اردو زبان کی ترقی کے لیے اپنے آپ کو وقت کے مطابق ڈھالنا ضروری: پروفیسر شاہد اختر
قلم کاروں کاکام محض جذبات کی ترجمانی نہیں ،قومی و عالمی مسائل کو موضوعِ تحریر بنانا بھی ہے: ڈاکٹر عقیل احمد
قومی اردو کونسل کے دوروزہ عالمی ویبینارکا افتتاحی سیشن،وزیر تعلیم کا اردو کے فروغ کے تئیں کونسل کی خدمات پر اظہارِ اطمینان
اگلے سال سے کونسل کی جانب سے امیر خسرو ،مرزاغالب ،رام بابو سکسینہ اور دیا شنکر نسیم کے نام پر اردو ادیبوں کو انعامات سے نوازنے کا اعلان
نئی دہلی: اردو دنیا کی ساتویں سب سے بڑی زبان ہے اور اس کی خوشبو ہندوستان کی جڑوں میں پیوست ہے۔ اس کے لفظوں میں انسانیت نوازی، یکجہتی، اتحاد کی دعوت اور انسانی فلاح و بہبود کا پیغام ہے۔ان خیالات کا اظہار وزیر تعلیم عالی جناب رمیش پوکھریال نشنک نے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام ’الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے دور میں اردو مصنّفین کی ذمے داریاں‘ کے موضوع پر منعقدہ دوروزہ عالمی اردو ویبینار میں افتتاحی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے کہا کہ اردو زبان میں غیر معمولی خوب صورتی اور دلوں تک پہنچنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردو زبان کی یہ خوبی ہے کہ اس کے ذریعے کم لفظوں میں وسیع مضامین کو بیان کیا جاسکتا ہے۔اس سلسلے میں انھوں نے زندگی کے حقائق پر مشتمل مرزا غالب کی شاعری کا خصوصی حوالہ دیا اور اقبال کے ترانہ¿ ہندی کے مشہور شعر’سارے جہاں سے اچھا،ہندوستاں ہمارا،ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ اس شعر کو سن کر ہمارے دل میں ایک خوشگوار احساس پیدا ہوتا ہے اور اپنے وطن سے محبت و وابستگی کاجذبہ قوی ہوجاتا ہے۔ویبینار کے موضوع کو اہم قرار دیتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ سوشل میڈیا اپنے افکار و خیالات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے، ہمیں اسے درست اور تعمیری افکار کے اظہار کے وسیلے کے طور پر استعمال کرنا چاہیے اور دورحاضر کی تیز رفتار تبدیلی اور ترقیات کے ساتھ چل کر سماج کے تئیں اپنی ذمے داری کو نبھانا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے قلمکاروں کی ذمے داری ہے کہ دورحاضر کی تبدیلیوں کا ساتھ دیتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ہندوستان کے انسانیت نواز، عالمی اخوت کے افکار و خیالات کی اشاعت کریں۔انھوں نے اردو زبان میں دنیا کی دوسری زبانوں کی اعلیٰ تخلیقات کے ترجمے پر بھی زور دیا تاکہ اردو کی خوشبو اور دور تک پہنچ سکے۔اس موقعے پر انھوں نے قومی کونسل کی حصولیابیوں پر قلبی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ نریندرمودی جی کے دور حکومت میں جہاں کونسل کا بجٹ پہلے کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ ہوگیا ہے وہیں کونسل کی اسکیموں کا دائرہ بھی وسیع ہوا ہے اور ان سے فائدہ اٹھانے والے طلبہ و طالبات کی تعداد سولہ لاکھ سے بھی متجاوز ہوچکی ہے۔انھوں نے ایک اہم اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ سال سے اردو کونسل کی جانب سے ادبی وتخلیقی خدمات انجام دینے والے اردو قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے امیرخسرو ، مرزا غالب،آغاحشر،رام بابوسکسینہ اور دیاشنکر نسیم جیسی اردو کی اہم شخصیات کے نام پر اردو ادیبوں اور تخلیق کاروں کو انعام و اکرام سے نوازاجائے گا۔
اس سے قبل وزیر موصوف نے ڈیجیٹل طریقے سے اجلاس کی شروعات کی اور کونسل کے وائس چیئر مین پروفیسر شاہد اختر اور ڈائریکٹر ڈاکٹر عقیل احمد نے گلدستہ پیش کرکے ان کا خیر مقدم کیا۔
