سانحہ باچا خان یونیورسٹی : لہو پکارے گا آستیں کا

احوال عصر:عبد الستار اعوان
ملت ٹائمز
ایک بار پھر سانحہ اے پی ایس پشاور کی لہو رنگ تاریخ دہرا دی گئی ، ایک اور درسگاہ مقتل گاہ بنی اور باچاخان یونیورسٹی کوخون میں نہلا دیا گیا ۔ اس عظیم سانحہ پر لکھنے بیٹھا ہوں تو حالت یہ ہے کہ قلم پربھی لرزہ طاری ہے ، آنکھوں سے آنسو رواں ہیں ، ہونٹوں پر کپکپاہٹ ہے ‘ ایسے میں کیا لکھا جائے اور کن جذبات کا اظہار کیا جائے…؟ کچھ بن نہیں پڑ رہا۔اس سانحہ کو رونما ہوئے ایک ہفتہ گزر چلا مگر ابھی تک اس کے متعلق جگر چیر دینے والی تفصیلات آرہی ہیں۔ پوری دھرتی پر سوگ اور غم و اندوہ کی فضا طار ی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اے پی ایس پشاور اور باچاخان یونیورسٹی کے معصوم طلبہ کا حوصلہ جیت گیا اور بزدل دشمن مات کھا گیا ہے ۔ طلبہ ، اساتذہ جام شہادت نوش کر کے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے اور دہشت گردوں کے مقدر میں پھر وہی ذلت ‘روسیاہی اور پھٹکار لکھ دی گئی ۔
20جنوری 2016ء کی صبح نو بجے جس وقت باچا خان یونیورسٹی میں تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہوا چاہتا تھا چار دہشت گردوں نے اندر داخل ہو کر ہر طرف گولیاں برسانا شروع کر دیں جس سے بیس سے زائد افراد شہید اور لاتعداد زخمی ہوئے جبکہ فوجی کمانڈوز نے چاروں دہشت گردوں کو جہنم واصل کر دیا ۔گو اس اندوہ ناک سانحہ نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا مگر اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ا ن معصوم طلبہ نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اس بکھری ہوئی اور شکستہ قوم کو اتحاد و یگانگت کا درس دے دیا ہے ۔ شہدائے باچا خان یونیورسٹی نے ثابت کر دیا کہ اگر پوری قوم ہماری طرح متحد ہو کر دشمن کے آگے سینہ تان کر کھڑی ہوگی تبھی کامیابی ملے گی، دشمن ذلیل وخوار ہوگا ، نیست و نابود ہوگا اور اس کے مکروہ عزائم دریائے کابل یا دریائے توی کے اس پار کہیں ریزہ ریزہ ہو کر بکھرتے چلے جائیں گے ۔جب سے یہ قیامت صغری برپاہوئی مجھے چارسدہ کے طلبہ کا عزم اور حوصلہ بدستور انگشت بدنداں کئے دے رہا ہے کہ جو فوجی دستوں کے آنے سے پہلے مسلسل پچاس منٹ تک خونی دشمن سے نبرد آزما رہے اور اس کی بندوق کی نالی کو محض اپنے تازہ لہو سے ٹھنڈا کر تے رہے ۔ بلاشبہ انہوں نے شاعر کا یہ تخیل حقیقت کر دکھایا کہ ؂
ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں
تو تیغ آزما ہم جگر آزمائیں
مجھے لگتا ہے کہ زخموں سے چور چور یہ طا لب علم پوری پاکستانی قوم کو ایک ہی درس دے رہے ہیں اور وہ درس ہے عزم و حوصلے کا ، اتحاد و یقین کا ، ظالم کے آگے ڈٹ جانے کا ، جرات بے خوفی اور ولولے کا ۔ ان شہداء او رزخمیوں نے جہاں بہادری ، جاں فروشی کی تاریخ رقم کی وہیں بزدل دشمن کے درندہ صفت چہرے سے بھی نقاب الٹ ڈالا ۔ بالکل ایسے ہی جواں ہمتی کی تاریخ دہرا ئی جس طرح اے پی ایس پشاور کے پانچ پانچ ، سات سات اور دس دس سال کے بچوں نے اپنے نرم و نازک سینوں پر گولیاں کھا کر دنیا کو بتلادیا تھا کہ بہادراور عزم و ہمت کے کو ہ گراں دہشت گرد نہیں ہم ہیں۔ ہمارے نظریات بلند تر ہیں جبکہ دشمن کی سوچ انتہائی نیچ اور حرکت انتہائی رذیل تر ہے ۔ ان معصوم کلیوں نے16دسمبر2014ء اورآج پھر20جنوری2016ء کو قوم کو یہی پیغام دیا کہ دشمن کہاں کا بہادر اور کاہے کا دلیر ٹھہرا…؟ دلیر تو ہم ہیں جواپنے سے کئی گناہ زیادہ طاقتور دہشت گرد کے سامنے نہتے ہو کر بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور اس کے عزائم کو مسلسل چیلنج کرر ہے ہیں ‘اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں۔
