مودی اور آ ر ایس ایس کے بیچ اختلاف کا سبب بننے والی اس کتاب میں کیاہے ؟

خبر در خبر (648)
شمس تبریز قاسمی
وزیر اعظم نریندر مودی اور آر ایس ایس کے بیچ ایک معاملے پر شدید اختلاف سامنے آیا ہے ۔ معاملہ ایک کتاب اور ایک شخصیت کا ہے ۔ ایک شخص ہے جس کے بارے میں سرکار نے کتاب شائع کی ہے ۔ پی ایم مودی نے اس کو ریلیز کیا ہے ۔ ا س کتاب میںبتایاگیاہے کہ وہ مسلمان جنگ آزادی کا عظیم ہیر و ہے ۔ آزادہندوستان کی تاریخ میں اس کا کردار ناقابل فراموش ہے ۔ آر ایس ایس کامانناہے کہ وہ مسلمان ہندو زمین داروں کا قاتل ہے اور مطالبہ کیا جارہاہے کہ اس کتاب کو بین کیاجائے ۔
کیا ہے اصل معاملہ ؟
مشہور انگریزی اخبار ٹیلی گراف ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جس کتاب کا اجراءکیا ہے سنگھ پریوار اس کتاب پر پابندی عائد کرنا چاہتا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق ، اس کتاب کے کچھ حصے 1921 مالباربغاوت کے سب سے ممتاز رہنما و وریا کمناتھ کونجا ہمدم حاجی پرمشتمل ہیں ، جنھیں شدت پسند و ”ہندو مخالف“ بتاتے ہیں ۔
مرکزی حکومت کے ذریعہ شائع ہونے والی اس کتاب پر سنگھ پریوار کا شدید اعتراض ہے ، یہ معاملہ سوشل میڈیا کے ذریعے آیا ، لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ خود وزیر اعظم کے ہاتھوں یہ کتاب ریلیز ہوئی ہے ۔
”آزادی ہند کی جدوجہد(1857-1947) کے شہداءکے نام“
Dictionary of Martyrs of India’s Freedom Struggle(1857-1947)
سے منسوب کتاب ، وزارت ثقافت اور ہندوستانی تاریخی تحقیقاتی کونسل نے مشترکہ طور پر شائع کیا ہے۔
اس کتاب میں مالبار بغاوت کے سب سے ممتاز رہنما واریامکوناتھ کنجماہمدم حاجی کی شخصیت کو مثبت انداز یں پیش کیاگیاہے اور انہیں جنگ آزادی کا ایک ہیرو بتایاہے ۔ مکوناتھ حاجی نے شمالی کیرالہ میں برٹش حکومت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی تھی ۔ مالبار میں حاجی نے اپنی حکومت قائم کرلی تھی ۔ خلافت موومینٹ کے بڑے لیڈروں میں سے ایک تھے اور انگریزوں کیلئے کیرالہ میں رہنا مشکل کردیاتھا ۔

اس کتاب میں 1857 کے بعد شروع ہونے والی فوج بغاوت کا تذکرہ ہے ۔ حقیقت میںیہ بغاوت نہیں بلکہ آزادی کی لڑائی تھی اور پوری قوت کے ساتھ آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی تھی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ہاتھوں سے اس کتاب کا اجرا ءکیا ۔اس موقع پر پی ایم مودی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ جن شخصیات کی خدمات کا اس کتاب میں تذکرہ ہے وہ جنگ آزادی کے ہیروہیں ۔ ان لوگوں نے ملک کی تشکیل اور نئی تاریخ میں نمایاں کردار ادا کیاہے وہ سبھی قابل احترام اور لائق اعزاز ہیں ۔
مالبار بغاوت کا آغاز لازمی طور پر انگریزوں اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف تھا ، لیکن ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کا یہ واقعہ بہت سارے جابر اور ظالم ہندﺅں کے خلاف بھی ہوگیا ۔ دلتوں اور مظلوموں کو ستانے والے برہمنوں کو بھی اس تحریک سے بہت زیادہ نقصان پہونچا ۔ مزدوروں اور دلتوں کو غلام سمجھنے والے گروہ کے خلاف بھی یہ تحریک فعال ہوگئی ۔ان لوگوں کو بھی اپنی منمانی کرنے سے روک دیا جو غریبوں پر ظلم ڈھاتے تھے اور اپنا غلام سمجھتے تھے۔ دلت اور کسان طاقتور ہوئے ۔ کھیت میں کام کرنے والے لوگوں کے ہاتھوں بہت سارے زمیندار ہلاک ہوگئے۔The Dictionary of Martyrs of India’s Freedom Struggle
کون ہیں یہ حاجی ؟
واریام کننوتھ حاجی ۔یہ ملیام کا لفظ ہے۔20جنوری 1877 میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والدین ایک مشہور تاجر تھے ۔ مدرسہ سے انہوںنے مذہب کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد دیگر علوم حاصل کیا ۔ جب یہ پیدا ہوئے اس وقت ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی ۔ کیرالہ میں انگریز قابض تھے ۔ انہوں نے ابتدا میں سماجی کام کرنا شرو ع کیا ۔ غریبوں کی مدد کی ۔ دلتوں کی مد د کی ۔ انگریزوں ، اور برہمنوں کے ظلم اور تشدد سے دلتوں ،کمزوروں اور آدی واسیوں کو مسلسل بچانے کاکام کیا ۔ آگے چل کر خلافت موومینٹ سے جڑ گئے۔ اپنی ایک فوج تشکیل دے اور انگریزوں کے خلاف باضابطہ بغاوت کا اعلان کردیا ۔ مالبار کے خطے میں جسے آج کیرلاکہاجاتاہے انگریزوں کا رہنا مشکل کردیا ۔ انگریزوں کو شکست کا سامنا کرناپڑ اور مالبار کے پورے علاقے میں حاجی نے اپنی حکومت بنالی ۔ انگریزوں نے کئی مرتبہ اسے ختم کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ 1922 میں انگریزوں نے چاروں طرف سے حاجی کا احاطہ کرلیا اور بالآخر انہیں گرفتار کرلیا ۔ برٹش کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی کی سزا سنادی گئی ۔ ایک دوسری تاریخ یہ ہے کہ انگریز فوج حاجی کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ۔ حاجی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ آخر ی سانس تک جنگ جاری رکھی او ر لڑتے ہوئے ان کی شہادت ہوگئی ۔انگریز فوج نے انہیں گولی ماردیا۔ حاجی کے حکومت کے سبھی دستاویز ات کو بھی انگریزوں نے آگ کے حوالے کردیا ۔ حکومت کا نام ونشان مٹانا چاہا لیکن کیرالا میں انگریزوں کے خلاف لڑنے والے یہ حاجی آج بھی زندہ ہیں اور مودی حکومت کو بھی اسے اپنے کتاب میں شامل کرنا پڑاہے ۔مالبار میں حاجی حکومت پانچ مہینہ تک قائم رہی 22اگست 1921 کو ان کی حکومت خاتمہ ہوا ۔وہ ان عظیم مجاہدوں میں شامل ہیں جنہوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ جیت کر اپنی علاحدہ حکومت قائم کی ۔ انگریزوں کی غلامی اختیار نہیں کی ۔تحریک خلاف کا بھر پور ساتھ دیا اور خلافت عثمانیہ کو برقرار رکھنے میں اپنا پورا کردار نبھایا ۔
ٹیلی گراف نے بھی حاجی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جنوبی ہندوستان میں واریامکوناتھ کنجمداد حاجی عام طور پر ایک محب وطن کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔انہوں نے انگریزوں کے خلاف عظیم تحریک چھیڑی تھی ۔ پوری زندگی وہ انگریزوں کے ظالمانہ نظام کے خلاف لڑتے رہے ۔ انہوں نے اپنی ایک چھوٹی سے فوج بھی تیار کرلی تھی ۔ انگریزوں نے انہیں عہدہ دینے کی کوشش کی ۔ کئی سارا لالچ دیا لیکن وہ مانے نہیں بلکہ بھارت کیلئے لڑتے رہے ۔ انگریزوں کے خلاف لڑائی کے ساتھ انہوں نے برہمنواد کے خلاف بھی تحریک چھیڑ رکھی تھی ۔ دلتوں اور آدی واسیوں کو برہمنوں کے ظلم سے بچایا ۔ زمین دار ہندوﺅں کو ظلم کرنے سے روکا ۔دلتوں اور آدی واسیوں کا ہر موقع پر ساتھ دیا اور ان کا استحصال نہیں ہونے دیا اور اپنی حکوت قائم کرلی ۔حاجی نے اپنی جان کی پرواہ کئے انگریزوں کے خلاف جاری رکھی اور لڑتے ہوئے اپنی جان دے دی ۔انگریزوں کے ساتھ ایک لڑائی میں انہیں گولی ماردیا گیا اور ووطن کی خاطر لڑتے ہوئے شہید ہوگئے ۔
آر ایس ایس مخالف کیوں؟
آر ایس ایس کا الزام ہے کہ حاجی نے ہندو زمینداروں کا قتل کیا تھا ۔ ہندو زمین داروں کو نقصان پہونچایاتھا ۔مالبار خطہ اور شمالی کیرالہ کے نچلی ذات کے کسانوں کو جن ہندﺅں نے بہت تکلیف دی تھی ان کے خلاف حاجی نے محاذ قائم کررکھا تھا ۔۔۔۔ اسی بنیاد پر آر ایس ایس حاجی کے خلاف ہے ۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جو آر ایس ایس کو ناپسند ہے۔ اسی واقعہ کی بنیاد پر اس کتاب میں حاجی کا تذکرہ آر ایس ایس کو منظور نہیں ہے ۔ آر ایس ایس کا منصوبہ ہے کہ اس کتاب پر بین لگ جائے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کتاب کو خود حکومت نے شائع کیا ہے اور اس کی ریلیز خود پرائم منسٹر کے ہاتھوں ہوئی ہے ۔اس کتاب کے کچھ حصے کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں ، خاص طور پر وہ حصے جن میں حاجی اور ان لوگوں کا ذکر ہے جن کا دائیں بازو کا رجحان ہے۔ شدت پسند ہندو اور آر ایس ایس کی سوچ رکھنے والے وزیر اعظم کے اس رویہ سے پریشان ہیں ۔ کئی ہندو تنظیموں نے مرکزی حکومت کو خط لکھ کر اس کتاب پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

stqasmi@gmail.com
(کالم نگار ملٹ ٹائمز کے چیف ایڈیٹر اور پریس کلب آف انڈیا کے ڈائریکٹر ہیں )