاد عامہ (جس میں یکساں سول کوڈ کو داخل کیا جارہاہے ) کو جس چیز پر ترجیح حاصل ہے ، وہ مذہبی رسوم ہیں ، نہ کہ مذہبی اعتقاد اور مذہبی اعتقاد کے سرچشمہ سے پھوٹنے والے قوانین ۔
اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ’’ رہنما اُصول ‘‘ کی دفعہ (۴۴) کا تعلق مذہبی قوانین سے بھی ہے اور اس کے ذریعہ ریاستوں کو مذہبی معاملات میں بھی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا اختیار دیا گیا ہے تو بھی ’’ مسلم پرسنل لا ‘‘ کا قانونی موقف کافی مضبوط رہتا ہے ، اس لئے کہ بنیادی حقوق کی حیثیت دستور کی روح اور بنیاد کی ہے ، جب کہ ’’ رہنمااُصول ‘‘ کی حیثیت محض ایک اخلاقی ہدایت کی ہے ، بنیادی حقوق کی اس اولیت اور اہمیت کو اکثر ماہرین قانون کے علاوہ ملک کے قائدین نے بھی تسلیم کیا ہے ؛ چنانچہ آنجہانی جناب جواہر لال نہرو ، سابق وزیر اعظم ہند نے ’’بنیادی حقوق ‘‘ کی رپورٹ پر بیان دیتے ہوئے کہا :
بنیادی حق کو کسی وقتی دشواری کے تحت نہ دیکھنا چاہئے؛ بلکہ اس نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہئے کہ آپ اسے دستور میں مستقل مقام دے رہے ہیں ، بنیادی حقوق کے علاوہ دوسرے اُمور کو خواہ وہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں ، اس نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہئے کہ وہ عارضی ہیں ۔
اس لئے اگر ان دونوں دفعات کے درمیان تعارض تسلیم کرلیا جائے تو بھی مسلم پرسنل لا کے تحفظ کا تعلق چوں کہ ’’ بنیادی حقوق ‘‘ سے ہے ، اس لئے وہ مقدم ہے اور قابل ترجیح ہے ۔
اب اس پس منظر میں لاء کمیشن کے اس سوال نامہ پر غور کیجئے جس کا مقصد یکساں سول کوڈ کے لئے راستہ نکالنا ہے، اس سوال نامہ کا مضمون خود کمیشن کی بددیانتی کا مظہر اور وہ کہتا ہے کہ یکساں سول کوڈ کے حق میں جواب دیا جائے، اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ حکومت کے اشارہ پر ہورہا ہے، حکومت کے اقلیت دشمن جذبات کا اظہار تو خود اس بیان سے ہوگیا جو اس نے طلقات ثلاثہ اور تعدد ازدواج کے سلسلہ میں پچھلے دنوں سپریم کورٹ میں داخل کیا ہے، جو حکومت اکثریت کے مذہبی تصورات کو اس قدر فروغ دے رہی ہے کہ لوگوں کو گائے کا پیشاب پلانے اور گوبر کھلانے کے لئے بھی بالواسطہ طور پر تیار ہے اور اس پر پوری دنیا وطن عزیز کا مذاق اڑا رہی ہے، لیکن مسلمانوں کے مذہبی تشخصات ان کے آنکھوں میں چبھ رہی ہیں۔
ہمارے ملک کی معزز عدالتوں کا بھی یہ حال ہے کہ وہ اپنے افکار ، اپنے جذبات اور سماجی زندگی سے متعلق اپنے تصورات کو قانون پر فوقیت دینے لگی ہیں ، اسی کا نتیجہ ہے کہ عدالتیں کبھی از خود طلاق اور تعدد ازواج کے مسئلہ کو اُٹھاتی ہے ، کبھی نفقۂ مطلقہ کے مسئلہ کو اور بار بار حکومت کو یکساں سول کوڈ کے سلسلہ میں یاد دلاتی ہیں ، کبھی عدالت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ مسلم خواتین کی بے آبروئی کے قضیہ کو اُٹھائے اور حکومت کو اس کی ذمہ داری یاد دلائے ، مطلقہ سے زیادہ دشوار صورت حال بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی ہوتی ہے ، عدلیہ کو خیال نہیں ہوا کہ وہ فسادات میں بیوہ اور یتیم ہوجانے والے سینکڑوں ؛ بلکہ ہزاروں عورتوں اور بچوں کے سلسلہ میں حکومت کو ان کی ذمہ داری یاد دلائے اور مجرموں کے خلاف قدم اُٹھائے ، مسلم عورت کی پسماندگی کا اصل سبب طلاق نہیں ہے ؛ بلکہ مسلمانوں کی بے روزگاری ہے ، عدلیہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اس مظلوم طبقہ کو روز گار کے مواقع دیئے جائیں ، عورتوں کے لئے سب سے تکلیف دہ صورت حال ان کے شوہروں اور گھر کے مردوں کی نشہ خوری سے پیدا ہوتی ہے اوررہنما اُصول میں یہ بات بھی موجود ہے کہ ملک میں مکمل نشہ بندی ہونی چاہئے ؛ لیکن اس کے بارے میں نہ حکومت سوچتی ہے ، نہ عدلیہ ہدایت دیتی ہے ، نہ دانشوروں میں کوئی فکر پیدا ہوتی ہے ؛ حالاں کہ طلاق کے واقعات کا پیش آنا بہت ہی بُری بات ہے ؛ لیکن مسلم معاشرہ میں اس کا تناسب ہندوؤں سے کم ہے اور بہت سی طلاقیں بیوی کے مطالبہ یا اس کی رضامندی سے ہوتی ہیں اور زیادہ تر حالات میں عورت طلاق کے بعد بے سہارا نہیں ہوتی ، اس کے والد ، بیٹے ، بیٹیاں اور بھائی ، بہن اس کی کفالت کرتے ہیں ؛ لیکن عدالت کی ساری توجہ اسی ایک مسئلہ پر ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ ’یونیفارم سول کوڈ ‘ مختلف وجوہ سے ہمارے ملک کے لئے مناسب نہیں ہے ، ایک تو اس سے اقلیتوں کے مذہبی حقوق متاثر ہوں گے ، جو دستور کی بنیادی روح کے خلاف ہے ، دوسرے : یکساں قانون ایسے ملک کے لئے تو مناسب ہوسکتا ہے ، جس میں ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہوں ، ہندوستان ایک تکثیری سماج کا حامل ملک ہے ، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں ، کثرت میں وحدت ہی اس کا اصل حسن اور اس کی پہچان ہے ، ایسے ملک کے لئے یکساں عائلی قوانین قابل عمل نہیں ہیں ، تیسرے : مذہب سے انسان کی وابستگی بہت گہری ہوتی ہے ، کوئی بھی سچا مذہبی شخص اپنا نقصان تو برداشت کرسکتا ہے ؛ لیکن مذہب پر آنچ کو برداشت نہیں کرسکتا ؛ اس لئے اگر کسی طبقہ کے مذہبی قوانین پر خط نسخ پھیرنے اوراس پر خود ساختہ قانون مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی تو اس سے مایوسی کے احساسات اور بغاوت کے جذبات پیدا ہوں گے اور یہ ملک کی سالمیت کے لئے نقصان دہ ہے ، ہمارے سامنے ناگاؤں اور میزؤوں کی واضح مثال موجود ہے کہ انھوں نے اس کے بغیر عَلَم بغاوت کو نہیں جھکایا کہ ان کو کچھ خصوصی رعایتیں دی جائیں ، جن میں ان کے لئے اپنے قبائلی قانون پر عمل کرنے کی آزادی بھی شامل ہے ؛ اس لئے حقیقت یہ ہے کہ مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قوانین پر عمل کی اجازت دینا ملک کے مفاد میں ہے ، اس سے قومی یکجہتی پروان چڑھے گی ، نہ یہ کہ اس کو نقصان پہنچے گا ۔
مسلمانوں کو تو یونیفارم سول کوڈ پر اعتراض ہے ہی ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو عملی طورپر خود اکثریتی فرقہ بھی اس کو قبول نہیں کرے گا ، ہندوؤں کی مختلف ذاتیں ہیں اور نکاح وغیرہ کے سلسلہ میں ان کے الگ الگ طریقے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ ملک کے سارے ہندوؤں کا ایک ہی طریقہ ہو ، حد تو یہ ہے کہ وہ اپنے بنیادی عقائد اور عبادات کی باتوں میں بھی یکساں نہیں ہیں ، کوئی مورتی پوجا کا قائل نہیں ہے ، کوئی قائل ہے ، کوئی راون کو بُرا بھلا کہتا اور رام کو پوجتا ہے ، کوئی رام کو بُرا بھلا کہتا ہے اور راون کی پرستش کرتا ہے ، خود نکاح کے سلسلہ میں دیکھیں کہ شمالی ہند میں ماموں اور بھانجی کے درمیان نکاح کا تصور نہیں؛ لیکن جنوبی ہند میں بہن کا اپنے بھائی پر حق سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس کی بیٹی سے نکاح کرلے ، قبائلیوں کے یہاں خاندانی رسم و رواج بالکل مختلف ہیں، آج بھی بعض قبائل میں ایک مرد ایک درجن سے زائد عورت سے نکاح کرسکتا ہے ، یہاں تک کہ ابھی بھی ایسی رسمیں پائی جاتی ہیں کہ ایک عورت ایک سے زیادہ مرد کے نکاح میں ہوتی ہے ، جس ملک میں مذاہب اورتہذیبوں کا اس قدر تنوع پایا جاتا ہو ، وہاں ایک ہی قانون تمام گروہوں کے لئے کیسے مناسب ہوسکتا ہے ؟
جو لوگ یکساں سول کوڈ کے وکیل ہیں، وہ بنیادی طورپر دو باتیں کہتے ہیں: ایک یہ کہ اس سے قومی یکجہتی پیدا ہوگی ، دوسرے : جب یورپ میں تمام قوموں کے لئے یکساں قانون ہوسکتا ہے تو ہندوستان میں کیوں نہیں ہوسکتا ؛ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں، قانون سے قومی یکجہتی پیدا نہیں ہوتی، قومی یکجہتی، رواداری، تحمل اور ایک دوسرے کے معاملہ میں عدم مداخلت سے پیدا ہوتی ہے، دنیا کی دونوں جنگ عظیم بنیادی طورپر ایسی دو قوموں کے درمیان ہوئی ہے ، جن کا مذہب ایک تھا، جن کی تہذیب ایک تھی، جن کا قانون اور طرز زندگی ایک تھا، یہ ساری وحدتیں جنگ کو روکنے اور قومی وحدت پیدا کرنے میں ناکام رہیں، خود مسلم ممالک میں دیکھئے کہ عراق و ایران ، شام و افغانستان کے مختلف گروہوں کے درمیان اس کے باوجود جنگیں ہورہی ہیں کہ وہ بنیادی طورپر ایک ہی مذہب اور ایک ہی قانون کی حامل ہیں، ہندوستان ہی کو دیکھئے کہ یہاں مختلف راجاؤں کے درمیان جنگوں کی ایک طویل تاریخ ہے ، یہ سب ایک ہی طریقہ زندگی پر چلنے والے لوگ تھے ؛ لیکن یہ وحدت ان کو جوڑ نہیں پائی اور آج بھی فرقہ وارانہ فسادات اس لئے نہیں ہوتے کہ مسلمانوں کا معاشرتی قانون الگ ہے اور ہندوؤں کے خاندانی رسوم و رواجات الگ ہیں؛ بلکہ اس کے برعکس مذہبی قانون سے ہٹ کر جب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں دام محبت میں گرفتار ہوکر بین مذہبی شادی رچاتے ہیں تو اس سے فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہوتا ہے اور قومی یکجہتی پارہ پارہ ہوجاتی ہے ؛ اس لئے یہ سوچنا قطعاً غلط ہے کہ قانون کی وحدت کی وجہ سے قومی یکجہتی پیدا ہوگی ، ویسے بھی عائلی زندگی کے علاوہ تمام قوانین میں پہلے سے یکسانیت موجود ہے ؛ لیکن کیا یہ یکسانیت قومی اتحاد کو برقرار رکھنے میں کافی ثابت ہورہی ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ قومی یکجہتی اس بات سے پیدا ہوگی کہ ہر گروہ کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنی تہذیب کو پروان چڑھانے کا موقع دیا جائے ، اس سے ہرگروہ میں اطمینان ہوگا ، وہ محسوس کریں گے کہ وہ اس ملک میں برابر کے شہری ہیں ، اس سے حب الوطنی میں اضافہ ہوگا ، احساس محرومی ختم ہوگا ، بھائی چارہ کا ماحول پیدا ہوگا اور یہی قومی یکجہتی ہے ، ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہر چیز میں یکسانیت اور وحدت پیدا کرنا ممکن نہیں ہے ، اگر آپ قانون ایک کر بھی دیں تو ملک میں جو مختلف تہذیبی اور ثقافتی گروہ ہیں ، جن کے لباس و پوشاک ، رہن سہن ، خوشی وغم کے اظہار کے طریقے ، زندگی گزارنے کے انداز ، سماجی رسوم ورواجات الگ الگ ہیں اور اس کی جڑیں ان کے مذہب ، موسم ، جغرافیائی محل وقوع ، خاندانی روایات اور نسلی خصوصیات میں پیوست ہیں ، کیا ان کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے ؟ پھر یہ بات قابل غور ہے کہ مذہب ، تہذیب اور زبان کا یہ تنوع کوئی عیب ہے یا یہ اس ملک کا حسن ہے ؟ گلاب کا ایک پھول بھلا لگتا ہے یا مختلف پھولوں کا گلدستہ ؟ پھول کا ایک پودا خوبصورت نظر آتا ہے ، یا طرح طرح کے پودوں پر مشتمل پھلواری ؟ ظاہر ہے کہ جو خوبصورتی اس تنوع میں ہے ، وہ خوبصورتی اس وحدت میں پیدا نہیں ہوسکتی ، جس کے پیچھے جبر اور دباؤ کا دخل ہو ، ہندوستان کو اس کے معماروں نے گلدستہ بنایا ہے نہ کہ ایک پھول ، اس ملک کے سینچنے والوں نے اس کو نوع بہ نوع درختوں کا ایک باغ سدا بہار بنایا ہے نہ کہ صرف ایک ہی طرح کے درختوں کا باغیچہ ، اس کے بنانے والوں کے ذہن میں تھا کہ یہ ملک ایک چراغ ہمہ رنگ ہو ، یہی ہمہ رنگی اس کا حسن اور یہی تنوع اس کی پہچان ہے ۔
یورپ کی جو مثال ہندوستان کے لئے پیش کی جاتی ہے ، وہ بالکل بے محل ہے ، ہندوستان اتنا وسیع ملک ہے کہ پورا یورپ اس کے ایک حصہ میں سماج جائے ، اور ہندوستان کی آبادی اتنی کثیر ہے کہ شاید پورا یورپ مل کر بھی اس کی ہمسری نہ کرسکے؛ اگر اس معاملہ میں ہم کو دوسرے ملک کو مثال بنانا ہی ہے تو امریکہ کو بنانا چاہئے، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی جمہوریت ہے اور ہندوستان ہی کی طرح ایک ملٹی کلچر معاشرہ ہے، یہاں پر ریاست میں الگ الگ پرسنل لاء نافذ ہے، یہاں تک اگر ایک ایسی ریاست کا شہری دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے جہاں دوسری شادی کی اجازت نہیں تو وہ دوسری ایسی ریاست میں جاکر دوسری شادی کرتا ہے جہاں اس کی ممانعت نہیں ہے۔
اس لئے ہندوستان جیسے ملک کی سالمیت اور قومی یکجہتی اسی بات میں مضمر ہے کہ اس میں تنوع کو برقرار رکھا جائے اور ایسی وحدت پر زور نہ دیا جائے ، جو اتحاد کو پارہ پارہ کرکے رکھ دے ۔۔۔ مشرقی ملکوں اور مغربی ملکوں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ مغرب میں لوگوں کا مذہب سے سنجیدہ اور جذباتی تعلق نہیں ہے ؛ ان کے یہاں ایک دو تیوہاروں کے سوا مذہب سے زندگی کا کوئی رشتہ باقی نہیں رہا ، مردم شماری کے ریکارڈ میں صرف خاندانی روایت کے طورپر کسی مذہب کا نام لکھا دیا جاتا ہے ؛ اس لئے مذہبی قوانین کے ختم کئے جانے پر ان کا کوئی رد عمل نہیں ہوتا اور یہ دراصل چرچوں کے ظالمانہ رویہ کے خلاف عوام کی بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے قید آزادی کا نتیجہ ہے ، جس کی ایک کڑوی تاریخ ہے ، ہندوستان کی یہ صورت حال نہیں ہے ، ہندوستان میں بسنے والے لوگ مذہب سے جذباتی تعلق رکھتے ہیں ؛ اسی لئے جب ۱۹۵۶ء میں ہندوؤں کے لئے باضابطہ قانون بنا تو خود صدر جمہوریہ ڈاکٹر راجندر پرشاد اس سے دل برداشتہ تھے ، اور اسی لئے ہندوؤں سے متعلق قوانین میں ہر جگہ اس بات کو شامل کرنا پڑا کہ اگر کہیں مقامی رسم و رواج اس کے خلاف ہو تو اس کو ترجیح ہوگی۔
یکساں سول کوڈ کے حق میں ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور سیکولر ملک میں مذہبی قوانین کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔۔۔ یہ بھی محض غلط فہمی ہے ، سیکولرازم کا کوئی ایک مفہوم متعین نہیں ہے ؛ بلکہ مختلف ملکوں میں وہاں کے حالات اور مصالح کے لحاظ سے اس کامفہوم متعین کیا گیا ہے ، سیکولرازم کا ایک مفہوم وہ ہے ، جو فرانس نے اختیار کیا ہے ، جس کی بنیاد مذہب کی مخالفت پر ہے ، جو چاہتا ہے کہ کوئی مذہبی شناخت باقی نہ رہے تو بہتر ہے ، جو اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ انسان اپنی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں مذہبی ہدایات پر عمل کرے ، سیکولرازم کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہ ہو ، سرکاری طورپر کسی خاص مذہب کی پشت پناہی نہ ہو ؛ لیکن ملک کے ہر شہری کو اپنی نجی زندگی میں مذہب پر عمل کرنے کی گنجائش ہو ، بیشتر مغربی ممالک میں اسی مفہوم کے اعتبار سے سیکولرازم کو اختیار کیا گیا ہے اور ہندوستان میں بھی اسی کو برتا گیا ہے ، نیز اسی کے مطابق دستور کی تدوین عمل میں آئی ہے ؛ اس لئے یہ بات بالکل بے محل ہے کہ چوں کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے ؛ اس لئے یہاں عائلی زندگی سے متعلق مذہبی قوانین کی گنجائش نہیں ۔
یہ بات بھی بہت عجیب لگتی ہے کہ بی ، جے ، پی نے یونیفارم سول کوڈ کو اپنے ایجنڈے میں رکھا ہے ، یہ فرقہ پرست پارٹی بنیادی طورپر برہمنی فکر کی نمائندہ ہے اور آر ، ایس ، ایس ، کا سیاسی بازو ہے ، جو ہندوستان میں ’ منوواد ‘ کو واپس لانا چاہتی ہے ، یہ اپنے آپ کو ہندوؤں کے حقوق کا محافظ قرار دیتی ہے ، اگر اس نے ایسے مسائل کو اپنی فہرست میں رکھا ہے ، جن میں ہندوؤں اور دوسری اقلیتوں کے مفادات میں ٹکراؤ ہو ، یا جن کا مقصد ہندوؤں کی بالا دستی قائم رکھنا ہو تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے ؛ لیکن مسلم پرسنل لا کا مسئلہ مسلمانوں کا آپسی مسئلہ ہے ، اگر اس پر مسلمان عمل کریں تو اس سے ہندوؤں کو نہ فائدہ ہے نہ نقصان ؛ بلکہ ایک طرح سے فائدہ ہے کہ مسلم پرسنل لا کے تحت مسلمان اور ہندو کے درمیان رشتہ نکاح قائم نہیں ہوسکتا ، اس طرح وہ بات پیش نہیں آئے گی ، جس سے یہ حضرات خوفزدہ ہیں اور جس کو غلط طریقہ سے انھوں نے ’’ لَوْجہاد ‘‘ کا نام دے رکھا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سے نفرت اور اقلیتوں کے ساتھ ظلم و ناانصافی کے سوا اس کا کوئی اور محرک نہیں ہوسکتا ۔
اور صرف بی ، جے ، پی کا رونا کیوں کر رویا جائے ؟ افسوس تو انگلی پر گنے جانے والے ان چند نام نہاد مسلمانوں پر ہے ، جو فرقہ پرست اوراسلام دشمن عناصر کا آلۂ کار بن کر مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں ، میں ان کی محبوری سے اچھی طرح واقف ہوں ، وہ دراصل اپنی بے روزگاری کا حل نکالنا چاہتے ہیں ؛ کیوں کہ جو لوگ صلاحیت کی بناپر نہیں ؛ بلکہ خوشامد کی بناپر سرکاری مناصب حاصل کرتے ہیں ، وہ چاہے عمر کے کسی مرحلہ میں ہوں، اس سے محروم ہوکر بے قرار ہوجاتے ہیں ، کیا کہا جائے کہ اس وقت ہر چیز کی قیمت بڑھتی جارہی ہے ، انسان اپنی ضروریاتِ زندگی خریدنے سے عاجز ہوتا جارہا ہے؛ لیکن ایک چیز ہے جو سستی ہوتی جارہی ہے، سستی سے سستی اور ارزاں سے ارزاں تر، اور وہ ہے کچھ لوگوں کا ضمیر، یہ ضمیر کے سوداگر ہیں اور کوڑیوں میں اپنا مال بیچتے ہیں، ان کے لئے ہدایت ہی کی دُعا کی جاسکتی ہے۔ وباﷲ التوفیق وھو المستعان (ملت ٹائمز)