وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے ….

 مشرف عالم ذوقی
بہار کا ارریہ ضلع … میں اس شہر سے زیادہ واقف نہیں ، لیکن میں اس شخص سے بھی کتنا واقف تھا جو ارریہ کی سر زمین سے نکلا ، مدرسے کے دروازے میں داخل ہوا ، دار السلطنت دلی کی کشادہ سڑکوں ، گلیوں کو فتح کرنے کے ارادے سے ، ان جانبازوں کی طرح آیا ، جن کے قصے کبھی اس نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھ رکھے تھے … یہ ارریہ کے جانباز سپاہی تھے ، جنہوں نے 1857ء کی پہلی جنگ آزادی میں اودھ کی بیگم حضرت محل کا ساتھ دیا اور انگریزوں کے چھکے چھڑائے ۔ ارریہ جس کے حسین ماضی میں صوبیدار سیف خان اور بادشاہ جلال الدین اکبر کی کہانیاں بھی تاریخ کا حصہ ہیں ، ۲۵ اگست ۲۰۲۰ ، دار السلطنت دلی سے ایک ایمبولینس جسد خاکی کو لے کر ارریہ کی طرف روانہ ہوئی تو وہ شخص جسے میں گمنام خانوادے کا حصّہ سمجھ رہا تھا ، اس کی موت پر ایک دنیا کو روتے ہوئے دیکھا تو خیال آیا ، یہ کون تھا ؟ جس کے پاؤں تیمور کی طرح ایک حادثے میں زخمی ہو گئے تو وہ زیادہ شجاعت اور جرأت کے ساتھ میدان جد و جہد حیات میں اترا اور اپنی دلکش مسکراہٹ سے دلوں میں جگہ بنائی ، قلم کے سپاہی کی حیثیت سے ملی تنظیموں کا حصّہ بننے کے بعد صحافت کا زور آزمایا اور جب سچے جانبازوں کی ضرورت زیادہ تھی ، وہ ان مناظر کی تاب نہ لایا ، جو دار السلطنت کے ساتھ ملک ہندوستان کی نئی فسطائی تاریخ کا ہر روز نیا صفحہ تیار کر رہے تھے ۔ اس نے کووڈ ۱۹ کو سلام کیا ، ہاتھ ملایا اور وداع کی پہاڑیوں سے اوجھل ہو گیا ۔
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
غم کی سیاہ راتوں کا درد لئے اب جب وہ نہیں ہے ، میں آسمان میں خاموشی سے ایک کنارے پر چمکتے قطب تارے کا تعاقب کرتا ہوں ، تو چھ مہینے کی داستان کے کتنے ہی صفحے نگاہوں کے آگے تازہ ہو جاتے ہیں . چھ مہینے … سہارا اردو میں گزارے ہوئے چھ مہینے . سر من از نالۂ من دور نیست .. یہ حاتم کے ساتویں سوال کا جواب تھا ، جب حکمران فریبی ہو ، تلواریں چل رہی ہوں ، عوام بے بس ہوں اور تم بھی کچھ کرنے کی حیثیت میں نہ ہو تو قطب تارے کے پیچھے پیچھے آسمانی ریاست میں چلے آؤ …
اس نے یہی کیا .
میرا راز میرے نالہ سے دور نہیں .
جب پہلی بار یہ خبر ملی کہ شمس کو پلازمہ کی ضرورت ہے تو میری رگوں میں خون جمتا ہوا محسوس ہوا . گلیشیر سے ٹوٹ کر برف کے ٹکرے جسم کا حصّہ بن گئے تھے ..مجھے خوف کا احساس ہوا تھا . اور پھر الوداع کی گھڑی آ گیی . جب یہ خبر فیس بک پر ہائی لائٹ ہوئی تو میں کافی دیر تک صدمے میں رہا .پھر میں نے لکھا ..
— مور کو دانہ ڈالنے والا منظر دیکھنا اسے منظور نہیں تھا ..
— اس نے موت کا انتخاب کیا ..
