آسام میں کانگریس اور اے آئی یو ڈی ایف کا اتحاد !
شمس تبریز قاسمی
خبر در خبر (642)
اگر آپ کے عزائم بلند ہیں ۔صبر کرنے کی صلاحیت ہے ۔گالیاں سننے اور اور تنقیدوں کو برداشت کرنے کا جذبہ ہے تو پھر آپ کی کامیابی یقینی ہے ۔ کوئی آپ کو اپنے مشن میں کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتاہے اور آپ کے دشمن آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں گے اور یہ کردکھایاہے آسام کے مولانا بدرالدین اجمل نے ۔وہی کانگریس جس نے 2006 میں کہاتھا ۔ Who is Ajmal ۔ اجمل کون ہے ۔ مطلب اجمل کی ہمارے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ کا ہم سے کوئی موازنہ نہیں ہے ۔ ایسی پارٹی ہر الیکشن میں آتی ہے اور جاتی ہے ۔ کانگریس پر کوئی فرق نہیں پڑنے والاہے ۔جس نے کہاتھا وہ ہیں آسام کے سابق وزیر اعلی ترون گگوئی ۔ آج وہی ترون گگوئی مولانا اجمل کے ساتھ الائنس کرکے 2021 کا آسام اسمبلی الیکشن لڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں ۔کانگریس کیلئے اب کوئی اور چار ہ نہیں رہ گیاہے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ 2021 سے پہلے ایک اور الیکشن دونوں پارٹی ساتھ مل کر لڑے گی۔ کیسے ہوا یہ سب ۔ کیا مسلم لیڈر شپ والی پارٹی سیاست میں اپنا مقام بناسکتی ہے ۔
آسام میں 35 فیصد مسلمانوں کی آباد ی ہے ۔ کشمیر کے بعد بھارت کا یہ دوسرا اسٹیٹ ہے جہاں اتنی بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے ۔ آسام کے گیارہ ضلعوں میں مسلمان اکثریت میں ہیں ۔ یعنی مسلم آبادی 50 فیصد سے زیادہ ہے ۔آسام میں ودھان سبھا کے کل 126 حلقے ہیں جن میں سے 40 حلقے ایسے ہیں جہاں مسلم ووٹ کسی کی جیت ا ور ہار کا فیصلہ کرتے ہیں اور اگر کانگریس اور یو ڈی ایف ساتھ مل کر الیکشن لڑتے ہیں تو ساٹھ سیٹوں پر بغیر کسی دقت کے جیت ہوجائے گی ۔ یہاں زیادہ ترحکومت کانگریس کی رہی اور مسلم ووٹوںکی بدولت ہی ہمیشہ اس کی سرکار بنی ہے ۔
اکتوبر 2005 میں مولانا بدرالدین اجمل نے اپنی ایک سیاسی پارٹی بنائی ۔نام رکھا آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ اور2006 میں ہونے والے اسمبلی چناﺅ لڑنے کی تیاری شروع کردی ۔ کانگریس نے اس پارٹی کی خوب مخالفت کی ۔ اس کو بی جے پی کی بی ٹیم بتایا ۔ ایک انٹرویو میں ترون گگوئی سے سوال کیاگیا کہ کیا آپ مولانا بدرالدین اجمل کی پارٹی سے الائنس کریں گے تو جو اب دیا ہو از اجمل ۔۔ یہ کون ہے ۔ اس کی کیا حیثیت ہے ۔ اگلے برسوں میں کانگریس نے کہاکہ یہ سب بی جے پی کے لوگ ہیں ۔ کبھی کہاکہ یہ فرقہ پرست پارٹی ہے اور کمیونل ایجنڈا چلاتی ہے ۔ یہ الزام صرف کانگریس نے نہیں لگایا بلکہ ملک کے دانشور طبقہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں نے بھی لگایا ۔ کچھ علماءنے ایساہی الزام لگایااور کہاکہ یہ مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے اور بی جے پی کو جتانے کی سازش ہے ۔لیکن مولانا بدرالدین اجمل اور ان کی پارٹی میدان ڈٹی رہی، ثابت قدم رہی ۔ پیچھے نہیں ہٹی ۔ پہلے الیکشن یعنی 2006 کے ودھان سبھا چناﺅ میں 10 سیٹوں پر جیت ملی ۔ 2011 کے ودھان سبھا چناﺅ مولانا اجمل کی پارٹی کو 18 سیٹوں پر جیت ملی اورسب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بن گئی ۔ حکومت کانگریس کی بنی اور اپوزیشن میں یو ڈی ا یف آگئی ۔ بی جے پی تیسرے نمبر پر رہی ۔2016 کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی سرکار بن گئی ۔ کانگریس کو صرف 26 سیٹوں پر جیت ملی تو اس کیلئے بدترین شکست تھی ۔ مولانا اجمل کی پارٹی کو 13 سیٹوں پر کامیابی ملی ۔
لوک سبھا کے چناﺅں میں بھی یوڈی ا یف کا پرفومینس شاندار رہا۔ 2009 کے لوک سبھا میں مولانا بدرالدین ایم پی منتخب ہوگئے ۔ 2014 کے لوک سبھا میں تین سیٹوں پر جیت مل گئی اور یو ڈی ایف کے تین ایم پی پارلمینٹ پہونچے ۔ 2019 کے ودھان سبھا میں دو سیٹ کم ہوگئی ۔ صرف مولانااجمل کی سیٹ بچی ۔
آسام کی سیاست میں مولانا اجمل نے سبھی الزام کا سامنا کرکے اپنا وجود ثابت کردیا اور یہ بتادیاکہ اب آسام میں مولانا اجمل کے پارٹی کے بغیر کوئی بھی سیکولر پارٹی کی سرکار نہیں بن سکتی ہے ۔2016 کے ودھان سبھا چناﺅ میں مولانا اجمل نے کانگریس کو پیشکش کی اتحاد کرنے چناﺅ لڑنے کیلئے لیکن کانگریس نے ٹھکر ادیا ۔ 2019 کے لوک سبھا چناﺅں میں بھی مولانا اجمل نے پوری کوشش کی کان´گریس کے ساتھ الائس کرنے کی لیکن اس مرتبہ کانگریس نے دھوکہ دیا ۔ دہلی میں راہل گاندھی کے ساتھ میٹنگ ہوئی ۔ بات طے ہوگئی کہ دونوں پارٹی ایک ساتھ الیکشن لڑے گی ۔ سیٹوں کا بھی بٹوارہ ہوگیا ۔ سیکولر پارٹیوں کی جیت کیلئے مولانا اجمل اپنی ضد پر قائم رہنے کے بجائے جھکنے پر مجبور ہوگئے ۔ آسام میں لو ک سبھا کی چودہ سیٹیں ہیں ۔ 2014 میں تین سیٹوں پر کانگریس کو جیت ملی تھی اور تین پر یو ڈی ایف کو ۔ یعنی دونوں کی حیثیت برابر تھی ۔ اس کے باوجود مولانا نے کہاکہ ہمیں صرف چا ر سیٹیں چاہیے تین سیٹنگ ایم پی والی اور ایک دوسری۔ بقیہ دس سیٹوں پر کانگریس لڑے ۔اسی کے مطابق مولانا اپنے امیدوار ا تار ے ۔ کانگریس امیدواروں کے مقابلے میں مولانا نے امیدوار کھڑ ا نہیں کیا لیکن کانگریس نے مولانا کی پارٹی کے مقابلے میں بھی مضبوط مسلمان اتار دیااور بالآخر دو سیٹوں پر یو ڈی ایف کو شکست کاسامنا کرناپڑا ۔کانگریس نے جن دس سیٹوں پر اپنا امیدوار اتاراتھا وہاں مولانا کیلئے پرچہ نامزدگی داخل کرنا ممکن نہیں رہ گیاتھا کیوں کہ نامنیشن کی ڈیٹ ان حلقوں میں ختم ہوچکی تھی ۔مطلب اس طرح کانگریس نے دھوکہ دیا ۔۔۔
اب پھر مرتبہ کانگریس ایک مرتبہ الائنس کی بات کررہی ہے۔ آسام کانگریس نے اعلان بھی کردیاہے کہ 2021 کا ودھان سبھا آسام میں کانگریس مولانا اجمل کی پارٹی یو ڈی ایف کے ساتھ مل کر لڑے گی ۔ سیٹوں کی تقسیم کا مسئلہ ابھی باقی ہے ۔ ایک الیکشن میں دونوں ساتھ مل بھی چکے ہیں اور ایک میں ابھی ہوناہے ۔ راجیہ سبھا میں کانگریس اور یو ڈی ایف نے سینئر جرنلسٹ اجیت کمار بھویان کو اپنا مشترکہ امیدوار بنایا تھا اور دونوں پارٹیوں کے سپورٹ سے وہ راجیہ سبھا کے ممبر نے ۔ ابھی آسام میں ایک اور کاونسل کا الیکشن ہوناہے ۔ آسام میں میونسپلٹی الیکشن کی تین باڈی ہے جس میں ایک ہے بی ٹی سی بوڈولینڈ ٹیریٹوریل کونسل ۔ اپریل 2020 میں الیکشن کے ڈیٹ کا اعلان ہوگیاتھا لیکن کرونا کی وجہ سے چھ مہینہ بڑھادیاگیا ۔ اگلے ڈیٹ کا اعلان ابھی باقی ہے لیکن کانگریس اور یوڈی ایف نے یہ الیکشن ساتھ مل کر لڑنے کا اعلان کیاہے ۔ بی ٹی سی کل 40 سیٹیں ہیں ۔ جس میں کانگریس اور یو ڈی ایف صرف 20 سیٹوں پر چناﺅ لڑے گی ۔ کانگریس 14 سیٹوں پر اپنا امیدوار اتارے گی اور یو ڈی ایف چھ سیٹوں پر ۔
مولانا بدر الدین اجمل کا کہناہے کہ یو ڈی ایف شروع سے ملک کے سیکولرزم اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کی لڑائی لڑرہی ہے ۔ہماری پارٹی کا بنیادی مقصد عوام کی خدمت اور انہیں سیاسی طاقت دیناہے ۔ہم نے ہمیشہ کانگریس کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن اس نے انکار کیا بہر حال دیر سے ہی سہی کانگریس کو شعور آیاہے ۔ آسام کانگریس نے ہماری طرف ہاتھ بڑھایا تو ہم ا س کا خیر مقدم کرتے ہیں ۔سیکولر ووٹوں کا بٹوار ہ اب نہیں ہوگا ۔
آسام کا یہ معاملہ صرف آسام تک محدود نہیں ہے بلکہ کہیں بھی اپلائی کرسکتے ہیں ۔ جب بھی کوئی مسلم لیڈر شپ پیداہوتی ہے تو کانگریس اسے بی جے پی کی بی ٹیم کہتی ہے ۔ بی جے پی کے ساتھ گٹھو جوڑ کرنے کا الزام لگاتی ہے اس کی بنیادی مقصدہوتاہے کہ مسلمانوں کی نظر میں نئی مسلم لیڈر شپ کو مجروح کرنا ان کا اعتماد کمزو ر کرنا اور مسلم ووٹوں سے انہیں محروم کرنا اوریہ ثابت کرنا کہ مسلمانوں کا تحفظ اسی و قت ممکن ہے جب کانگریس کو ووٹ دیاجائے گا ۔بہرحال آسام میں کانگریس جے کمیونل پارٹی کہاتھا ۔ بی جے پی کی بی ٹیم کہاتھا اس کے ساتھ آج سمجھوتہ کرلیاہے مطلب سیکولر پارٹی میں اس کا شمار ہوگیا ۔ اس سے پہلے کیرالامیں بھی مسلم لیگ پر اسی طرح ک الزام لگایاگیا لیکن ثابت قدم نے کانگریس کو جھکنے پر مجبور کیا اور وہاں اب کانگریس کا مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد رہتاہے اور کبھی لیفٹ کا اتحاد رہتاہے ۔کوئی بھی سرکار مسلم لیگ کے بغیر نہیں بن پاتی ہے ۔
آج کل آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور ایس ڈی پی آئی کو بی جے پی کی بی ٹیم کہاجارہاہے ۔ بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کا الزام لگایاجارہاہے اور یہ الزام صرف ان پارٹیوں پر نہیں ہے بلکہ غلام نبی آزاد پر بھی راہل گاندھی بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کا الزام لگادیا کیوں کہ انہوں نے کانگریس میں تبدیلی اور ریفورم کی بات کی تھی ۔
ابھی بہار الیکشن سامنے ہیں ۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی کانگریس ، آر جے ڈی جیسی پارٹیاں بی جے پی کا خوف دلاکر مسلم ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی ۔ ان پارٹیوں کا دعوی ہوگا ہم سیکولر ہیں اور ہمارے علاوہ سبھی کمیونل ہیں ۔سیکولر کہنے والی پارٹیاں سبھی کو اپنے اتحاد میں شامل کرے گی ۔ صرف ان پارٹیوں کو ساتھ نہیں ملائے گی جن کی لیڈر شپ کسی مسلمان کے ہاتھ میں ہوگی ۔ لیکن ایک وقت آئے گا جب یہاںبھی آسام اور کیرالاکی طرح تاریخی دہرائے جائے گی ۔ اور یہ سب اسی وقت ممکن ہوگی جب عوام اپنے اپنے لیڈروں ، اپنے نیتاﺅں پر بھروسہ کریں گے ۔ کسی کے کہنے ، کسی کے اشارے اور کسی پارٹی کے خوف سے ووٹ دینے کاسلسلہ بند کریں گے ۔
(مضمون نگار پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com