اپنے خیر مقدمی کلمات میں پروفیسر شاہد اختر نے کہا کہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے آپ کو وقت کے مطابق ڈھالتی ہیں۔ آج جبکہ سوشل میڈیا ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن گیا ہے ایسے میں ہمارے تخلیق کاروں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے سماج کی درست رہنمائی کریں۔انھوں نے کہا کہ اردوکے ادیب اور تخلیق کار اپنی ذمے داری سمجھ بھی رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر کئی ادبی فورمز قائم ہوچکے ہیں جو اردو زبان و ادب کو فروغ دے رہے ہیں اور ان کے ذریعے نئی نسل اردو سیکھ رہی ہے۔انھوں نے زور دیا کہ اردو کے قلمکاروں اور تخلیق کاروں کو چاہیے کہ وہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر اردو رسم الخط میں اپنے خیالات کا اظہار کریں تاکہ حقیقی معنوں میں اردو کی ترویج و اشاعت ہوسکے۔
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شیخ عقیل احمد نے تعارفی کلمات میں ویبینار کے موضوع اوراس کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ موجودہ صدی میں سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے ہمارے لیے پوری کائنات کو مٹھی میں قید کردیا ہے۔ اب معلومات، اطلاعات یا خبروں کی رسائی میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہوتی۔ ہر طرح کی اطلاعات ہمارے پاس محض ایک کلک میں پہنچ جاتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اور معلومات کی فراوانی کے دور میں ہمیں مقامیت کے بجائے اپنے فکر میں آفاقیت اور اپنے موضوعات میں وسعت پیدا کرنی ہوگی۔ قلم کاروں کاکام محض جذبات و احساسات کی ترجمانی نہیں ہے بلکہ صارفیت کے ذریعے پیدا ہونے والے عالمی مسائل کو بھی اپنی تحریرو گفتگو کے دائرے میں لانا بھی ہے۔ ڈاکٹر عقیل نے خصوصاً اردو کے ادیبوں اور قلمکاروں کے حوالے سے کہا کہ اردوکے اربابِ قلم ہمیشہ محبت و الفت، امن ویکجہتی اور یگانگت کی تبلیغ کرتے رہے ہیں، انھوں نے ملک کی تعمیر و تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ، آج بھی سوشل میڈیا کے عہد میں وہ اپنے فرائضِ منصبی کو بہ خوبی ادا کررہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح اپنی سماجی و ادبی ذمے داریوں کی تکمیل کرتے رہیں گے۔
پروفیسر زماں آزردہ نے اپنے کلیدی خطبے میں سماج کے تئیں ادیبوں اور تخلیق کاروں کی ذمے داریوں کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ شاعر و ادیب سماج کی آنکھ ہی نہیں،بلکہ اس کے دل کی دھڑکن ہوتے ہیں،وہ قوموں کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں،لہذا انھیں زمانے کی تمام تر تبدیلیوں سے آگاہ رہنا ضروری ہے۔الیکٹرانک اور سوشل میڈیا بھی دورحاضر کی ایک بڑی تبدیلی اور نعمت ہے،آج کے ادیب کی ذمے داری ہے کہ وہ خود کو جدید ٹکنالوجی سے ہم آہنگ کرے اورالیکٹرانک و سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے نئی نسل کو گمراہی سے بچانے کے لیے درست اور مستند تخلیقات پیش کرے۔
افتتاحی سیشن کے اختتام پر کونسل کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر(اکیڈمک) نے شکریے کی رسم اداکی اور نظامت کے فرائض معروف صحافی تحسین منور نے بحسن و خوبی انجام دیے۔ اس موقعے پر کونسل کی جانب سے ڈاکٹر کلیم اللہ(ریسرچ آفیسر)،ڈاکٹر اجمل سعید(اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر)،کونسل کے ٹیکنکل معاونین،دیگر اسٹاف اور ملک و بیرون ملک سے بڑی تعداد میں اسکالرز و دانشوران شریک رہے۔