پاؤں زمیں میں گاڑ کے سوئے فلک چلو!

ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی
یکسا ں سول کوڈکا جن ایک بارپھر بوتل سے باہر آگیا ہے اور اس بار کچھ زیادہ مہیب انداز سے سامنے آکر کھڑا ہوا ہے۔ ایک نہ ایک دن بہر حال یہ تو ہونا ہی تھا۔ راقم الحروف گذشتہ کئی مہینے سے اپنے تحریروں کے ذریعے امت کے ارباب حل وعقد کو اس جانب توجہ د لانے کی کوشش کرتا رہا ہے ۔رواں سال کے اوائل میں سائرہ بانو کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائرکئے گئے مقدمے کے بعد یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ طلاق ثلاثہ کی بحث بالآخر یکساں سول کوڈ تک جائے گی۔ لیکن بار بار متوجہ کرنے کے باوجود اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس مقدمے کے بعد جس انداز سے طلاق ثلاثہ کے بحث کا آغاز ہوا وہ اپنے آپ میں شرمناک تھا۔ ایک جانب مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے اور خواتین کی تنظیموں نے مل کر یہ مطالبہ کیا کہ طلاق کے نظام کو قرآنی نظام کی طرف واپس لوٹایا جائے تو دوسری جانب پرسنل لاء بورڈ اور اس سے متعلق و متفق حضرات نے شدت کے ساتھ یہ اصرار کیا کہ یہ نظام باقی رہنا چاہیے اور معاملے نے معرو ضی صورت اختیار کرنے کے بجائے مسلکی صورت اختیار کرلی ۔ اس مقدمے میں پہلی مرتبہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے بحیثیت فریق مداخلت کرکے 67صفحات پر مشتمل پر ایک حلف نامہ عدالت میں پیش کردیا حیرت کی بات ہے کہ اس قسم کے معاملات میں اس سے قبل کبھی بھی نہ تو بورڈ خود پارٹی بنا اور نہ ہی بورڈ نے کسی پارٹی کی حمایت کی بلکہ عموماً معاملات میں خاموشی ہی اختیار کی اور عدالتوں کو اپنی تفہیم کے اعتبار سے فیصلے کرنے دیئے۔ صرف ایک شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وائی بی چندر چو کے متنازعہ فیصلے کردینے کے بعد بورڈ حرکت میں آیا تھا اس مقدمے میں بھی بورڈ فریق نہیں بنا تھا۔ لیکن اس مرتبہ کن مصلحتوں اور ضرورتوں کے تحت اس مقدمے میں بورڈ ایک فریق بنا اس کا کوئی جواب ابھی تک موجود نہیں ہے ۔ یہ واضح رہنا چاہیے سائرہ بانوکا کیس طلاق ثلاثہ اور تعد د ازدواج کے خلاف ہے جو یکساں سول کوڈ کی حمایت نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں خود سائرہ بانو اور اس مقدمے کی پیروی کرنے والی تنظیم مسلم مہیلا آندولن کی صدر ذکیہ ثمن سمیت مختلف خواتین انجمنیں بھی یہ واضح کرچکی ہیں کہ یکساں سول کوڈ کا مطالبہ ان کے پیش نظر نہیں ہے ۔ گویا مسئلہ صرف طلاق ثلاثہ تک محدود تھا ۔اور مسلمان مرد وخواتین کی ایک بڑی تعداد بورڈ کے موقف کے خلاف ایک نشست کی تین طلاق کے خلاف کھڑی ہوگئی تھی اور واضح اشارے موصول ہو رہے تھے کہ اس معاملے میں بورڈ کو بالآخر اپنے قدم پیچھے ہٹانے پڑیں گے۔ لیکن اسی دوران لاء کمیشن نے بھی ایک سوال نامہ جاری کرکے جلتی میں تیل ڈالنے کا کام کیا ہر چند کہ اس سوال نامے کا مذکورہ مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن کمیشن کی اس حرکت نے تین طلاق کے معاملے کو پس پشت ڈال کے یکساں سول کوڈ کے مسئلے کو آگے کر دیا ۔سمجھا یہ جاتا ہے کہ لاء کمیشن کا یہ سوال نامہ حکومت ہند کے اس خط کے جواب میں جاری کیاگیا جس میں حکومت نے کمیشن سے یکساں سول کوڈ کی تنفیذ سے متعلق اقدامات کے بارے میں رائے طلب کی تھی ۔اس کی تفصیلات پچھلے مضمون میں قارئین کی خدمت میں پیش کی جاچکی ہیں ۔ لیکن لاء کمیشن نے اپنا سوال نامہ جاری کرتے وقت اس بات کی کوئی وضاحت یا صراحت نہیں کی ہے کہ اس نے کس بنیاد پر یہ اقدام کیا ہے ۔ یہ بھی وضاحت نہیں ہے کہ کس اختیار او رحق کے تحت اتنے مخدوش او رسنجیدہ معاملے پر اچانک یہ سوال نامہ جاری کردیا گیا ۔ 7اکتوبر کو کمیشن نے یہ سوالنامہ جاری کرتے ہوئے ملک بھر کے عوام کے مذہبی واقلیتی تنظیموں اداروں سرکاری وغیر سرکاری انجمنوں سے اس معاملے میں ڈیڑھ ماہ کے اندر اپنے جوابات داخل کرنے کی اپیل کی ہے اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ جوابات موصول ہونے کے بعد اگر ضروری ہوا تو وہ مختلف تنظیموں،ادارو ں اور ذمہ داران سے گفتگو کرے گا ۔ لیکن یہ سارا عمل انجام دینے کے بعد کیا ہوگا اس معاملے میں کمیشن خاموش ہے ظاہر ہے چونکہ حکومت نے رائے مانگی ہے تو غالباً اس عملیہ کی بنیاد پر کمیشن حکومت کو یکساں سول کوڈ کے بارے میں عوامی رجحانات سے واقف کرائے گا اس کے بعد حکومت کیا اقدام کرے گی اس جانب کوئی اشارہ کسی جانب سے بھی نہیں دیا گیا ہے گویا محض سوال نامہ جاری کردینے سے یہ سمجھ لینا کہ حکومت عجلت میں کوئی یکساں سول کوڈ نافذ کرنے جارہی ہے ایک بڑی غلط فہمی پیدا کرنے کی مترادف ہے ۔ حیرت کی با ت یہ ہے کہ سوال نامہ عام ہونے کے تیسرے ہی دن بورڈ کے ذمہ داران نے اپنے چند عہدیداران کے ساتھ دلی میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس کرکے اس سوال نامے کے مطلق بائیکاٹ کا اعلان کردیا اس پریس کانفرس کو خطاب کرنے والوں میں سے کسی نے بھی سوال نامہ پر اپنے تکنیکی اعتراضات کا کوئی ذکر تک نہیں کیا بلکہ یکساں سول کوڈ کو مسترد کرنے اور نریندر مودی کی سرکارکی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ملک کو خانہ جنگی کی جانب ڈھکیلنے کی شازش قرار دیا۔ اصل مسئلہ یہی ہے یکساں سول کوڈ مسلمانوں سمیت ملک کے بہت سے مذہبی اور قبائلی اقلیتوں کو منظو رنہیں ہے اس ضمن کی دفعہ کی بھر پور مخالفت دستور سازی کے وقت بھی کی گئی تھی اس کے بعد بھی کی جاتی رہی اور آج بھی کی جاتی ہے گویا ملک کا اجتماعی ضمیر یکساں سول کوڈ قبول کرنے پر ہر گزآمادہ نہیں ہے۔ مگر سوال نامے جیسی چیز جاری کرکے ایک قسم کا ریفرینڈم کرانے کی کوشش کی جارہی ہے ظاہر ہے کہ اکثریت واقلیت کی بنیاد وں پر تقسیم ایک ملک کی رائے شماری اکثریت کے حق میں ہی جائے گی ۔ اس لئے ا س قسم کا سوال نامہ اتنے حساس معاملے میں کوئی فیصلہ کن حیثیت نہیں رکھتا۔ان حالات میں یہ ضروری تھا کہ بورڈ کے ارباب و حل عقد سوال نامے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے اوریکساں سول کوڈ سے متاثر ہونے والے دیگر طبقات کے لیڈران کو بھی رجو ع کرکے اپنے ساتھ بٹھاتے ایسا نہ کرکے بورڈ نے ملک کے عوام کو یہ واضح پیغام دے دیا کہ صرف مسلمان ہی اس کے مخالف ہیں یہ امر بھی حیرت ناک ہے کہ اس سوالنامہ کو لیکر ملک کی دیگر اقلیتیں ،طبقات اور سیاسی جماعتیں بھی ابھی تک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ یہ خاموشی نیم رضا مند ی کی مظہر لگتی ہے۔ایسے میں یہ بائیکاٹ صرف مسلمانوں کو حاشیے پر کھڑا دینے کی فسطائی سازش میں ہی مددگار ثابت ہو رہا ہے۔ بہر صورت اس معاملے کو لیکر خانہ جنگی کے خدشے کو اظہار کرنا کسی صورت دانشمندانہ اقدام نہیں کہلایا جاسکتا۔ نہ صرف پریس کانفر نس میں بلکہ بعد میں کچھ دیگر علماء کی جانب سے بھی برملا خانہ جنگی چھڑ جانے کی بات کہی گئی ہے ۔ملک کے موجود ہ حالات واقعی دگرگوں ہے بار بار ایسے معاملات اٹھا ئے جارہے ہیں جس سے منافرت پیدا ہو اور ملک کے مختلف طبقات کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو حکمراں ٹولے کی جانب سے حالات کو اسی سمت لے جایا جارہا ہے جو بالآخر عوام کے بیچ مسلح کشمکش کی صورت حال پیدا کردیں گے لیکن اس کے لیے کسی طوپر بھی ملک کے مسلمان ذمہ دار نہیں ہے ۔ بلکہ جو لوگ یہ حالات پیدا کررہے ہیں ان کے نشانے پر مسلمان ہی ہیں ایسے میں یکساں سول کوڈ کے نام پر خانہ جنگی کی بات کرناآبیل مجھے مار کے مصداق ہے ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بورڈکے ذمہ داران سوالنامہ کی تکنیکی خرابیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کمیشن سے بھی جواب طلب کرتے اور عدالت سے بھی رجوع کرتے لیکن ایسامحسوس ہوتا ہے کہ تین طلاق کے معاملے اپنی شکست کے خوف سے پریشان بورڈ کے ذمہ داران نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے سوال نامے کے پردے میں تین طلاق کے مسئلے کو چھپا دینا ہی غنیمت سمجھا ویسے بھی بورڈ کے کچھ ذمہ داران اس سے قبل دین بچاؤ دستور بچاؤ تحریک کی ناکامی کے اثرات کو زائل کرنے کی کسی موقع کی تلاش میں تھے ۔اس معاملے میں بورڈ نے جس فعالیت کا مظاہرہ کیا ہے اگر یہی مظاہرہ اصلاح معاشرہ تحریک کے سلسلے میں کیا گیا ہوتا تو شاید یہ صورت حال پیدا ہی نہ ہوتی ۔
طلاق ثلاثہ کے کیس میں بورڈ نے جو حلف نامہ داخل کیا ہے وہ بجائے خود ایک مضحکہ خیز دستاویز محسوس ہوتا ہے ۔ نو آزمود وکیلوں کی جانب سے تیار کئے گئے اس حلف نامے میں حنفی مسلک کے مطابق ایک نشست کی تین طلاق کو ثابت کرنے کے دلائل پر ہی اکتفا کیا گیا ہے ۔ نیز عائلی قوانین کے معاملے میں عدالتوں کے حق کی نفی کی گئی ہے ۔اور بار بار کہا گیا ہے کہ قوانین کی وضع وتنسیخ و ترمیم حکومت کا کام ہے اور عدالتیں اس سے باز رہیں ۔ مزید برآں یہ بھی کہا گیا کہ خواتین کو جلا کر مار ڈالنے سے زیادہ بہتر ہے کہ اس قسم کی طلاقو ں کے ذریعے ان سے چھٹکارا حاصل کرلیا جائے ۔ پورے حلف نامے میں قرآن حکیم کے قانون طلاق ووراثت کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے ۔ نہ ہی مسلمانوں کے دیگر مسالک کی جانب سے ملک میں طلاق کا جو طریقے رائج ہے اس کا کوئی حوالہ ہے صاف ظاہر ہے کہ خود کو مشترکہ متحدہ پلیٹ فارم بتانے والا بورڈ عدالت میں صرف ایک مسلک کی نمائندگی کر رہا ہے یہ امر بھی دلچسپ ہے کہ راقم الحرو ف نے جب یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس حلف نامے کو کتنے لوگوں نے پڑھا ہے تو معلوم ہوا کہ مسلم تنظیموں کے اکثر ذمہ داران، بورڈ کے عاملہ اکثر ارکان، اردو کے تقریباً تمام صحافی اور خود مسلم وکلاء کی بہت بڑی تعداد نے اس حلف نامے کو حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔گویا بورڈ کے چند عہدیداران کے سواکسی کو ان دستاویزات کا کوئی علم نہیں ہے۔ظاہر ہے مشورے بھی محدود انداز سے کئے جارہے ہیں ۔ حیر ت کی بات ہے کہ جس امت کو تحفظ شریعت کے دلفریب نعرے کے نام پر خانہ جنگی تک کیلیے آمادہ کیا جارہا ہو اس امت کے اکابرین و ارباب و حل عقد معاملے کی اصلیت تک کی واقفیت نہیں رکھتے ۔ یعنی ایک جذباتی جنگ کے لیے امت کو اکسا کرمسند قیاد ت تک پہنچنے کی جست وخیز کی جا رہی ہے اور پورے قضیے کو چند ہاتھوں تک محدود رکھنے کی بھر کوشش کی جارہی ہے ۔
اس سلسلے میں حکومت نے 24صفحات کا اپنا جو حلف نامہ عدالت میں پیش کیا ہے اس میں کہیں بھی یکساں سول کو ڈ کا کوئی ذکر کیاگیا لیکن ایک نشست کی تین طلاق اور تعددد ازدواج پر پابندی کی پرزور وکالت کرتے ہوئے سات مسلم ممالک کے حالیہ قوانین کی صراحت کی گئی ہے ۔پاکستان ،بنگلہ دیش، ترکی ، مصر، ایران، سوڈان،تیونس ، سری لنکا جیسے ممالک نے مروج شرعی قوانین عدالت کے سامنے پیش کئے گئے ہیں۔ سرکاری حلف نامے میں جو سب سے قابل اعتراض بات ہے وہ یہ ہے کہ اس میں دستور کے بنیادی حق کی دفعہ 25کو بہت ہلکا کرکے پیش کرتے ہوئے صنفی برابری کی بنیادی حق کی دفعہ 14کو فوقیت دی گئی ہے ۔ جو قا نونی اعتبار سے بھی قابل اعتراض ہے۔ اسی ایک نقطے پر بہت مدلل اور طویل بحث عدالت میں کی جاسکتی ہے لیکن افسوس کہ بورڈ کے حلف نامے کی روشنی میں وہ بحث بھی ممکن نہ ہو سکے گی۔ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ مسلمانوں کے دیگر حلقے بھی اس مقدمے میں مداخلت کرکے اصل حقائق عدالت کے سامنے پیش کریں اور عدالتی بحث کو صحیح رخ پر لے کر جائیں نیز یہی وہ مرحلہ بھی ہے کہ جب مسلمانوں سمیت ملک کے تمام متاثرہ طبقات کو پوری شدت کے ساتھ یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ دستور کے رہنما اصول کی دفعہ 44کو کالعدم قرار دیا جائے۔ خانہ جنگی کا خدشہ ظاہر کرنے والے حضرات اگر اس مطالبے کے عنوان سے ملک گیر تحریک کا آغاز کرتے تو وہ دستوری اور جمہوری حقوق کی بازیابی کیلئے زیادہ مفید ثابت ہو سکتی تھی ۔(ملت ٹائمز)
( یہ مضمون نگار کے اپنے ذاتی خیالات ہیں ،بہت سے مشمولات حقائق کے خلاف اس میں شامل ہیں،نیز ادارہ کا اتفاق ضروری نہیں ہے)

SHARE