اس کہانی کو کہاں سے شروع کروں ؟ فیڈ ان .فیڈ اوٹ ..کلوز .. سانولی رنگت . گھنی زلفوں اور داڑھی کے درمیاں روشن آنکھیں بہت کچھ کہہ دیتی تھیں .. فلیش بیک .. ایک حادثہ میں اس کے پاؤں زخمی ہوئے تھے . ایک دن وہ مجھے دفتر کے باہر مل گیا تھا .میں نے اسے تیزی سے اپنی طرف آتا ہوا دیکھا .
تم جھوٹ بولتے ہو ..
کیا ہوا سر ..
میں مسکرایا .. غضب کے جھوٹے ہو … سر من از نالۂ من دور نیست ..
یہ کیا ہے سر ..
تمہارا پاؤں سامنے والے کی آنکھوں سے دور نہیں ..
اس نے قہقہہ لگایا ..سر .. وہ اس کے آگے کچھ نہیں بولا ..
فٹ ہو .سامنے والے کا چہرہ پڑھ لیتے ہو . یہ سیاست کی خوبیاں کہاں سے آئیں ؟
ہا ..ہا ..ہا ..آپ بھی نا سر ..
رمضان کا مہینہ ہے .٢٠١٩ .. افطار کا وقت ہو چلا ہے .. اس کے قدموں میں پھرتی ہے .. میں پھر اس کی طرف دیکھتا ہوں ، تمہاری آنکھیں بولتی ہیں ، ان آنکھوں میں دردمندی کی چمک ہے ..
٢٠١٨ ، نومبر .. مجھے سہارا اردو سے دعوت نامہ مل چکا تھا .دعوت نامہ .. سب مسافر ہوتے ہیں یہاں .. کچھ ماہ ..کچھ برس .. میں نے جوائن کرنے سے قبل سب کا بلو پرنٹ حاصل کیا تھا .کون کیا ہے . ؟ کون ایکٹو ہے کون نہیں .کون سیاست سے زیادہ کام لیتا ہے .. مجھے کچھ نام بتائے گئے تھے ، کہا گیا ان سے ہوشیار رہنا ہے ..
حاتم طائ اور سات سوال .. حسن بانو کی محبت میں سات سوالوں کا دریا پار کرنے والا حاتم یہاں بھی تھا . صحرائی ..یہ حاتم کے پہلے سوال کا جواب تھا . سو بھروسے ٹوٹیں ، اس کے بعد بھی بھروسہ کرو .
شمس نے رومی پر رومی نے شمس پر بھروسہ کیا .. اور یہ دونوں آج بھی روحانی تاریخ کا اہم حصّہ ہیں …
ویراں ہےمیکدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
لیکن کہنے والے یا بتانے والے کو کہاں معلوم تھا کہ عشق کے سفیروں کی منزل ہمیشہ دوسروں سے مختلف ہوتی ہے . جب نفرت ہوتی ہے ، مقام عشق کا غار نظر آتا ہے .عشق انتہا کو پہچتا ہے تو سوال مٹ جاتے ہیں . سیاست ختم ہو جاتی ہے . شمس کے بلیو پرنٹ میں کہا گیا ، این جی او چلاتا ہے . ملی تنظیموں سے گہرا رشتہ ہے . سیاست میں دخل ہے .. میں سہارا میں داخل ہوا تو پہلے دن ہی میں نے کہا کہ مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں .میرے کمرے میں آنے کے لئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں . مجھے بتایا گیا تھا کہ یہاں ہر شخص سہارا کے علاوہ بھی دوسرے اخباروں سے وابستہ ہے . مجھے اندازہ تھا ، یہ کوئی جرم نہیں . ہندی انگریزی والے کروڑوں میں کھیلتے ہیں تو کیا کسی اردو کے صحافی کو آدھی تنخواہ کے ساتھ پانچ ہزار کمانے کا بھی حق نہیں ؟ میں نے سارے دروازے کھولے .. فخر امام ، خاور حسن ، ڈاکٹر عبد القادر شمس .. اور دو ایک نام .. میں نے پہلے ہی دن محسوس کر لیا کہ کس سے کیا کام لیا جا سکتا ہے . پہلے ہی دن شام کے وقت وہ میری کیبن میں آ گیا ..
