مکرمی!
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ پرحکومت کی ترچھی نظر ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر نئی صبح کے ساتھ مسلم پرسنل لاء کے خلاف نئی سازش رچی جارہی ہے اور اسے کسی نئے فتنہ میں مبتلا کرنے کی نارواکوشش کی جارہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ میں اصلاح کی گنجائش موجود ہے، جس کے تعلق سے ذمہ داران مسلم پرسنل لاء بورڈ کو انتہائی سنجیدگی سے سوچنے اور اپنے اندر موجود خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی علوم کا ایک ادنی اسکالر ہونے کے ناطے میرا ہمیشہ سے ماننا رہا ہے کہ مسلم پرسنل لاء ہو یا مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی کوئی دوسری تنظیم، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کی تنظیموں میں سبھی کوبلاتفریق مسلک و ملت نمائندگی دی جائے تاکہ وہ تنظیم ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہ بن کر حقیقی معنوں میں مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہو۔ ہمیں معلوم ہے کہ مسلم پرسنل لاء میں مسلک اعلیٰ حضرت کی نمائندگی نہیں ہے ، اس کے بعد بھی ہمارے نبض شناس سربراہان اور قابل صد احترام بزرگوں نے موجودہ مشکل وقت میں مسلم پرسنل لاء کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔یہ بہت ہی حکیمانہ اور دانشمندانہ فیصلہ ہے کیونکہ بروقت مرکزی حکومت کا مسلمانوں کے تعلق سے رویہ انتہائی افسوسناک اور معاندانہ ہے۔ایسے وقت اور حالت میں ہم پر لازمی تھا کہ ہم اس سلسلے میں دیگر مسلم تنظیموں کے ساتھ مل کر حکومت کے موقف کی تردید کرتے، جسے ہم نے بخوبی انجام دیا۔ بہرحال، اس تعلق سے آل انڈیا علماء مشائخ بورڈ کے صدر ذی وقاراور عالم بے مثال کا رول انتہائی اہم اورقابل تعریف ہے۔انہوں نے ہمیشہ مسلمانوں کی بھلائی کے لئے کھل کر فسطائی طاقتوں کی خبر لی ہے ۔
البتہ چند دنوں سے حضرت کے بیانات سن کر ذہن میں تھوڑی سی خلش ہوتی ہے کہ مولانا ملک و ملت کی بہبودی اور سماج و معاشرہ کے لئے برمحل بیانات تو دیتے ہیں لیکن ہرجگہ اور ہربیان میں اہلحدیثوں، سلفیوں، وہابیوں پر جم کربرستے ہیں اور ان کو کوستے ہیں جسے میں مناسب نہیں سمجھتا ۔ کیونکہ یہ بیچارے بروقت آل انڈیا مسلم پرسنل لاء کے ساتھ کھڑے ہیں اور اگر ہم انہیں ٹارگٹ کرتے رہیں گے تو اس سے ہماری جنگ انتہائی کمزور ہوجائے گی ۔ اس وقت میرے تعجب کی انتہاء نہ رہی جب میں نے ایک اخباری بیان میں پڑھا کہ سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کے خلاف مقدمات دائر کرنے والی خواتین اہل حدیث مسلک سے تعلق رکھتی ہیں۔ مولانا کا یہ بیان سراسر غلط اور حقیقت کے خلاف ہے۔کیونکہ میں بتاؤں !میں اصلاح کے مقصد سے ان خواتین سے مل چکا ہوں اور پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ سبھی خواتین حنفی مسلک سے تعلق رکھتی ہیں۔لہذا، ہمیں کوئی بھی بات بلا تحقیق نہیں بولنی چاہئے یا محض مسلکی چپقلش کی وجہ سے ایسی بات نہیں کہنی چاہئے جو ہماری جگ ہنسائی کا سبب بنے۔ بروقت مولانا روس کے دورے پر ہیں، اس کے تعلق سے کچھ احباب سوال اٹھارہے ہیں، ہمارے بزرگ کواس بارے میں ضرور بالضرور صفائی دینی چاہئے کہ وہ روس جو شام میں مسلمانوں کی نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے اور آئے دن ایسی حرکتیں کررہا ہے جو کہ انتہائی شرپسندانہ ہیں، پھر بھی مولانا اس ملک کے مہمان بن کر کس مقصد سے تشریف لے گئے؟ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
صبغۃ اللہ قادری
امروہہ، یوپی