نئی دہلی: (پریس ریلیز) ویلفیئر پارٹی آف انڈیا نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ دو ٹوئٹس کرنے پر ایڈوکیٹ واکٹی وسٹ پر شانت بھوشن کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دینا انتہائی افسوسناک ہے۔ ویلفیئرپارٹی کے قومی صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ایک بیان میں کہا کہ ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے جن دو ٹوئٹس جس میں سپریم کورٹ کی گزشتہ 6 سال کی کارکردگی بالخصوص 4 چیف جسٹسوں کے دور پر تنقید کی گئی تھی ، عدالت عظمیٰ کے ذریعہ بہت سرعت سے سو موٹو مقدمہ قائم کرکے فیصلہ سنا دیا ، تعجب خیز اور افسوسناک امرہے۔اس سے سپریم کورٹ کے عظمت اور مقام کو ہی نقصان پہنچا ہے ۔
ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نہ صرف یہ کہ ایک سینئر ایڈوکیٹ ہیں بلکہ گزشتہ 30سال سے عدالت عظمیٰ میں پریکٹس کر رہے ہیں اور عوام سے متعلق متعدد اہم امور پر پی آئی ایل داخل کر کے کئی فیصلے کرواچکے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کورٹ ان امور پر توجہ دیتا جن کی طرف ان ٹوئٹس میں اشارہ کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر الیاس نے آگے کہا کہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں متعدد معاملات و مقدمات جن کا تعلق جمہوری حقوق اور عوام کے بنیادی سوالات سے ہے ، لٹکے ہوئے ہیں ، جن کی طرف توجہ دینے کی کورٹ کو فرصت نہیں مل رہی ہے۔ اس نے جس تیزی کے ساتھ پرشانت بھوشن کی ٹوئٹس پر از خود مقدمہ بھی قائم کیا اور فیصلہ بھی سنا دیا۔اس سے کورٹ کے وقار اور اس سے متعلق جن اندیشوں کا اظہار ان ٹوئٹس میں کیا گیا انہی کو تقویت ملی ہے۔
عدالت عظمیٰ حکومت اور عوام کے درمیان ایک بنیادی کڑی ہے جس کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ دستور ہند اور دستور میں دیے گئے عوام کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے ۔لیکن اب ملک میں یہ احساس عام ہوتا جا رہا ہے کہ اس کا رویہ اور فیصلے حکومت کی منشا اور مرضی کے مطابق ہوتے ہیں ،جب کہ اسے آزادانہ اور انصاف پر مبنی فیصلہ کرنے چا ہیں۔
ملک میں جمہوریت ، انصاف اور آزادی کی لڑائی کا بڑی حد تک دارومدار عدلیہ پر ہے۔اس وقت عدالت عظمیٰ میں کئی معاملات اور مقدمے ایسے ہیں جو فوری توجہ کے مستحق ہیں مثلا آرٹیکل 370 کی منسوخی کا دستوری جواز، سی اے اے ، این، آر سی اور این پی آر کی قانونی و دستوری حیثیت، الیکٹررول بوانڈ وغیرہ ۔ عدالت کو چاہیے کہ وہ ان معاملات کو جلد ازجلدنمٹائے۔ اس لیے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ فیصلوں میں تاخیر در اصل انصاف کا قتل ہے۔
ویلفیئر پارٹی عدالت عظمیٰ سے استدعا کرتی ہے کہ اب جب کے اس نے پرشانت بھوشن کو توہیں عدالت کا مرتکب قرار دے دیا ہے وہ انہیں بہت ہلکی اور علامتی سزا ہی سنائے تاکہ ملک کے انصاف پسند و جمہوریت پسند افراد کی حوصلہ شکنی نہ ہو۔