حالات دیکھ رہے ہیں سر ..
میں نے اس کی طرف دیکھا ..وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر تھا . اس نے پھر مسکرا کر پوچھا ..کیا آپ مجھ سے واقف تھے سر ؟
ہاں ..میں مسکرایا ..مگر اس طرح نہیں جیسے دوسرے واقف ہیں ..
پھر کیسے سر ؟
میں مسکرایا ..تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے.. یہاں جو لوگ بھی ہیں ، میں سب کو برسوں سے جانتا ہوں . میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا ، شمس .. لوگ لفظوں کا تعاقب نہیں کرتے . چار لوگ ہونگے ، تو مکالمے ہونگے .مکالموں کو سازش کہا جاتا ہے . میں دوسروں کے جام توڑنے والا ، اپنا پیمانہ بنانے پر یقین رکھتا ہوں .
بس سمجھ گیا سر ..
وہ مسکرا رہا تھا .. فاصلے ختم .. میں جانتا تھا .. فخر امام ہوں ، خاور حسن یا شمس ، ان میں زبردست خوبیاں ہیں مگراب ماحول نہ شبلی والا ہے ، نہ سر سید والا ، نہ سلیمان ندوی والا . وقت کے تیور بدل گئے .وقت کا ڈھانچہ بدل گیا .انہیں موقع ملے تو یہ اپنی کامیابی ، اپنی تقدیر ، قوم کی تقدیر کے ساتھ ملک کی تقدیر لکھنے بیٹھ جائیں .. مگر انہیں موقع دینے والا کون ہے .. یہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی ، اور اس ڈیوٹی میں کبھی انہیں بتایا نہیں گیا کہ جرات رندانہ کو پہچانو تو شبلی بھی تم ، مولوی باقر بھی تم .. ابو الکلام بھی تم .. یہاں میں کچھ باتیں مدرسوں کے تعلق سے کرنا چاہونگا .. یہ مدرسوں سے نکلے ہوئے جوان ، نوجوان .. یہ مدرسے کی کمزور بوسیدہ دیواروں سے علم اور زبان کا جو تحفہ حاصل کرتے ہیں ، اسی تحفے نے اردو کو آج بھی زندہ رکھا ہے .
ان کی شہنشاہیت کو سلام ..
دنیا کی کویی حکومت .کویی جمہوریت نہ مذھب پر پاپبندی لگا سکتی ہے نہ تعلیم پر .دینی تعلیم مذھب کو سمجھنے ،مذہب کو حیات نو سے جوڑنے کا ایک راستہ بھی ہے ،اور اب نیے تقاضوں اور ضرورتوں کے مد نظر مدرسوں کے معیار میں بھی تبدیلی آی ہے .مدرسوں سے نکلنے والے بچے آی اے ایس کی تیاریاں کر رہے ہیں .کامیاب بھی ہو رہے ہیں .اردو زبان کو لیجئے تو مجھے کہنے دیجئے کہ مدرسے نہ ہوتے تو اردو کب کی ختم ہو چکی ہوتی .آج نیی نسل سے وابستہ زیادہ تر لکھنے الوں کا تعلّق مدرسوں سے ہے ..اردو کا مستقبل اب ان لوگوں کے پاس ہے . ..مدرسوں کے مثبت کردار کو سمجھنا ضروری ہے . دینی درسگاہیں جب تک سلامت ہیں ،ہم بھی سلامت ہیں .اور یہ مدرسے کے بچے ہیں ، جو اخباروں پر حکومت کر رہے ہیں ، اس لئے کہ ان کے پاس زبان کا بیش قیمت سرمایا ہے .
حاتم کو دوسرے سوال کا جواب ملا تھا ، مدرسوں کے لئے ہونے والی ہر سازش کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے .
اردو سہارا کی یوم تاسیس کی سالگرہ کے موقع پر شمس چار بجے کے اس پاس میرے کمرے میں تھا ..
سر ..یہ مضمون لکھا ہے .یہ آپ کی طرف سے جائے گا ؟
میری طرف سے ؟ لیکن میں تو خود لکھتا ہوں ..
