واقعہ کربلا اور تاریخی حقائق

خبر در خبر (644)
شمس تبریز قاسمی
دسویں محرم الحرام کو اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کے یہاں بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے، اور اس کی کئی ساری وجوہات ہیں لیکن سب سے زیادہ اس کا تذکرہ واقعہ کربلا کی وجہ سے ہوتا ہے کیوں یہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت سے جڑا معاملہ ہے ۔ آئیے جانتے ہیں پوری تاریخ ۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ اور جانشیں بنے ۔ ان کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے ۔ تیسرے نمبر پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ خلیفہ بنے ۔ حضرت عثمان غنی کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو مسلمانوں نے خلیفہ تسلیم کرلیا ۔ اس دوران حضرت امیر معاویہ اور حضرت علی کے درمیان کچھ اختلاف ہوا ، اور پھر معاملہ بہتر ہوگیا ۔ آپس میں صلح سمجھوتہ ہوگیا ۔661 عیسوی میں حضرت علی رضی اللہ تعالی شہید ہوگئے ۔ ان کے بعد لوگوں حضرت علی کے بڑے بیٹے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ حضرت حسن کو خلیفہ تسلیم کرلیا ۔ ادھر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ طویل عرصہ سے شام کے گورنر تھے ۔ حضرت علی کے بعد انہوں نے بھی اپنی خلافت کا اعلان کردیا ۔ کچھ عرصہ تک اختلاف رہا اور پھر ۶ ماہ بعد حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ خلافت چھوڑنے کا اعلان کردیا ۔ حضرت امیر معاویہ اور حضرت حسن کے درمیان ایک سمجھوتہ ہوا جس میں یہ بات بھی شامل تھی کہ حضرت امیر معاویہ اپنے بعد اپنے خاندان میں خلافت کو منتقل نہیں کریں گے بلکہ شوریٰ کے ذریعہ انتخاب ہوگا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پچھلے بیس سال یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے شام کے گور نر تھے اور اب وہ عالم اسلام کے متفقہ خلیفہ بن گئے ۔مسلمانوں کے درمیان جاری رسہ کشی کا بھی خاتمہ ہوگیا ۔ حضر امیر معاویہ نے عالم اسلام کی بہتری کیلئے کئی اہم فیصلہ کئے اور کئی تاریخی کارنامہ انہوں نے انجام دیا۔ انہوں نے بحری بیڑہ فوج کی تشکیل دی ۔ اس طرح سمندری فوج تشکیل دینے والے وہ پہلے خلیفہ ہیں ۔ انہوں نے قسطنطنیہ پر بھی حملہ کیا ۔ اسی جنگ میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شریک ہوئے تھے جو شہید ہوگئے اور انہیں وہیں تدفین کیا گیا ۔ آج تک ان کی قبر استنبول میں موجود ہے ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے بعد اپنا جانشیں اور عالم اسلام کا خلیفہ اپنے بیٹے یزید کو مقرر کردیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ فیصلہ کو قبول کریں ۔ اسلامی تاریخ میں اس کیلئے بیعت کا ٹرم استعمال ہوتا ہے ۔ مطلب یہ کہ مسلمان یزید کی بیعت کریں ۔ جب یہ فیصلہ ہوا تھا اس وقت سینئر اور جید صحابہ کرام مدینہ میں موجود تھے ۔ حضرت امیر معاویہ نے مدینہ کے گورنر مروان بن حکم سے کہاکہ وہ مدینہ میں سبھی سے یزید کیلئے بیعت لیں ۔ مدینہ کے سینئر صحابہ نے انکار کردیا جن میں حضرت حسین ابن علی ۔ حضرت عبد اللہ ابن زیبر ۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر اور حضرت عبد الرحمن بن ابو بکر کے نام بہت اہم ہیں ۔صحابہ کرام کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ حضرت امیر معاویہ نے اپنے بیٹے کو اگلا خلیفہ مقرر کردیا جو اسلامی مزاج اور شریعت کے خلاف سمجھا گیا ۔ اس سے پہلے کسی بھی خلیفہ نے اپنی اولاد اور رشتہ دارکو اپنا ولی عہد اور اپنے بعد خلیفہ منتخب نہیں کیا تھا ۔ یہ فیصلہ حضرت حسن کے ساتھ ہوئے معاہدے کے بھی خلاف تھا ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیوں کیا اس کی کوئی خاص اور ٹھوس وجہ نہیں ملتی ہے ۔ کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ انہیں ان سے دشمنی رکھنے والے ایک حاکم نے مشورہ دیا تھا تاکہ معاویہ کی شاندار کارکردگی اور تاریخی کارنارمے کے بجائے انہیں اس معاملہ کیلئے یاد رکھا جائے کہ امیر معاویہ نے ہی خلافت اولاد کو منتقل کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ بہر حال امیر معاویہ ایک عظیم ، کامیاب ، عادل اور انصاف پرور خلیفہ ثابت ہوئے ۔ وہ 661 سے 680 تک تقریباً بیس سال خلیفہ رہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے لمبی مدت تک امیر معاویہ ہی خلیفہ رہے ۔ اپریل 680 عیسوی میں حضرت امیر معاویہ کا انتقال ہوگیا ۔ وصیت کے مطابق یزید اگلے خلیفہ منتخب ہوئے ۔ سینئر صحابہ کرام نے یزید کو خلیفہ تسلم کرنے سے انکار کردیا ۔ دوسری طرف کوفہ سے حضرت حسین رضی اللہ تعالی کے شیداؤں نے خط لکھا کہ آپ کوفہ تشریف لائیں ہم آپ کے ہاتھ پر بیعت کریں گے ۔ آپ کو خلیفہ تسلیم کریں گے ۔ ہم لوگ یزید کے خلایفہ تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ کوفہ سے تقریباً 18 ہزار خطوط حضرت حسین کو موصول ہوئے ۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے کوفہ جانے کا فیصلہ کرلیا ۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ماننا تھاکہ یزید کا خلیفہ رہنا ظالم کی حکومت کو تسلیم کرنا ہے ۔ یزید کی خلافت اسلام اور شریعت کے خلاف ہے ۔ دوسری طرف یزید بن معاویہ کی ذاتی شخصیت بھی تنازع کا شکار تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ یزید شکار ، تفریح اور شراب کا عادی تھا ۔ لوگوں کا بھی ماننا تھا کہ ان میں خلیفہ بننے کی اہلیت اور صلاحیت نہیں ہے ۔
یزید ہر حال میں حضرت حسین سے بیعت لینا چاہتا تھا کیوں کہ حضرت حسین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ تھے ۔ ان کی بیعت کے بعد ہی یزید کی خلافت مستحکم ہوسکتی تھی اور عالم اسلام میں خلافت کی اہمیت تسلیم کی جاتی ۔حضرت حسین اسے نااہل سمجھتے تھے اور اسے ہٹانا اپنا فرض گردانتے تھے ۔
کوفہ والوں پر بھروسہ کرتے ہوئے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ پہلے مدینہ سے مکہ روانہ ہوئے ۔ وہاں اہل بیت ، جاں نثاروں اور ساتھیوں کے ساتھ کوفہ کیلئے نکل گئے ۔ مکہ میں اس وقت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ تھے ۔ انہوں نے حضرت حسین کو روکا اور کہاکہ آپ یہیں رہیں نہیں جائیں ۔ مکہ میں ہی رک کر خلافت قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ حضرت حسین نے کہاکہ ہم حق کے خاطر ہر حال میں جائیں گے ۔ حضرت عبد اللہ بن زبیر نے کہا کہ آپ بچوں اور خواتین کو ساتھ لیکر نہیں جائیں ۔ اور بھی کئی لوگوں نے روکنے کی کوشش کی لیکن حضرت حسین کا ارادہ پختہ تھا وہ رکے نہیں اور یہاں سے کوفہ کیلئے روانہ ہوگئے ۔
دوسری طرف یزید کو پورے معاملے کا علم ہوچکا تھا ۔ کوفہ میں ان کے گورنر اس وقت نعمان بن بشیر تھے ۔ کوفہ میں یزید کے خلاف اور حضرت حسین کی حمایت میں ہونے والی سبھی سرگرمیوں پر ان کی پوری نگاہ تھی لیکن وہ اسے نہیں روک رہے تھے ۔ مؤرخین کا کہنا ہے کہ نعمان بن بشیر بنو امیہ کے گورنر ضرور تھے لیکن وہ بھی یزید کو خلافت کا حقدار نہیں سجھتے تھے ۔ یزید کے جاسوسوں نے انہیں نعمان بشیر کے بارے میں خبر دار کیا اور کہا کہ فوری طور پر گورنر تبدیل کیا جائے ۔ یزید نے فوری قدم اٹھاتے ہوئے عبید اللہ بن زیاد کو فہ کا گورنر مقرر کیا ۔ عبید اللہ بن زیادہ خاندان بنوامیہ کا بہت بڑا شیدائی اور حضرت حسین کا بہت بڑا دشمن تھا ۔ اس نے پورے کوفہ کی چھان بین شروع کردی ۔ بصرہ میں بھی اس نے ناک بندی کردی ۔ ہر جگہ فوج تعینات کردیا آج کی زبان میں کہیے کہ کوفہ اور بصرہ میں عبید اللہ بن زیادہ نے سخت کرفیو لگادیا اور ایک ایک کرکے حضرت حسین رضی اللہ تعالی سے رابطہ کرنے والوں کو گرفتار کرنا شروع کردیا ۔ عبید اللہ بن زیاد نے زیادہ تر کو قتل کردیا اور کچھ گرفتار کرلیا ۔ کوفہ میں حضرت حسین نے اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بناکر بھیج رکھا تھا یہ جاننے کیلئے کوفہ والے کتنے سچے اور وفادار ہیں ۔ کیا وہ واقعی ہمارے ساتھ وفاداری نبھائیں گے یا دھوکہ دیں گے ۔ حضرت مسلم بن عقیل جب کوفہ گئے تو لوگوں نے ساتھ دیا ۔ ان کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن جب عبیداللہ بن زیادہ نے کوفہ آنے کے بعد سختیاں شروع کی ۔حضرت حسین سے تعلق رکھنے کے شک میں لوگوں کو قتل کیا تو یہ سبھی پیچھے ہٹ گئے ۔ انہیں لوگوں نے مسلم بن عقیل کو عبید اللہ بن زیادہ کے حوالے کردیا جنہیں قتل کردیا گیا ۔ مسلم بن عقیل نے قتل سے پہلے ایک شخص سے کہا کہ تم حضرت حسین کو میرا صرف یہ پیغام پہونچا دو کہ وہ کوفہ والوں پر بھروسہ نہیں کریں ۔ یہ وفادار نہیں ہیں ۔
ادھر کوفہ کے راستے میں حضرت حسین کو جگہ جگہ گھیرنے کی کوشش کی گئی لیکن اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے ۔ عرب کے صحراؤں سے نکلنے کے بعد جب عراق کا راستہ شروع ہوا تو عبید اللہ بن زیاد کی چار ہزار فوج نے راستہ روک لیا اور کہا آپ کوفہ نہیں جاسکتے ہیں ۔ اسی دوران حضرت حسین کو مسلم بن عقیل کا وہ خط بھی مل گیا جو انہوں نے اپنے قتل سے پہلے بھیجا تھا کہ کوفہ والوں نے بے وفائی کی ہے ۔ ان پر ہر گز بھروسہ نہیں کریں ۔ حضرت حسین نے یزید کی فوج سے درخواست کی میری تین مانگ میں سے کوئی ایک قبول کرو ۔ نمبر ایک : مجھے واپس مدینہ منورہ جانے دو ۔ نمبر دو : تم میرے راستے ہٹ جاؤ اور مجھے جانے دو ، میں دنیا کے کسی بھی کونے میں چلا جاؤں گا اور وہاں کافروں کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے شہید ہونا چاہتا ہوں ۔ اگر یہ دونوں منظور نہیں ہے تو تم ہمیں یزید کے پاس لے چلو یہ ہم دونوں کا معاملہ ہے براہِ راست مل کر معاملہ حل کریں گے ۔ عبید اللہ بن زیاد نے ان میں سے کسی بھی شرط کو تسلیم نہیں کی اور اپنے سپہ سالار عمر و بن سعد بن ابی و قاص سے کہا کہ اسے وہاں لیکر جاؤ جہاں ہم چاہتے ہیں ۔
عبید اللہ بن زیادکی ہدایت تھی کہ حضرت حسین کو وہاں روکنا ہے جہاں چٹیل میدان ہو ۔ اس فرمان پر سپہ سالار نے عمل کرتے ہوئے 2 محرم الحرام 61 ھ۔ 2 اکتوبر 680ء کو حضرت حسین کو روک دیا ۔ اس چٹیل میدان کا نام کربلا تھا ۔حضرت حسین نے پہلے وہاں پر ایک جگہ خریدکر اپنا کیمپ لگایا ۔ یزید اپنے گورنروں کے ذریعہ اپنی باتوں کو قبول کرنے کے لیے امام حسین پر دباؤ ڈالتا رہا ، جب امام حسین نے یزید کی شرائط کو نہیں مانا تو آخر کار دشمنوں نے نہر پر فوج کا پہرہ لگایا اور پانی کو حضرت حسین کے کیمپوں میں داخل ہونے سے روک دیا ۔ 7 محرم کے بعد حضرت حسین اور ان کے پورے جاں نثاروں اور اہل بیت کو پیاسے رہنے پر مجبور کردیا ۔ نہر سے پانی نہیں لینے دیا ۔ یزید کی فوج کو دیکھ کر کوفہ عراق کے لوگ، جنہوں نے اپنا خلیفہ بنانے کے لیے امام حسین کو بلایا تھا ، وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔
تین دن گزر جانے کے بعد، جب امام کے گھر والوں کے بچوں کو پیاس لگنے لگی، تو حسین نے یزیدی فوج سے پانی طلب کیا، دشمن نے پانی دینے سے انکار کر دیا، دشمنوں نے سوچا کہ امام حسین پیاس سے ٹوٹ کر ہمارے تمام حالات کو قبول کر لیں گے ۔ جب تین دن کی پیاس کے بعد بھی حسین نے یزید کی بات نہیں مانی تو دشمنوں نے حسین کے کیمپوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا ۔ حضرت حسین نے ایک رات کی دشمنوں سے مہلت طلب کی اور کہاکہ آج رک جاؤ ۔ اس رات حضرت حسین اور ان کے اہل خانہ نے اللہ کی عبادت کی۔
10 اکتوبر 680 ۔ 10 محرم 60 ہجری کو ، نمازِ فجر کے بعد یزید کی فوج کو مخاطب کرکے حضرت حسین نے ایک تقریری کی ۔
اے لوگو! جلدی نہ کرو ، پہلے میری بات سن لو ۔ مجھ پر تمہیں سمجھانے کا جو حق ہے اسے پورا کرلینے دو اور میرے آنے کی وجہ بھی سن لو ۔ اگر تم میرا عذر قبول کرلوگے اور مجھ سے انصاف کروگے تو تم انتہائی خوش بخت انسان ہو گے لیکن اگر تم اس کے لیے تیار نہ ہوئے تو تمہاری مرضی ۔ تم اور تمہارے شریک مل کر میرے خلاف زور لگا لو اور مجھ سے جو برتاؤ کرنا چاہتے ہو کر ڈالو ۔ اللہ تعالٰی میرا کارساز ہے اور وہی اپنے نیک بندوں کی مدد کرتا ہے “
لوگو ! تم میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں ۔ اپنے گریبانوں میں جھانکو اور اپنے آپ کو ملامت کرو ۔ تم خیال کرو کیا تمہیں میرا قتل اور میری توہین زیب دیتی ہے ؟ کیا میں تمہارے نبی کا نواسہ اور ان کے چچیرے بھائی کا بیٹا نہیں ۔ جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالٰیٰ کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے رسول پر ایمان لائے ؟ کیا سیدالشہداء حضرت امیر حمزہ میرے والد کے چچا نہ تھے؟ کیا جعفر طیار میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں رسول اللہ کا وہ قول یاد نہیں جو انہوں نے میرے اور میرے بھائی کے بارے میں فرمایا تھا کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہوں گے ؟ اگر میرا یہ بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے تو بتاؤ کہ تمہیں ننگی تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا ہے ؟ اور اگر تم مجھے جھوٹا سمجھتے ہو تو آج بھی تم میں سے وہ لوگ موجود ہیں جنہوں نے میرے متعلق رسول اللہ کی حدیث سنی ہے ۔ تم ان سے دریافت کرسکتے ہو ۔ تم مجھے بتاؤ کہ کیا آپ کی اس حدیث کی موجودگی میں بھی تم میرا خون بہانے سے باز نہیں رہ سکتے “
کوفیوں اور یزید کی فوج پر اس تقریر کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ صرف حر بن یزید تمیمی پر اس تقریر کا اثر ہوا اور وہ یہ کہتے ہوئے حضرت حسین کی طرف آگیا کہ
” یہ جنت یا دوزخ کے انتخاب کا موقع ہے ۔ میں نے جنت کا انتخاب کر لیا ہے خواہ مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا جلا دیا جائے ۔
اس کے بعد لڑائی شروع ہوئی ۔ مؤرخین نے اسے جنگ لکھا ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ جنگ نہیں تھی ۔ شریعت کی خاطر جان دینے والوں کا ایک مختصر سا قافلہ تھا جس نے اپنی جان قربان کرکے آنے والی نسلوں کو حق کی خاطر جان دینے کا جذبہ اور حوصلہ دیا ۔ یزید کی فوج تقریباً 45 ہزار تھی ۔ دوسری طرف صرف 72 جاں نثار موجود تھے ۔ حضرت حسین جب مکہ سے روانہ ہوئے تھے تو ان کے ساتھ پانچ سو سے زیادہ لوگ تھے لیکن راستے میں سب جدا ہوگئے ، کچھ آخری رات میں کربلا کے میدان سے نکل گئے ۔ امام حسین کے ساتھ صرف 75 یا 80 مرد تھے، جن میں 6 ماہ سے 13 سال تک کے بچے بھی شامل تھے۔
حضرت حسین اور ان کے ساتھیوں نے دشمن کی صفوں پر ٹوٹ کر حملہ کیا ۔ شجاعت اور بہادری کی تاریخ رقم کردی لیکن ایک ایک کرکے سبھی 72 جاں نثار شہید ہوگئے ، اخیر میں حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی دشمنوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ لیکن ان میں سے کوئی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا گناہ اپنے سر نہیں لینا چاہتا تھا ۔ بالآخر شمر ذی الجوشن کے اکسانے پر زرعہ بن شریک تمیمی نے یہ بدبختی مول لی اور حضرت حسین کے ہاتھ اور گردن پر تلوار سے حملہ کیا ۔ سنان بن انس نے تیر چلایا جس کے بعد حضرت حسین گر گئے ۔ ان کے گرنے پر شمر ذی الجوشن آگے بڑھا اور اس ملعون نے حضرت حسین کا سر پیچھے کی طرف سے (پسِ گردن سے) کاٹ کر جسم سے جدا کر دیا۔
عبید اللہ ابن زیاد کے حکم پر حضرت حسین کا سر الگ کرکے جسم کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے روند دیا گیا ۔ اس کے بعد تمام شہدائے اہلِ بیت کے سر کو نیزوں کی نوک پر رکھ کر پہلے ابنِ زیاد کے دربار میں لے جاگیا اس کے بعد دمشق میں یزید کے دربار پہونچایا گیا ۔ اہل بیت کی سبھی خواتین کو بھی یزید کے دربار میں پہونچایا گیا ۔
یزید نے اپنے دربار میں حضرت حسین کا سر دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ میں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا ۔ قتل کرنے میں جلدی کی ۔ میں ہوتا تو معاف کردیتا ۔ کچھ دوسرے مؤرخین نے لکھا ہے کہ یزید نے خوشی کا اظہار کیا ۔ کربلا کے میدان میں جتنے مرد تھے سبھی شہید ہوگئے ۔ صرف حضرت زین العابدین زندہ بچے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بیمار ہونے کی وجہ سے جنگ میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور علی بن حسین جنہیں عمر بن سعد نے بچالیا ۔ دمشق میں یزید نے حضرت حسین اور ہاشمی خاندان کی خواتین کے ساتھ حسن سلوک کیا ۔ کربلا میں ان کے جو سامان لوٹ لئے گئے تھے اسے واپس کروا دیا ۔ اپنے محل میں سبھی کو بطور مہمان رکھا اور پھر انہیں ایک قافلہ کی نگرانی میں پورے اعزاز کے ساتھ مدینہ واپس بھیجوا دیا ۔
کربلا کے واقعہ نے عالم اسلام اور مسلمانوں پر گہرا اثر چھوڑ ایک طرف جہاں یہ حادثہ حق اور صداقت کی خاطر جان دینے کیلئے مثال بن گیا تو دوسری طرف مسلمان بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ۔ سنی اور شیعہ ۔ شیعوں نے اس واقعہ کو اپنی ثقافت کا سب سے اہم واقعہ مان لیا ۔ اس واقعہ کا ہر لمحہ شیعوں کے یہاں انتہائی اہم ہے ۔دوسری طر ف ا سے ایک جنگ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس کا مقصد نا اہل خلیفہ کو برطرف کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے کامیابی نہیں مل سکی ۔
مسلمانوں کے درمیان اب یزید تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے جس پر ایک طرف سبّ و شتم اور تنقید کی بوچھاڑ ہوتی ہے تو دوسری جانب رد عمل کے طور پر کچھ لوگ یزید کی پارسائی اور مناقب بیان کرنے کا محاذ سنبھال لیتے ہیں ۔ یوں دونوں جانب کی کھینچا تانی نے حقائق کو کافی حد تک مسخ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا موقف نہایت معتدل اور حقیقت پر مبنی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یزید کے بارے میں تین گروہ پائے جاتے ہیں ۔ ایک گروہ اس کی تحسین و تعظیم کرتا ہے اور اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے ۔ دوسرا گروہ اس پر سبّ و شتم اور لعنت بھیجتا ہے اور اس کی تفکیر ضروری سمجھتا ہے ۔ تیسرا موقف ہمارا ہے کہ ہم نہ اس سے محبت کرتے ہیں، نہ اس کی تعظیم و تحسین اور نہ ہی اس کو گالیاں دیتے ہیں اور نہ ہی کافر سمجھتے ہیں ۔ امت کا معتدل طبقہ اسی قول پر عمل پیرا ہے ۔
10 ویں محرم ا لحرام کو جلوس نکالنے ۔ تعزیہ بنانے اور مجلس منعقد کا سلسلہ اسی کربلا کے میدان اور حضرت حسین کی دردناک شہادت سے جڑا ہوا ہے ۔ کچھ لوگ اسے بدعت مانتے ہیں اس طرح کے کاموں کو گناہ سمجھتے ہیں ۔ کچھ لوگ اسے ثقافت اور مذہب کا حصہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں ۔
stqasmi@gmail.com
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں )

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں