نیوزی لینڈ کی عدالت کا تاریخی فیصلہ

خبر در خبر (643)
شمس تبریز قاسمی
17 مہینہ پہلے نیوزی لینڈ میں جس دہشت گرد نے کرائسٹ چرچ کی ایک مسجد پر حملہ کیاتھا اوراندھا دھند فائرنگ کر کے 51 نمازیوں کا قتل کر دیا تھا، وہاں کی عدالت نے اسے بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا سنادی ہے ۔ یہ سزا وہاں کے قانون کے مطابق سب سے سنگین ہے اور یہ صرف 17 مہینہ میں عدالت نے کیس کی سنوائی مکمل کرکے مجرم کو سزا سنادی ہے ۔
گزشتہ برس مارچ 2019میں نیوزی لینڈ کی کرائسٹ چرچ کی مسجد پر حملہ کر کے 51 مسلم نمازیوں کو ہلاک کردینے کے قصوروار برینٹن ٹیرینٹ کو سزا سنانے کے لیے عدالتی کارروائی اسی ہفتے پیر کو شروع ہوئی تھی اور آج جمعرات 27 اگست کو عدالت نے انہیں بلا پیرول عمر قید کی سنادی۔
برینٹن ٹیرینٹ اپنے ملک میں ایسا پہلے شخض ہے جسے بغیر پیرول کے عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ نیوزی لینڈ میں موت کی سزا ختم کی جا چکی ہے اور ملکی قوانین کے مطابق یہ سخت ترین سزا ہے۔ اس سے بڑی کوئی اور سزا وہاں ممکن نہیں تھی ۔ملک کی تاریخ میں پہلی بار اتنی سخت سزا سناتے وقت کرائسٹ چرچ ہائی کورٹ کے جج کیمرون مینڈر نے ٹیرینٹ سے کہا کہ جرم اتنا سنگین ہے کہ اگر تمہیں تاحیات قید کی سزا دی جائے تو بھی وہ کافی نہیں ہے۔” آپ کے جرائم۔۔۔۔۔۔ اتنے سنگین ہیں کہ اگر تمہاری موت تک تمہیں حراست میں رکھا جائے تو بھی یہ سزا اور کفارے کے تقاضے کے لیے ناکافی ہوگی۔
جج نے مزید کہا، ”تمہاری کارروائی غیر انسانی تھی۔ تین برس کا ایک کمسن بچہ جو اپنے والد کے پیروں سے کھیل رہا تھا تم نے اسے جان بوجھ کر قتل کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک میں سمجھ سکتا ہوں، تم اپنے رشتہ داروں کے لیے کسی بھی طرح کی ہمدردی کے حقدار نہیں ہو اور نہ و ہ تم سے ہمدردی جتاسکتے ہیں ۔
اس سے قبل عدالت نے سفید فام نسلی برتری کے شکار 29 سالہ آسٹریلوی شہری ٹرینیٹ کو کرائسٹ چرچ کی دو مسجدوں پر حملہ کر کے 51 افراد کے قتل، 40 افراد کے اقدام قتل اور دہشت گردی کے ایک واقعے کا قصور وار قرار دیا تھا۔ ٹرینیٹ نے اپنی اس بہیمانہ کارروائی اور دہشت گردی کو سوشل میڈیا پر لائیو نشر کیا تھا اور حملے سے عین قبل سفید فام نسلی برتری سے متعلق اپنا ایجنڈا بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا تھا۔
عدالت میں سزا سے متعلق کارروائی گزشتہ تین دنوں سے جاری تھی جس کے دوران متاثرین کے اہل خانہ اور حملے میں بچ جانے والے متعدد افراد نے عدالت میں اپنے بیانات درج کروائے اور برنٹن ٹرینیٹ کے سامنے حملے کی ہولناکیوں کا بڑے ہی جذباتی انداز میں ذکر کیا گیا۔ لیکن اس تمام عدالتی کارروائی کے دوران حملہ آور کے چہرے پر شکن تک نہیں آئی اور نہ ہی اس کے چہرے کے تاثرات سے بھی نہیں لگا کہ انہیں اپنی غیرانسانی کرتوتوں پر ذرا سا بھی افسوس اور ندامت ہے۔
ٹیرینٹ نے پچھلے ماہ اپنی دفاعی وکلا کی ٹیم کو برخاست کر تے ہوئے عدالت میں خود اپنا دفاع کرنے کی بات کہی تھی۔ لیکن سزا سنائے جانے سے قبل انہوں نے اپنی بات رکھنے کے حق کو استعمال نہیں کیا اور ان کی جگہ عدالت کی جانب سے مقرر کردہ ان کے وکیل نے چند مختصر باتیں کہیں۔ عدالت کو خدشہ تھا کہ ممکن ہے کہ وہ اس موقع پر سفید فام نسلی برتری سے متعلق اپنی فرسودہ نظریات کی تشہیر کے لیے اس موقع کا استعمال کریں گے تاہم ان کے خود بیان نہ دینے کی وجہ سے یہ تشویش بھی نہیں رہی۔
متاثرین کے اہل خانہ نے قانون کے تحت ٹیرینٹ کو سخت ترین سزا دینے کی درخواست کی تھی۔ نیوزی لینڈ میں موت کی سزا ختم کی ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود حملے میں بچ جانے والے کئی افراد نے غصے میں ان کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کیا تھا۔ نیوزی لینڈ میں عمر قید ہی سب سے سخت اور سنگین سزا ہے۔
عمر قید کی سزا کے تحت بھی قانون کے مطابق اگر ایک شخص نے 10 سے 17 برس جیل میں گزار لیے ہوں تو اسے پیرول پر باہر جانے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ لیکن جج کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ قصوروار کو پیرول پر رہائی کے بغیر بھی عمر کی قید کی سزا سنا سکتا ہے۔