وہ سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا ..ہاں سر .. لیکن ہو سکتا ہے آپ روزنامہ اردو سہارا کی تاریخ سے زیادہ واقف نہ ہوں .
میں مسکرایا .. میں لکھ لونگا . یہ مضمون آپکے نام سے ہی جائے گا .
حاتم طائ کو چوتھے سوال کا جواب ملا . یہ شخص مخلص بھی ہے ، ایماندار بھی ، اور آپکا ہمدرد بھی .
اس دن ایک اور واقعہ ہوا .جب صفحہ تیار ہوا تو اس خصوصی صفحے کے آخر میں میرا مضمون تھا . پہلا مضمون شمس کا تھا . فخر امام ناراض تھے .. یہ کیا بات ہوئی . پہلا مضمون تو ہر حال میں ایڈیٹر کا جاتا ہے . شمس نے یہ کیا کیا ..
حاتم کو چوتھے سوال کا جواب ملا .. ہمیشہ خود پر بھروسہ رکھو . کوئی بادشاہ یا حاکم ہے تو اس سے خوف زدہ ہونے کی ضرور ت نہیں ..
شام کو ٨ بجے شمس کمرے میں تھے ..سر ..وہ غلطی سے …
غلطی سے …میں مسکرایا .. میں ایڈیٹر نہ ہوتا تو تمہارا مضمون ہی سب سے پہلے ہوتا .تم نے بہت عمدہ لکھا ..
سر ..آپ بھی نا ..وہ خوش تھا ..ہمیشہ کی طرح ..
میں مسکرایا .. تم میں حاتم والی ساری خوبیاں ہیں شمس ..
پھر مجھے حاتم کے سوالوں کے جواب ملتے چلے گئے …
اس نے ایک مذہبی پروگرام میں مجھے شامل کیا تھا . اب یاد نہیں کہ وہ کون سا پروگرام تھا . مگر شمس اس پروگرام کا اہم حصّہ تھا . میں نے وعدہ کر لیا . صبح ١٠ بجے پروگرام تھا . مجھے پہچنے میں تاخیر ہو گیی .شمس کا فون آیا تو میں نے از راہ مذاق کہہ دیا ، کچھ ضروری کام آ گیا تھا ..
وہ کچھ دیر تک خاموش رہا .. پھر بولا ، آپ نے اچھا نہیں کیا سر ..
میں گیارہ بجے پہچا تو شمس نے مجھے دیکھ لیا . میرے گلے لگا . پروگرام شروع ہو چکا تھا . اس نے محبت سے کہا ، میں بھی تو یاد رکھوں گا سر ، کہ ہمارا کوئی ایڈیٹر ایسا بھی تھا جس کو لوگ سننا چاہتے ہیں ..
میں نے پہلی بار اسٹیج سے اسے بولتے ہوئے سنا .پھر معلوم ہوا ، اس نے کیی کتابیں بھی لکھی ہیں .. اس نے کبھی نہیں بتایا .. حاتم کو چھٹے سوال کا جواب ملا ..خدا کو انکساری پسند ہے .
میں کویی حاتم نہیں تھا . میں کویی شہنشاہ نہیں تھا . مجھے روزنامہ سہارا میں کام کرنے کے لئے چھ مہینے ملے .یہ چھ مہینے چھ صدی کے برابر ہیں . وہ سچا تھا .کھرا تھا . ایماندار اور فرض شناس تھا .. اسے مزید موقع ملتا تو کیا پتہ ، وہ صحافت کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی کرشمے دکھا دیتا .. مگر .. وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے .. کیا بھولنا آسان ہوتا ہے….؟
آنکھیں دھند میں اتر گئی ہیں۔
چاروں طرف دھند ہی دھند۔
لیکن اب اس دھند اور تاریکی میں مجھے راستہ تلاش کرنا ہے ..
تیرے شب و روز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات
اوّل وآخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا آخر
زندگی کی تلاش کا مقصد کیا ہے —؟ ہم زندگی کیوں تلاش کرنے نکلےہیں ، اس پر آشوب موسم میں ؟
اوّل وآخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقش کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا آخر….
اب میرے پاس کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں ….

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں