(ملت اسپیشل)
انگریزوں نے بھارت میں تجارت کے نام پر قدم رکھا اور دھوکہ دیکر یہاں اپنی حکومت بنالی ۔ انگریز وں نے مغل دور حکومت میں ہی قدم رکھ دیاتھا لیکن اس دوران انہیں کچھ کرنے کا موقع نہیں مل سکا ۔ اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت میں ایک مرتبہ انگریزوں نے طاقت کا مظاہرہ کیا تو اسے ایسا سبق سکھاگیا کہ پھر ایسٹ انڈیا کمپنی اور انگریزوں نے ان کی زندگی میں کسی طرح کی سازش کے بارے میں سوچنا بھی بند کردیا تھا ۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے بعد ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کر کے تجارت شروع کر دی تھی۔ ان علاقوں میں ہندوستان کے مغربی ساحل پر واقع سورت اور بمبئی، اور مشرق میں مدراس اور موجودہ کلکتہ شہر سے 20 میل دور دریائے گنگا پر واقع بندرگاہیں ہگلی اور قاسم بازار اہم تھے۔
انگریز ہندوستان سے ریشم، گڑ کا شیرہ، کپڑا اور معدنیات لے جاتے تھے۔ خاص طور پر ڈھاکے کی ململ اور بہار کے قلمی شورے (جو باردو بنانے میں استعمال ہوتا ہے) کی انگلستان میں بڑی مانگ تھی۔انگریزوں کے سامانِ تجارت پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ان کے کل سامان کی قیمت کا ساڑھے تین فیصد وصول کر لیا جاتا تھا۔اسی زمانے میں صرف انگریز نہیں، بلکہ پرتگیزی اور ولندیزی تاجروں کے علاوہ کئی آزاد تاجر بھی اسی علاقے میں سرگرم تھے۔ انھوں نے مغل حکام سے مل کر اپنے لیے وہی تجارتی حقوق حاصل کر لیے جو انگریزوں کے پاس تھے۔
جب یہ خبر لندن میں کمپنی کے صدر دفتر پہنچی تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہ جوزایا چائلڈ کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ انھیں یہ گوارا نہیں تھا کہ ان کے منافعے میں کوئی اور بھی حصہ دار بنے۔
اس موقعے پر جوزایا چائڈ نے جو فیصلہ کیا وہ عجیب ہی نہیں، غریب ہی نہیں بلکہ پاگل پن کی حدوں کو چھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں مقیم کمپنی کے حکام سے کہا کہ وہ بحیر? عرب اور خلیجِ بنگال میں مغل بحری جہازوں کا راستہ کاٹ دیں، اور جو جہاز ان کے ہتھے چڑھے، اسے لوٹ لیں۔یہی نہیں بلکہ 1686 میں چائلڈ نے انگلستان سے سپاہیوں کی دو پلٹنیں بھی ہندوستان بھجوا دیں اور انھیں ہدایات دیں کہ ہندوستان میں مقیم انگریز فوجیوں کے ساتھ مل کر چٹاگانگ پر قبضہ کر لیں۔اب اسے چائلڈ کا بچگانہ پن کہیں یا پھر اس کی دیدہ دلیری، کہ وہ مبلغ 308 سپاہیوں کی مدد سے دنیا کی سب سے طاقتور اور مالدار سلطنت کے خلاف جنگ چھیڑنے کی ہمت کر رہا ہے۔
اس زمانے میں ہندوستان پر اورنگ زیب عالمگیر کی حکومت تھی اور دنیا کی کل جی ڈی پی کا ایک چوتھائی حصہ یہیں پیدا ہوتا تھا۔ معاشی طور پر اسے تقریباً وہی مقام حاصل تھا جو آج امریکہ کو ہے۔اورنگ زیب کے عہد میں سلطنت کی سرحدیں کابل سے ڈھاکہ تک اور کشمیر سے پانڈی چری تک 40 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی تھیں۔ یہی نہیں، اورنگ زیب کی فوجیں دکن کے سلطانوں، افغانوں اور مرہٹوں سے لڑ لڑ کے اس قدر تجربہ کار ہو چکی تھیں وہ اس وقت دنیا کی کسی بھی فوج سے ٹکرا سکتی تھیں۔دہلی کی فوج تو ایک طرف رہی، صرف بنگال کے صوبہ دار شائستہ خان کے فوجیوں کی تعداد 40 ہزار سے زیادہ تھی۔ ایک اندازے کے مطابق مغل فوج کی کل تعداد نو لاکھ سے بھی زیادہ تھی اور اس میں ہندوستانی، عرب، افغان، ایرانی، حتیٰ کہ یورپی تک شامل تھے۔جب لندن سے مغلوں کے خلاف طبلِ جنگ بجا تو بمبئی میں تعینات کمپنی کے سپاہیوں نے مغلوں کے چند جہاز لوٹ لیے۔اس کے جواب میں سیاہ فام مغل امیر البحر سیدی یاقوت نے ایک طاقتور بحری بیڑے کی مدد سے بمبئی کا محاصرہ کر لیا۔
اس موقعے پر الیگزینڈر ہیملٹن نامی ایک انگریز بمبئی میں موجود تھے جنھوں نے بعد میں ایک کتاب لکھ کر اس واقعے کا واحد آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا۔ وہ لکھتے ہیں: ‘سیدی 20 ہزار سپاہی لے کر پہنچ گیا اور آتے ہی آدھی رات کو ایک بڑی توپ سے گولے داغ کر سلامی دی۔ انگریزوں نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لی۔ افراتفری کے عالم میں گوری اور کالی عورتیں، آدھے کپڑے نیم برہنہ پہنے ہوئے، صرف بچے اٹھائے ہوئے بھاگی چلی جا رہی تھیں۔ ‘ہیملٹن کے مطابق سیدی یاقوت نے قلعے سے باہر کمپنی کے علاقے لوٹ کر وہاں مغلیہ جھنڈا گاڑ دیا، اور جو سپاہی جو سپاہی مقابلے کے لیے گئے انھیں کاٹ ڈالا، اور باقیوں کو گلے میں زنجیریں پہنا کر بمبئی کی گلیوں سے گزارا گیا۔’
بمبئی کا علاقہ خاصے عرصے سے پرتگیزیوں کے قبضے میں تھا۔ جب انگلستان کے بادشاہ نے پرتگالی شہزادی سے شادی کی تو یہ بندرگاہ اس کے جہیز میں انگریزوں کو مل گئی اور انھوں نے وہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کر کے تجارت شروع کر دی۔
رفتہ رفتہ نہ صرف سمندر پار سے انگریز تاجر، سپاہی، پادری، معمار اور دوسرے ہنرمند یہاں آ کر آباد ہونے لگے، بلکہ ہہت سے ہندوستانیوں نے بھی یہاں رہائش اختیار کر لی اور شہر کی آبادی تیزی سے پھیلنے لگی۔ اب یہی آبادی بھاگ کر قلعے میں پناہ گزین تھی اور قلعہ سیدی یاقوت کے نرغے میں تھا۔ جلد ہی اشیائے خورد و نوش ایک ایک کر کے ختم ہونے لگیں۔ دوسری طرف بیماریوں نے ہلہ بول دیا اور قلعے میں محصور انگریز بمبئی کے مسموم موسم کا شکار ہو کر یکے بعد دیگرے مرنے لگے۔
ایک اور سانحہ یہ گزرا کہ کمپنی کے ملازم آنکھ بچا کر بھاگ نکلتے تھے اور سیدھے جا کر سیدی یاقوت سے جا ملتے تھے۔ یہی نہیں، بلکہ ہیملٹن کی گواہی کے مطابق ان میں سے کئی مذہب تبدیل کر کے مسلمان بھی ہو گئے۔
سیدی اگر چاہتے تو حملہ کر کے قلعے پر قبضہ کر سکتے تھے، لیکن انھیں امید تھی کہ جلد ہی قلعہ پکے ہوئے آم کی طرح خود ہی ان کی جھولی میں آ گرے گا، اس لیے انھوں نے دور سے گولہ باری ہی پر اکتفا کی۔یہ صورتِ حال ملک کے مشرقی حصے میں بھی پیش آئی جہاں بنگال کے صوبے دار شائستہ خان کے دستوں نے ہگلی کے مقام پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قلعے کو گھیرے میں لے لیا اور آمد و رفت کے تمام راستے مسدود کر دیے۔بنگال کا محاصرہ تو جلد ہی ختم ہو گیا اور دونوں فریقوں نے صلح کر لی، لیکن بمبئی میں یہ سلسلہ 15 ماہ تک دراز ہو گیا۔ آخر انگریزوں کی ہمت جواب دے گئی اور انھوں نے اپنے دو سفیر اورنگ زیب کے دربار میں بھجوا دیے تاکہ وہ شکست کی شرائط طے کر سکیں۔
ان سفیروں کے نام جارج ویلڈن اور ابرام نوار تھے۔ یہ کئی ماہ کی بےسود کوششوں کے بعد بالآخر ستمبر 1690 کو آخری طاقتور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دربار تک رسائی حاصل کرنے کامیاب ہو گئے۔دونوں اس حال میں پیش ہوئے کہ دونوں کے ہاتھ مجرموں کی طرح سے بندھے ہیں، سر سینے پر جھکے ہیں، اور حلیہ ایسا ہے کہ کسی ملک کے سفارتی نمائندوں کی بجائے بھکاری لگ رہے ہیں۔دونوں سفیر مغل شہنشاہ کے تخت کے قریب پہنچے تو عمال نے انھیں فرش پر لیٹنے کا حکم دیا۔
آخری طاقتور مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر رحمة اللہ علیہ نے انھیں سخت ڈانٹ پلائی اور پھر پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
دونوں نے پہلے تو گڑگڑا کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے جرائم کا اعتراف کیا اور معافی کی درخواست کی، پھر کہا کہ ان کا ضبط شدہ تجارتی لائسنس پھر سے بحال کر دیا جائے اور سیدی یاقوت کو بمبئی کے قلعے کا محاصرہ ختم کرنے کا حکم دیا جائے۔
ان کی عرضی اس شرط پر قبول ہوئی کہ انگریز مغلوں سے جنگ لڑنے کا ڈیڑھ لاکھ روپے ہرجانہ ادا کریں، آئندہ فرماں برداری کا وعدہ کریں اور بمبئی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر جان چائلڈ ہندوستان چھوڑ دے اور دوبارہ کبھی یہاں کا رخ نہ کرے۔
انگریزوں کے پاس یہ تمام شرائط سر جھکا کر قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، سو انھوں نے تسلیم کر لیں اور واپس بمبئی جا کر سیدی یاقوت کو اورنگ زیب کا خط دیا، تب جا کر اس نے محاصرہ ختم کیا اور قلعے میں بند انگریزوں کی 14 مہینوں بعد گلوخلاصی ہوئی۔ ہیملٹن نے لکھا ہے کہ جنگ سے قبل بمبئی کی کل آبادی 700 سے 800 کے درمیان تھی، لیکن جنگ کے بعد ’60 سے زیادہ لوگ نہیں بچے تھے۔ بقیہ تلوار اور طاعون کی نذر ہو گئے۔’
آنے والے برسوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس خجالت آمیز جنگ کے واقعات کو انگلستان کے عوام تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ چنانچہ کمپنی کے پادری جان اوونگٹن نے چھ سال بعد جب اس جنگ کا احوال لکھا تو اس نے تمام تر ملبہ مغلوں کی وعدہ خلافی پر ڈال دیا۔ اس پر کمپنی نے اسے 25 پاؤنڈ کا انعام بھی دیا جو اس زمانے میں خاصی بڑی رقم تھی۔
اوونگٹن اپنی کتاب میں جگہ جگہ انگریزوں کی بےجگری کا احوال بیان کرتا ہے جنھوں نے دس گنا بڑے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہی نہیں، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس جنگ میں انگریزوں کو نہیں بلکہ سیدی یاقوت کو شکست ہوئی تھی۔ مزید یہ کہ اس نے مغل دربار میں انگریز سفیروں کے برتاؤ کا ذکر بھی سرے سے گول کر دیا ہے۔ہیملٹن نے کتاب تو لکھی لیکن اسے شائع ہوتے ہوئے 40 برس بیت گئے۔ اس دوران پلوں کے نیچے سے اس قدر پانی بہہ چکا تھا کہ اسے کچھ زیادہ توجہ نہیں مل سکی۔
یہاں ایک دلچسپ سوال اٹھتا ہے کہ اگر اورنگ زیب انگریزوں کو معافی نہ دیتے اور انھیں ہندوستان سے نکال باہر کرتے تو آج برصغیر کی تاریخ کیا ہوتی؟ اور پھر وہ وقت بھی آیا جب 1857 میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر لیا۔ (بشکریہ بی بی سی)