دوسری جانب مجھے اس بات کا بھی ازحد افسوس ہے کہ ایسی انسانیت سوز کارروائیوں کو ہمیشہ مذہب اسلام اور ڈاڑھی سے جوڑا جا تا ہے جو کہ سراسر غلط اور زیادتی پر مبنی ہے ۔ ایسی گھناؤنی کارروائیوں کو اسلام پسندوں ‘مجاہدین اور جہاد جیسے عظیم فریضے سے جوڑنا خود اپنی جگہ بہت بڑا ظلم ہے ۔ مجھے چڑھتے سور ج کی طرح یقین ہے کہ مسلمانوں کے ان معصوم بچوں کا قتل عام کرنے والے اسلام کے پیرو کار ہرگزنہیں ہو سکتے ۔ٹھہریے! اور ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا یہ درندہ صفت لوگ مسلمان تو کیا انسان بھی کہلانے کے حق دار ہیں…؟ ۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے، میرا ایقان کہتا ہے کہ یہ سفاک دہشت گرد اس نبی رحمت ﷺ کے ماننے والے ہر گز نہیں جس نبی رحمت ﷺ نے حالتِ جنگ میں کافروں کے بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں کے لئے بھی رعایت کا درس خاص دیا ۔
میں16دسمبر2014ء سے اب تک ان سوچوں میں گم ہوں کہ کاش ! طرح طرح کے فرقوں/جماعتوں/دھڑوں میں بٹی یہ قوم معصوم بچوں کے خون کی برکت سے ایک ہو سکے اور دشمنان اسلام کو یہ واضح پیغام دے سکے کہ ہم تمہیں پہچان چکے ہیں کہ تم کون ہو….؟ کاش تمام مسالک آپس کے فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس عزم کا اعادہ کر لیں کہ اے سفاک دشمنو! جنازوں پر حملے کرنے والو ، عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے والو! مساجد کا تقدس پامال کرنے والو! مزارات کو اڑانے والو! معصوم کلیوں کو خون میں لت پت کرنے والو! ہم تمہاری اصلیت جان چکے ہیں۔ تم حقیقت میں ا ن اسلام دشمنوں کے پیرو کار ہو ‘انہی کی ذریت ہو جنہوں نے خلفائے راشدینؓ اور حضرات صحابہ کرامؓ کو اسلام اور قرآن کا نام لے کر شہید کیا تھا حالانکہ ان سے بڑا اسلام اور قرآن کامحافظ کون تھا….؟ کاش ہم دشمن کو بتا سکتے کہ پشاور /چار سدہ کے ان معصومین کے لہو کے صدقے تمہارے سفاک چہروں سے نقاب اتر چکے اور ہم اس حقیقت کو بھانپ گئے ہیں کہ تم اسی نسل سے تعلق رکھتے ہو جس نے نواسہ رسول ﷺ جگر گوشہ بتولؓ سیدنا امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کیاتھاحالانکہ ان سے بڑا کون دین کا بہی خواہ اور رکھوالا تھا… ؟ اور ہم یہ بھی ادراک رکھتے ہیں کہ ہر دور میں تم اسلام اور قرآن کا نام لے کرہی بے گناہ مسلمانوں اور انسانوں کا خون بہاتے آئے ہو حالانکہ نہ تو تمہارا اسلام سے واسطہ ہے ، قرآن سے ، محمد عربی ﷺ سے اور نہ ہی صحابہ کرامؓ و اہل بیتؓ ایسی عظیم المرتبت ہستیوں سے۔ اور…. ہاں یہ بھی ممکن ہے کہ تم یہاں انسانوں کی اپنی بنائی عدالتوں /قوانین ، حکمرانوں اور اداروں کی مصلحتوں اور مفادات کی وجہ سے بچ جاؤلیکن یہ بھی جان لو کہ بروزِ محشر ایک عدالت رب کریم کی بھی لگنے والی ہے جہاں مظلوم طاقتور ہو گا اور ظالم کمزور تر۔جہاں تمہارے جیسوں کے متعلق ہی اعلان ہوگا :وَامتازُو الیومَ ایُھا المُجرمُون0 (سورۃ یٰسین) اے مجرمو ! آج کے دن الگ ہو جاؤ۔ اور یہ وہ دن ہوگا جب میری دھرتی کے ان معصوم بچوں کا ہاتھ تمہاری گردنوں تک ضرور پہنچے گا ‘ اس دن یقیناًتم اپنے کئے کی سز ا بھگت کے رہو گے اور تمہارا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم قرار پا ئے گا ۔
قریب ہے یار بروزِ محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیونکر
جو چپ رہے گی زبان خنجر‘لہو پکارے گا آستیں کا
satarawan@gmail.com