برینٹن ٹیرنٹ کو 16 مارچ کو عدالت میں پیش کیا گیاتھا۔ اپنی پہلی پیشی کے وقت ملزم برینٹ قیدیوں کے سفید لباس میں ملبوس تھا اور عدالتی کارروائی کے دوران خاموش کھڑا رہا۔ ا±س پر قتل کا الزام عائد کیاگیا ۔
اس حملے میں شدید طور پر زخمی ہونے والے ذکریا، جو 48 دن بعد اسپتال میں چل بسے تھے، کی اہلیہ حمیمہ طویان نے جج سے کہا، ”وہ عمر قید کے طور پر 17، 25 یا پھر 30 برس کی سزا کا مستحق نہیں ہے بلکہ اسے اس کی آخری سانس تک جیل میں رکھا جا نا چاہیے۔
سزا سنائے جانے سے قبل نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن نے ایک پریس کانفرنس کے دوران
عدالت میں مضبوطی سے اپنا موقف رکھنے کے لیے متاثرین کے اہل خانہ کی تعریف کرتے ہوئے عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا۔
ان کا کہنا تھا، ”مجھے یقین ہے کہ نیوزی لینڈ کا ہر وہ شہری، جس نے انہیں اس مشکل وقت میں ان کی تکلیف کو سمجھا یا پڑھا ہے وہ یہ دیکھ کر چور چور ہوگیا ہوگا کہ کس طرح وہ اس صدمے سے باہر آنے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔” اطلاعات کے مطابق عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد وزیراعظم آج شام اس پر باضابطہ بیان دے سکتی ہیں۔
15 مارچ 2019 کو کرائسٹ چرچ میں نماز جمعہ کے دوران ٹیرینٹ نے نمازیوں پر اندھادھند فائرنگ کردی تھی۔ اس نے دہشت گردی کے اس واقعے کو فیس بک پر لائیو نشر بھی کیا تھا۔ اس حملے کے فوراً بعد ٹرینٹ نے اپنا ایک مینی فیسٹو بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیا تھا۔ حملے کے 36 منٹ بعد اسے گرفتار کرلیا گیاتھا ۔
اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میںہندوستان، پاکستان، ترکی، سعودی عرب، انڈونیشیا اور ملائشیا کے شہریوں کے علاوہ مقامی نو مسلم شہری بھی شامل تھے۔ اس حملے کی ساری دنیا میں شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔ عالمی لیڈروں نے اس حملے کو ہولناک اور دہشت گردانہ حملہ قرار دیا تھا،

نیوز ی لینڈ کی وزیر اعظم جسینڈا آرڈین نے کہاتھا کہ یہ حملہ ہمارے ملک کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے ۔انہوں نے شدید افسوس کا اظہار کیا اور اس کے بعد ہر موقع پر مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی ۔ نیوزی لینڈ کی پرائم منسٹر نے حملہ میں شہید سبھی مسلمانوں کیلئے پارلیمنٹ میں تعزیتی اجلاس کا انعقاد کیا اور قرآن کریم کی تلاوت سے پارلیمنٹ کا آغاز ہوا ۔انہوں ہسپتال اور گھروں میں جاکر ملاقات کی ۔ کرائسٹ چرچ میں اگلے ہفتہ جمعہ کی نماز میں جسنیڈاڑڈین برقع پہن کر شرکت کی اور نماز بھی ادا کی ۔ان کا انداز بتارہاتھاکہ اس حملہ سے وہ بہت رنجیدہ اور شرمندہے ۔ انہوں نے مسلمانوں کا اعتماد جیتنے کی ہرممکن کوشش اور یہ صاف طور پر بتایاکہ نیوزی لینڈمیں مذہب ، ذات اور دھرم سے اوپر اٹھ کر سبھی کو یکساں حقوق حاصل ہے ۔
دہشت گرد برینٹن کو سزا ملنے کے بعد نیوزی لینڈسمیت دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس کا خیر مقدم کیا ہے اور نیوزی لینڈکی عدالت کو اتنا جلد فیصلہ سنانے پر مبارکباد پیش کی ہے ۔ جدید جمہوریت میں ایسابہت کم ہوتاہے کہ کی کیس سنوائی اس قدر جلد ہوجائے اور محض 17 ماہ میں ملزم کا ٹرائل مکمل کرکے اسے سزا مل جائے ۔ بھارت میں بابری مسجد کی شہادت کو تقریبا 30 سال ہوچکے ہیں لیکن ابھی تک مجرموں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیاگیا ہے ۔ سبھی ملزم آزاد گھوم رہے ہیں ۔ دوسری طرف نیوزی لینڈ نے دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کی ہے کہ مسجد پرنماز کے دوران حملہ ہوا تو صرف 17 ماہ میں واقعہ کے مجرم کو ملکی قانون کے مطابق سب سے سخت اور انتہائی سنگین سزا سنادی گئی ہے ۔
(مضمون نگار پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر اور ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com