عالمی شہرت یافتہ شاعر راحت اندوریؔ کا کورونا کے علاج کے دوران انتقال

مشاعرہ لوٹ لینے کی صلاحیت رکھنے والے 70 سالہ شاعر راحت اندوری کا اندور کے اسپتال میں کورونا کا علاج چل رہا تھا
اندور: اردو ادب کے استاد اور معروف شاعر راحت اندوری بدھ کے روز انتقال کر گئے۔ راحت اندوری کووڈ-19 میں مبتلا تھے اور انہوں نے منگل کے روز ہی اس کی اطلاع دی تھی۔ مشاعرہ لوٹ لینے کی صلاحیت رکھنے والے 70 سالہ شاعر راحت اندوری کا اندور کے اسپتال میں علاج چل رہا تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق دوران علاج انہیں دو مرتبہ دل کا دورہ پڑا اور اس کے بعد وہ زندگی کی جنگ ہار گئے۔
اندور کے کلکٹر نے راحت اندوری کے انتقال کی تصدیق کی۔ مداحوں میں ’راحت صاحب‘ کے نام سے مشہور راحت اندوری کا انتقال ادبی دنیا کے لئے عظیم خسارہ ہے۔ ضلع مجسٹریٹ منیش سنگھ نے بتایا، ’’کووڈ 19 کے انفیکشن میں مبتلا اندوری کا اربندو انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (سیمس) میں دوران علاج انتقال ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اندوری دل کے عارضہ، گردے کی تکلیل اور ذیابطیس جیسی بیماریوں میں مبتلا تھے۔
ٹویٹر پر اپنے آخری ٹوئٹ میں راحت اندوری نے مداحوں کو کورونا ٹیسٹ مثبت آنے اور اسپتال میں داخل ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے دعائے صحت کی اپیل تھی۔ انہوں نے لکھا تھا کہ وہ اپنی صحت کے بارے میں ٹوئٹر پر ہی آگاہ کرتے رہیں گے تاہم اجل نے مہلت نہ دی۔
راحت اندوری کے انتقال کی تصدیق ان کے ٹوئٹر ہینڈل سے بھی کر دی گئی ہے۔ ان کے ہینڈل سے کئے گئے ٹوئٹ میں لکھا گ، ’’راحت صاحب کا دورہ قلب کے پڑنے سے شام 5 بجے انتقال ہو گیا ہے… ان کی مغفرت کے لئے دعا کیجئے۔‘‘

راحت اندوری کی غزلیں اور نظمیں زبان زد عام تھیں اور انہیں پاک و ہند میں یکساں مقبولیت حاصل تھیں ان کا یہ شعر سیاست دانوں میں کافی مقبول تھا اور انتخابی جلسوں کی رونق ہوا کرتا تھا۔

سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
راحت اندوری نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کیا تھا اور مقامی کالج میں درس تدریس سے وابستہ رہے۔ راحت اندوری ایک مصور بھی تھے اور شاعری کے علاوہ فلموں کے لیے گیت بھی لکھے۔ ممتاز شاعر کے انتقال ہر اعلیٰ حکومتی حکام، ادبی شخصیات اور شوبز ستاروں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کے دنیا سے چلے جانے کو علم و ادب کا بڑا نقصان قرار دیا۔