جمہوریت میں تشدد کی کوئی جگہ نہیں، گاندھیائی راستہ سب سے موزوں: امپار ہیومن چین بنا کر مندر کی حفاظت کرنے والے مسلم نوجوان قابل مبارکباد، قابل اعتراض پوسٹ پر قانون کا سہارا لیں لوگ

نئی دہلی: 11 اگست کو بنگلور میں ہونے والے تشدد پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے انڈین مسلمس فار پروگریس اینڈ ریفارمس (امپار) نے کہا ہے کہ جمہوریت میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ امپار نے کہا ہے کہ 11 اگست کو ، نبی حضرت محمدﷺ کے خلاف ، پلکشی نگر ، بنگلور کے ایم ایل اے ،اکھنڈ سرینیواس مورتی کے بھتیجے نوین کی طرف سے سوشل میڈیا پر قابل اعتراض پوسٹ پر جو تنازعہ ہوا وہ شرمناک اور افسوسناک ہے ۔ عوام کو اس طرح کی کارروائی کے بجائے انتظامیہ سے بات چیت کرنی چاہئے تھی اور مجرموں کو سزا دلانے کے لئے قانونی طریقہ اختیار کرنا چاہئے تھا۔امپار نے کہا کہ تشدد کی راہ اپنانے کے نتیجے میں نہ صرف 3 افراد کی جان گئی بلکہ بہت سارے لوگ زخمی بھی ہوئے۔ پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس کی سیاسی ونگ ایس ڈی پی آئی کے مقامی رہنماؤں پر ہجوم کو بھڑکانے اور تشدد کی رہنمائی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک اور پریشان کن ہے، کیونکہ اس واقعے نے نہ صرف کرناٹک بلکہ پورے ملک میں مسلمانوں کی شبیہہ کو دھچکا پہنچا یاہے۔

اس طرح کے اشتعال انگیز مواد سوشل میڈیا پر مسلسل پوسٹ کئے جاتے ہیں اور انٹرنیٹ پر اب بھی بہت سارے مواد موجود ہیں ، جن کو ختم کرنا ناممکن ہے۔ ایسی صورتحال میں لوگوں کے پاس احتجاج کا ایک قانونی طریقہ ہے اور وہی درست ہے کیونکہ ایک ایم ایل اے کے گھر کو تباہ کرکے کسی اراکین پارلیمنٹ کے بھتیجے کی سزا کیلئے اس عمل کو جائز نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اسی طرح سرکاری املاک کو بھی تباہ کرنا درست نہیں کہا جاسکتا ۔ امپار سوشل میڈیا پر ایسی اشتعال انگیز پوسٹوں کے خلاف قانونی کارروائی کے حق میں ہے۔ تشدد کو غلط اور اس کو امن پسند لوگوں کی شبیہ کو نقصان پہنچانے والا مانتا ہے ۔
ایسی صورتحال میں ، تمام امن پسند شہریوں کو ٹھنڈے دماغ کے ساتھ آئندہ کسی بھی ایسی اشتعال انگیز کاروائی کے بارے میں سوچنا چاہئے اور قانون کے تحت کارروائی کا راستہ اپنا چاہئے ۔ امپار لوگوں سے ایسی سماجی اور سیاسی قیادت سے ہوشیار رہنے کی بھی اپیل کرتا ہے جو ان کو اپنےمقصد کی خاطر تشدد کیلئے اکساتے ہیں ۔ اقلیتوں کے ذریعہ ہونے والے انتقامی کارروائیوں اور تشدد کے نتیجے میں ان کا سخت نقصان ہوا ہے اور ہوتا ہے ۔ اس قسم کے تشدد کی وجہ سے لوگ میڈیا اور اس سے باہر سیکولر لوگوں کی ہمدردی وہ کھو دیتے ہیں۔
ایسے واقعات سیکولر لوگوں کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں جو کمزوروں کے بارے میں سوچتے ہیں اور اپنی لڑائی لڑتے ہیں۔ اس حقیقت کو یاد رکھنا ہوگا کہ ریاست کے خلاف اپنایا جانے والا تشدد کا کوئی بھی راستہ لوگوں کو گاندھی کے راستے سے دور غلط سمت کی طرف لے جائے گا ، لہذا لوگوں کو دانشمندی اور ٹھنڈے دماغ سے کام کرنا ہوگا۔ اس واقعے کے وقت ، یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ مسلم نوجوانوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر یقین رکھتے ہیں ، جنہوں نے اس طرح کے ماحول میں بھی انسانی اصولوں پر عمل پیرا ہوکر انسانی زنجیر بنا کر مندر کی حفاظت کی ۔ ایسے نوجوان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ امپار نے تشدد کا نشانہ بننے والے متاثرین کے ساتھ گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے اور کرناٹک کے تمام امن پسند شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور صورتحال کو معمول پر لانے میں اپنا کردار ادا کریں اور عہد کریں تاکہ آئندہ ایسے واقعات نہ رونما ہوں۔